0
Friday 20 Sep 2013 19:03

شام میں جنسی جہاد کے بعد تیونسی دوشیزائیں حاملہ ہوکر واپسی آگئیں، تیونسی وزیر داخلہ

شام میں جنسی جہاد کے بعد تیونسی دوشیزائیں حاملہ ہوکر واپسی آگئیں، تیونسی وزیر داخلہ
اسلام ٹائمز۔ تیونس کے وزیر داخلہ عمر بن جدو نے کہا ہے شام میں جہاد النکاح کے نام پر جنسی جہاد کے لیے جانے والی تیونسی لڑکیاں حاملہ ہوکر واپس آگئی ہیں۔ وہاں تیونسی لڑکیوں کا بیس، تیس اور ایک سو تک باغیوں سے جنسی رابطہ ہوا تھا اور وہ حمل کی صورت میں اس کا پھل لے کر وطن لوٹ آئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ہم خاموش ہیں اور کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ بن جدو نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے مارچ 2013ء کے بعد 6 ہزار تیونسیوں کو شام جانے سے روکا ہے اور شام میں جہاد کے لیے تیونسی نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے الزام میں 86 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انھوں نے جہادیوں پر سفری پابندی کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنانے والی انسانی حقوق کی تنظیموں پر کڑی نکتہ چینی کی اور کہا کہ جن افراد پر سفری پابندی عائد کی گئی تھی، ان میں سے زیادہ تر کی عمریں 35 سال سے کم ہیں۔

اس سے قبل بھی تیونس کے سابق مفتی شیخ عثمان بطخ نے اپریل میں کہا تھا کہ تیرہ تیونسی لڑکیوں کو بے وقوف بناکر شام لے جایا گیا ہے تا کہ وہ وہاں شامی صدر بشار الاسد کے خلاف برسرپیکار باغی جنگجوؤں کو جنسی خدمات مہیا کرسکیں۔ انھوں نے اس نام نہاد جنسی جہاد کو قحبہ گری (فحاشی و عریانیت کے فروغ) کی ایک شکل قرار دیا تھا لیکن انھیں اس بیان کے کچھ دیر کے بعد ہی تیونس کی حکومت نے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اگست میں تیونس کے محکمہ پبلک سکیورٹی کے ڈائریکٹر جنرل مصطفیٰ بن عمر نے ملک کے مغرب میں ایک جنسی جہاد سیل کو توڑنے کی اطلاع دی تھی۔ انھوں نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ القاعدہ سے وابستہ انصار الشریعہ کم عمر لڑکیوں کو جہادی جنگجوؤں کو جنسی خدمات کی فراہمی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

دیگر ذرائع کے مطابق تیونس کے وزیر داخلہ لطفی بن جدو نے پارلیمنٹ کے اراکین کو بتایا ہے کہ کئی خواتین "جنسی جہاد" کے لیے شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے شام جا کر واپس آگئی ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیر داخلہ نے تیونس کی قومی قانون ساز اسمبلی کو بتایا کہ "یہ خواتین شام میں بیس، تیس یا ایک سو جنگجوؤں کے ساتھ سیکس کرتی ہیں۔ یہ سیکس "جہاد النکاح" کے طور پر کیا جاتا ہے اور وہ حاملہ ہو کر واپس تیونس آتی ہیں۔"

تاہم وزیر داخلہ نے یہ نہیں بتایا کہ جہاد النکاح کے لیے کتنی خواتین شام گئیں اور حاملہ ہو کر واپس آئی ہیں۔ تاہم مقامی میڈیا کے مطابق ایسی خواتین کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ سینکڑوں مرد بھی بشار الاسد کی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے شام گئے ہیں۔ تاہم وزیر داخلہ نے اراکین پارلیمان کو بتایا "مارچ میں جب میں نے وزارت کا چارج سنبھالا تو اس وقت سے اب تک لگ بھگ چھ ہزار نوجوان لڑکوں کو شام جانے سے روکا گیا ہے۔" انہوں نے کہا کہ سرحد پر نگرانی سخت کر دی گئی ہے، جس کے باعث لوگوں کا شام جانا مشکل ہوگیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق پندرہ ماہ سے جاری شام میں خانہ جنگی میں حصہ لینے کے لیے تیونس سے ہزاروں لوگ شام جا چکے ہیں۔

سلفی فقہ سے تعلق رکھنے والی تنظیم انصار الشریعہ کے سربراہ ابو عیاض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نوجوان لڑکوں کو شام میں حکومتی فورسز کے خلاف لڑنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ابو عیاض کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا تعلق اس گروہ سے ہے جس نے نو ستمبر 2011ء میں افغانستان میں شمالی اتحاد کے سربراہ احمد شاہ مسعود کو خودکش حملے میں قتل کیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 303702
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش