4
0
Tuesday 24 Jun 2014 16:01

مردِ بحران ہی مردِ انقلاب ہوتا ہے

مردِ بحران ہی مردِ انقلاب ہوتا ہے
تحریر: طاہر یاسین طاہر

کیا یہ سچ نہیں کہ ہر چیز کا آغاز ایک ذہنی تصور سے ہوتا ہے؟ یہی ذہنی تصور منصوبے میں ڈھلتا ہے اور آخر کار عزم و ارادے کی بدولت حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے، جیسے اس ابتدائی تصور اور نیت کے بغیر کسی کام کا آغاز نہیں ہوسکتا، ایسے ہی جس نیت اور ارادے کے پیچھے عزم اور فیصلے کی قوت نہ ہو وہ بے ثمر رہتا ہے، اور اس کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا۔ کیا انقلابی قیادت انقلاب کے لیے فوجی قوتوں کی طرف دیکھا کرتی ہے؟ کہ اسے ہائی پروفائل سکیورٹی دی جائے اور پھر اس سکیورٹی کے حصار میں انقلاب کی کونپلیں پھوٹیں؟ انقلاب کے لیے انقلابی فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے فیصلوں کے لیے عزمِ صمیم کی۔

ہمارا معاشرتی رویہ البتہ ہمیں اسی سیاسی روش کی تلقین کرتا ہے جس کی اٹھان ہم 6 عشروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے سارے انقلابی اور جمہوری رہنما اپنے انقلاب اور جمہوریت کے لیے نادیدہ قوتوں کی دید میں اپنی بینائی کا خراج دینے کو تیار رہتے ہیں۔ لیڈر مگر ہجو نہیں کیا کرتے بلکہ قوم کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہاں یاوہ گوئی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی جنگ، اور مخالف سیاسی اور فکری افراد کی کردار کشی پر وقت ضائع کرنے والے کیا کسی احتجاجی تحریک کو روک پائیں گے؟ ڈاکٹر طاہر القادری تنہا کچھ نہ کر پائیں گے، انقلاب تو خیر خواب ہے، وہ اکیلے اپنی سیاسی جماعت کے کارکنوں اور منہاج القرآن کی ساری قوت کے ہمراہ بھی لاہور سے گوجرانولہ نہیں پہنچ سکتے۔ گذشتہ برس جنوری میں جب ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں’’رونق‘‘ لگائی تھی تو اس وقت پنجاب میں نون لیگ کی’’سیانی‘‘ حکومت نے ڈاکٹر طاہر القادری کے لیے لاہور سے اسلام آباد داخل ہونے کا بڑا اہتمام کیا تھا۔ کیا اب کی بار پنجاب حکومت ایسا کرے گی؟ بالکل نہیں۔ 

حکومت بے شک خوف زدہ ہے اور بلا وجہ خوف زدہ ہے۔ ایک ایسے شخص سے جس کی پارلیمنٹ میں قطعی کوئی نمائندگی ہی نہیں۔ جو اپنی تنظیمی قوت تو رکھتا ہے مگر حلقہ جاتی قوت نہیں اور سب سے اہم بات ڈاکٹر صاحب کبھی بھی اپنے مطالبات میں ثابت قدم نہیں رہے۔ ان کے ذہن کے سارے خانوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ سیاست میں کوئی بات ’’حرفِ آخر‘‘ نہیں ہوتی۔ کیا انقلاب میں بھی؟ نون لیگ کی حکومت اگر ڈاکٹر طاہر القادری کے جہاز کو اسلام آباد بے نظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر اترنے دیتی تو کیا قیامت آتی؟ ڈاکٹر صاحب حسبِ معمول گن گرج کے ساتھ تقریر کرتے، سانحہء لاہور کی مذمت ہوتی، ’’انقلاب‘‘ کیلیے کسی نئی تاریخ کا اعلان کرتے اور یہاں سے چلے جاتے کہ ان کا طریقہ کار ہی یہی ہے۔ خوف مگر انسان کو دانشمندانہ فیصلہ نہیں کرنے دیتا۔

