0
Wednesday 2 Apr 2014 08:35

ہم اور ہمارے صحرائی دوست

ہم اور ہمارے صحرائی دوست
تحریر: ایاز امیر 

پاکستان نے ابھی تک سعودی عرب میں بھجوائے گئے اپنے وہ فوجی دستے واپس نہیں بلائے ہیں جنہیں ضیاء دور میں 1980ء کی دہائی میں وہاں بھیجا گیا تھا۔ جنرل ضیاءالحق کی کوشش تھی کہ کسی طرح اس اسلامی ریاست کو مزید اسلامی، بلکہ اپنی سوچ کے مطابق درست اسلام کے رنگ میں رنگ لیا جائے۔ وہ مذہبی سوچ کے حوالے سے قدامت پسند تھے، اس ضمن میں اُنہیں مولانا مودودی کی رہنمائی حاصل تھی اور اگر میری یادداشت ساتھ دے رہی ہے تو مولانا کے لیکچر ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتے تھے۔ اس دوران ہم عوام، جن کو من پسند اسلام کے رنگ میں رنگنے کے تجربات کئے گئے، بے بس تھے... اس وقت عوامی جذبہ سرد جبکہ دفاعی ادارے طاقتور تھے۔ اس وقت فوج کا رویہ انتہائی غیر لچکدار تھا اور اس پر ہلکی سی تنقید بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔ اس وقت فوج جس چیز کی حمایت کرتی تھی، کوئی بھی اس پر رائے زنی کا مجاز نہ تھا۔ اس وقت فوج پورے طور پر جنرل ضیاء کے پیچھے کھڑی تھی۔ تبدیلی کے اس دور میں فوج کا ماٹو، جو کہ مسٹر جناح کا ’’اتحاد، یقین اور تنظیم‘‘ تھا، تبدیل ہو کر ’’ایمان، تقویٰ اور جہاد ِفی سبیل ﷲ‘‘ بن گیا۔ آج تک اسی سے ’’کام‘‘ چل رہا ہے، چنانچہ آج مسٹر جناح کے ارشادات پر واپس لوٹنے کی بات کرنا خود کو ہر قسم کی تنقید کا نشانہ بنانے کے مترادف ہے۔

جنرل ضیاء نے بہت سے کام کئے، تاہم ان میں سے تین نمایاں ترین ہیں: 
(1) انھوں نے ملّا کو بے پایاں آزادی اور طاقت دے کر معاشرے کی لگام جس طرح اس کے ہاتھ تھما دی، اُس سے ابھی تک واپس نہیں لی جاسکی، چنانچہ اس نے تنگ نظری، انتہا پسندی اور حماقت کو مذہبی نظریات کا رنگ دے کر معاشرے میں کوٹ کوٹ کر بھر دیا۔ ہم لبرل اور روشن خیال تو پہلے بھی نہ تھے، لیکن اس تجربے نے ہمیں مزید دقیانوسی بنا دیا۔
 (2) ضیاءالحق نے امریکی ہتھیاروں اور سعودی ریالوں کی مدد سے ہمیں افغان جہاد کی جس دلدل میں پھنسا دیا، اس سے ہم ابھی تک باہر نہیں آسکے ہیں... بلکہ ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ اس میں مزید دھنستے جا رہے ہیں۔
(3) انہوں نے پاک فوج کے دستوں کو سعودی عرب بھجوایا اور وہاں ان کو کئی سالوں تک بھاری بھر کم تنخواہ دی گئی۔ اس تنخواہ کا ایک حصہ فوج کے ایک خصوصی فنڈ، جس سے میس وغیرہ کے اخراجات پورے کئے جاتے ہیں، میں چلا جاتا ہے۔ راولپنڈی صدر میں فاطمہ جناح یونیورسٹی برائے خواتین کے بالمقابل آرمی میس اس رقم کے مصرف کی روشن مثال ہے۔