ڈاکٹر طاہر القادری اپنی ہر پرواز کو ’’انقلاب کا سفر‘‘ قرار دیتے ہیں، لیکن ان کی چال ڈھال کسی بھی طور ایک انقلابی رہنما کی سی نہیں۔ حتٰی کہ ان کی سیاسی بصیرت پر بھی یہ بات کی جاسکتی ہے کہ ایک حلقہ جاتی سیاسی فہم سے زیادہ نہیں۔ عوامی تحریک بنائے انھیں عرصہ ہوا، لیکن اس عوامی تحریک نامی سیاسی جماعت کی پذیرائی تو لاہور اور جھنگ میں بھی نہ ہوسکی؟ البتہ ڈاکٹر طاہر القادری کی شہرت کا سبب ان کا علمی کام اور ان کا ادارہ منہاج القرآن ہے۔ وہ مگر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان کے منہ سے نکلے ہوئے ہر لفظ پر پورے عالمِ اسلام سے آمین آمین کی صدائیں بلند ہونے لگیں گی۔ کیا منہاج القرآن کے نیٹ ورک کو چلانے جیسی بصیرت پاکستان جیسے معاشروں میں انقلاب کی بنیاد ہوسکتی ہے؟ ڈاکٹر صاحب مگر سمجھتے ہیں کہ وہ منہاج القرآن کی بنیاد پر بنائی گئی اپنی چھوٹی سی سیاسی جماعت کے ذریعے انقلاب لے آئیں گے۔ میر تقی میر نے کمال کے اشعار سلاست اور فنی خوبی کے ساتھ کہے کہ خدائے سخن کہلائے، ان کے مصرعے کی بیساکھی کے بغیر میں آگے کیسے بڑھوں؟
اس مشتِ خاک کا ہے دماغ آسمان پر

مصرعہ ہی کافی ہے، انقلابی تحریک کا بیمار انقلاب ہم گذشتہ دو ڈھائی سال سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ڈاکٹر طاہر القادری مردِ بحران نہیں ہیں، جنوری 2013ء ہمیں کیسے بھول جائے؟ اسلام آباد میں چار روز تک خوب رونق لگی رہی۔ عدالتی فیصلوں کی من پسندانہ تعبیر میں مبارک بادیں اور انقلاب کی نوید سنائی جاتی رہیں، مگر انقلاب موسمِ سرما کی سرد مہری کی نذر ہوگیا۔ وہ ’’مہربان کمک بھی نہیں پہنچ سکی جس کی قائدِ انقلاب کو از خود توقع تھی، ہوا کیا؟ انقلاب مؤخر کر دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایک بم پروف کنٹینر میں آئے، ’’قائدِ انقلاب‘‘ سے مذاکرات کیے اور انقلاب اگلے برس تک کے لیے ملتوی۔ شہید بھٹو کی جماعت والے بھی بڑے مہربان نکلے، اگر ایک آدھ دن ڈاکٹر طاہر القادری سے مذاکرات کو نہ آتے تو بے شک ’’انقلاب‘‘ آچکا ہوتا۔
 
سانحہء ماڈل ٹاؤن بے شک بربریت کی ایک دکھ بھری داستان ہے، ریاستی تشدد کی اس سے بری مثال اور کیا ہوگی؟ مگر انقلاب ہمدردیوں کی بنا پر نہیں آیا کرتے۔ مجھے کبھی بھی یہ گمان نہیں رہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب معاشرے میں کوئی بڑی تبدیلی لاسکیں گے۔ چہ جائیکہ وہ کوئی انقلاب لے آئیں۔ وہ تو کسی انقلاب کی بنیاد بھی نہیں رکھ پائے۔ انقلاب نہ تو فتوے کی دکان میں بِکتے ہیں اور نہ ہی کسی خون آلود قمیص کو کسی چوک میں لہرا کر انقلاب کی نوید سنائی جاسکتی ہے۔ کسی بھی رہنما کا ہتھیار اس کی دانشمندانہ فیصلہ سازی ہی ہے۔ کیا کسی انقلابی لیڈر کے مطالبات ایسے بھی ہوسکتے ہیں؟ ان کا پہلا مطالبہ تھا کہ ’’انہیں ذاتی سکیورٹی میں گھر جانے کی اجازت دی جائے۔ دوسرا یہ کہ ان کے ذاتی محافظوں کو طیارے تک آنے کی اجازت دی جائے۔ ان کی جانب سے تیسرا مطالبہ بلٹ پروف گاڑیوں کی فراہمی کا تھا۔ ان کا چوتھا مطالبہ تھا کہ میڈیا ان کی گھر واپسی کی براہ راست کوریج کرے۔ اپنے پانچویں مطالبے میں انہوں نے کہا کہ گورنر پنجاب اپنی یا ان کی گاڑی میں چلیں تو وہ ان کے ساتھ جانے کو تیار ہیں۔ ان کا چھٹا مطالبہ تھا کہ اگر یہ سب ممکن نہیں تو فوج سکیورٹی فراہم کرے۔‘‘ 