جس زمانے میں، میں فوج میں تھا، اس وقت کوئی افسر یا جوان باریش دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ فوج کوئی انتہائی روشن خیال ادارہ تھی۔ اس کے علاوہ کوئی بھی، کم از کم ادارے کے اندر، اپنے عقیدے یا مسلک کی بات نہیں کرتا تھا۔ نماز اور دیگر مذہبی فرائض ادا کرنے کی آزادی تھی۔ پی ایم اے میں جو روزے رکھنا چاہتا، روزے سے رہتا، لیکن بہت سے ایسے بھی تھے جو ایسا نہیں کرتے تھے، لیکن اس وقت ان کے سر پر کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹ پڑتا تھا، تاہم فوج کو اسلامی رنگ میں رنگنے کی کوشش سے سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ فوجی دستے عرب کی سرزمین پر اور ساتھ ہی افغان جہاد کی نہ ختم ہونے والی شروعات اور ملّا کے ہاتھ میں لائوڈ اسپیکر اور پھر ٹی وی، چنانچہ اب داڑھی کے بغیر کوئی خال خال شخص ہی دکھائی دیتا ہے۔ اگر آج آپ کسی بھی فوجی میٹنگ میں جائیں تو بے ریش افسروں اور جوانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوگی۔ آج انہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ خدا کے سپاہی ہیں۔

یہ بظاہر مذہبی شباہت قدرے معقول دکھائی دیتی، اگر فوج پراپرٹی بزنس سے کچھ فاصلے پر رہتی۔ ایک عام فوجی صرف تنخواہ اور پھر پنشن پر گزارہ کرتا ہے، نوجوان آفیسرز مغربی سرحدوں پر اپنی جان نچھاور کر رہے ہیں، چنانچہ یہ ان جانثار بہادروں پر تنقید نہیں، لیکن دفاعی اداروں کے اعلٰی آفیسرز کے چہرے پر مذہبی نقوش اور دل میں پلاٹوں کی محبت زیب نہیں دیتی اور پھر وہ مذہبی قدروں کے مطابق کوئی سادہ سی مجاہدانہ زندگی بسر نہیں کرتے، بلکہ ان کو حاصل ہونے والی سہولتیں عام پاکستانی کے وہم و گمان میں بھی نہیں۔ چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں اگر کوئی بھی طالبان کے بھیانک خطرے سے نمٹنے میں سنجیدہ نہیں۔ جب آپ کی پانچوں گھی میں ہوں تو سانپ کی دم پر کون پائوں رکھنا پسند کرتا ہے۔ یہ تو وہ کرے کا جو اسے خطرہ سمجھے گا۔

فوج کی صفوں سے باہر عام معاشرے میں بھی مذہب کا رنگ نہایت گہرا دکھائی دیتا ہے۔ دراصل ہم نے مذہب کے نام پر دکھاوا کرنے کے فن میں مہارت حاصل کرلی ہے۔ اگر آپ مذہب کا کوئی عملی اثر دیکھنا چاہیں تو مولانا روم کی طرح ’’دی شیخ باچراغ ہمی گشت گرد ِشہر‘‘ تلاش کرلیں کہ کہیں کوئی انسانی رویّے، قانون کا احترام، صفائی (جو نصف ایمان قرار پائی) اور علم و حکمت کی کوئی رمق دکھائی دیتی ہے تو بتائیں؟ اور تو اور، کیا کسی بازار کا کوئی تاجر، کوئی دکاندار، کوئی سرمایہ دار، کوئی صنعت کار، کوئی وڈیرہ ٹیکس ادا کرنے کے لئے تیار ہے؟ چنانچہ حیرت کی کوئی بات نہیں، اگر ہمارا کشکول بھرنے کا نام نہیں لیتا، تمام دنیا سے مانگنے کے علاوہ ہم اپنی خدمات بھی دیگر اقوام کے ہاتھ فروخت کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے، تاہم اس میں مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی تجارت بھی نہیں کرنی آتی۔ ہم اپنی خدمات ’’چہ ارزاں فروختند‘‘ کے مصداق بعض اوقات تو عیار طبع خریدار اور ان کی کمی نہیں، دیکھ کر متاع ِسخن کے ساتھ ہی بیچ دیتے... بلکہ بک جاتے ہیں۔