ڈاکٹر صاحب کا یہ فرمانا کہ میں گورنر پنجاب کو اپنی گاڑی میں اس لیے بٹھا رہا ہوں کہ اگر میں راستے میں شہید کر دیا جاؤں تو گورنر صاحب بھی میرے ساتھ شہید ہوں۔ کیا انقلابی سوچ ہے ’’شیخ الانقلاب‘‘ کی۔ گذشتہ برس اسلام آباد سے اس برس کے لاہور والے مطالبات تک، ہم ڈاکٹر صاحب کو فوری یو ٹرن لیتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ بالفاظِ دیگر ’’شیخ الانقلاب‘‘ جوں ہی کسی بحرانی کیفیت کا شکار ہوتے ہیں، انھیں اپنی حفاظت کی پڑ جاتی ہے۔ ان کا پہلا مطالبہ ہی میری جان کی امان ہوا کرتا ہے۔ انقلاب لانے کے لیے انقلابی فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا انقلابی تحریکوں کا نقطہء کمال حکومتی شخصیات سے مذاکرات، میڈیا کی کوریج اور بلٹ پروف گاڑیوں کا استعمال ہوا کرتا ہے؟ ڈاکٹر صاحب گاہے کہتے ہیں کہ لیبیا، مصر اور ایران کے بعد اب پاکستان میں بھی انقلاب آئے گا۔ لیبیا اور مصر میں کب اور کیسا انقلاب آیا؟ ایران جیسا انقلاب پاکستان میں لانے کے خواہش مند ڈاکٹر طاہر القادری سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا امام خمینیؒ آپ کی طرح حکومتی نمائندوں سے بلٹ پروف گاڑیوں کا تقاضا کیا کرتے تھے؟ کیا انھوں نے کبھی کسی گورنر کے کہنے پر اپنی انقلابی تحریک کو مؤخر کیا؟
 
آخری تجزیے میں مردِ بحران ہی مردِ انقلاب ہوا کرتے ہیں۔ یہاں کوئی انقلاب نہیں آنے والا، حتٰی کہ کوئی معمولی سی سیاسی تبدیلی بھی۔ اس معاشرے کو ابھی اپنے اندر سے کوئی ایسا رہنما تراشنا ہے، جو تقریر کا غازی ہی نہ ہو بلکہ مردِ بحران بھی ہو۔ قادری صاحب نے اپنے لمحہ بہ لمحہ بدلتے رویے سے البتہ یہ ثابت کیا ہے کہ وہ مردِ بحران نہیں ہیں۔ ائیر پورٹ سے گھر تک میڈیا کی فل کوریج کی ضمانت اور گورنر والے پروٹوک میں سفر کو ترجیح کسی بھی طور ایک انقلابی رہنما کی ترجیحات نہیں ہوسکتیں۔ کبھی بھی نہیں۔ میر تقی میر شاید بہت پہلے اس منظر نامے کو یوں قلم بند کر گئے کہ 
دامن میں آج میر کے داغِ شراب ہے
تھا اعتماد ہم کو بہت اس جوان پر

(اگر گرینڈ الائینس بنتا ہے تو اس کے ہمارے معاشرے اور قومی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے اور یقیناً ہوں گے، اس پر کسی اور نشست میں بات کریں گے۔)
خبر کا کوڈ : 394686
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
boht khoob tabsra hy g
France
بہت ہی خُوبصورت تجزیہ کیا ہے طاہر یٰسین صاحب آپ نے برایلر انقلاب کا۔
Pakistan
Well said Tahir sb.
Sweden
salam
aap ka kalam parrha magar is bar myn dr sahib k hawaly se hi bat karoon ga kion k aap k kalam ki theem hi yahi rahi to pehli bat clear kar doon myry comints ko tehreeki ni bal k apny aik qari ki nazar se dekhiy ga
to sahib mujhy aik bat ka afsos hoa k aap aik kuhna mashq sahafi hoty hoy bhi bina kisi tehqeeq k bilkul aisy hi ilzam laga rhyn hyn jo aik midal pas facbook py aa k mufti ban jata hy sarkar mujhy khushi hoti agar aap aik chota sa interviw kar lyty dr sahib ka aur un k bhi nuqta e nazar ly lyty in baton par jin ki nishan dahi ki hy magr aap ny to apny tor paer hi faisla sadar farma dia jahan tak bat hy u turn k hawaly se to sahib aap dr sahib k khitabat 88 k sun lijy us myn aap ko yahi program mily ga jo aaj hy baqi jo mokhar karny ya jaldi karny ki bat hy to yeh leadr apni nazar se halat ko dekh kr faisla karta hy kabhi pechy bhi hatna parr jata hy aap ko sulah e hudebia ka waqia yad hi ho ga aisi lakhon misalyn mojod hyn aik shikayt aur hy aap se aap ny farmaia k dr sahib inqalabi leadr ni to sahib aap apny kalam myun ya to kisi dosry inqalabi jo aap ki nazar myn ho us ka pata bata dety ya phir tasleem kar lyty k ham bahseat qom aik murda qom hyn jisy jagany wala koi ni
ہماری پیشکش