یہ جو ہم نے اتنی جہادی تنظیمیں بنا رکھی ہیں، ان کا حاصل کیا ہے؟ بہت کم۔ جو فوجی دستے ہم نے اسّی کی دہائی میں سعودی عرب کو دیئے تھے، ان کے عوض ہم نے میس کے اخراجات کے سوا اور کیا حاصل کیا؟ یہاں بھی وہی جواب کہ کچھ نہیں اور پھر پرویز مشرف نے کیا حاصل کیا؟ یقیناً کسی کو بھی زیب نہیں دیتا کہ وہ خود کو فروخت کے لئے پیش کر دے، لیکن اگر حالات ہمیں منڈی میں لے ہی آئیں تو کم از کم دام تو مناسب ہونے چاہئیں، تاہم کچھ نہ سیکھتے ہوئے اس گرانی کے زمانے میں ہم ایک مرتبہ پھر ارزاں قیمت پر خود کو فروخت کرنے چلے ہیں۔ مصر میں محمد مرسی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ہمارے عرب دوستوں نے وقت ضائع کئے بغیر نئی فوجی حکومت کو پانچ بلین ڈالر کی خطیر رقم فراہم کی... ہمیں کیا ملا، صرف 1.5 ڈالر؟

ہمارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ ہمیں عزت سے تو کیا، ذلت سے بھی جینا نہیں آیا... اُس "بازار" کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں اور وہاں دام کے مطابق ’’مال‘‘ مل جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نواز شریف اس عنایت پر سعودی دوستوں کے شکر گزار ہوں اور پھر وہ اُنہیں مشرف کی قید سے بھی نکال کر لے گئے تھے، لیکن یہ بات میاں صاحب بھی جانتے ہیں کہ کاروبار، کاروبار ہوتا ہے اور اسے جذباتی تعلق کے ترازو میں نہیں تولا جاتا۔ ابھی حالیہ دنوں ہمارے آرمی چیف بھی ایک دورے پر تشریف لے گئے جبکہ ہمارے وزیر ِخزانہ کا خیال ہے کہ ان سے بڑا معاشی ماہر ہنوز عالم ِ آب و گل ِ میں موجود نہیں اور ان سب کی کاوشوں کا ثمر یہی ڈیڑھ بلین ڈالر۔ قبرص جیسا ایک چھوٹے سا جزیرہ یورپی برادری سے دس بلین یورو امدادی پیکج حاصل کرتا ہے۔ حسنی مبارک نے پہلی خلیجی جنگ کے دوران، جب صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا، سات بلین ڈالر قرض معاف کرایا۔ ترکی نے عراق جنگ میں امریکی دستوں کو رسائی دینے کے عوض پچیس بلین ڈالر کا مطالبہ کیا۔ جب امریکی اس پر راضی نہ ہوئے تو ترکی نے اُنہیں سہولت فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ ہم ایک ’’مونگ پھلی‘‘ کا دانہ لے کر کیوں خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔؟

جب ہم نے اپنے دوستوں کے دروازوں پر سنتری کے فرائض سرانجام دینا شروع کئے تو ہمارے مہربانوں کا سختی سے مطالبہ ہوگا کہ ان کے مسلکی عقائد کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔ امید ہے کہ تھوڑے کہے کو بھی سمجھ لیا جائے گا اور ملک میں ایک مخصوص فرقے کو بالادستی حاصل ہوگی۔ ابھی ہم نے ماضی میں عرب کی زمین پر بجھوائے ہوئے دستے نہیں نکالے ہیں اور ملک میں مذہبی دکھاوا پورے جوبن پر ہے اور یہ معاشرہ منافقت کے نہایت اونچے مرتبے پر فائز ہے، تو ہم شام کی کشمکش میں کودنے کے لئے کمر بستہ ہوچکے ہیں۔ اس دوران کیا ہم طالبان سے نمٹنے کے لئے خود کو تیار پاتے ہیں۔ قسمت نے ہمیں کس منڈی کا بکائو مال بنا دیا ہے۔
"روزنامہ جنگ"
 
خبر کا کوڈ : 368222
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش