0
Thursday 30 Oct 2014 22:52

گلگت بلتستان الیکشن کب اور کیسے؟

گلگت بلتستان الیکشن کب اور کیسے؟
رپورٹ: میثم بلتی

ذوالفقار علی بھٹو کے چند عوامی اقدامات جن پر لوگوں نے بھٹو کی پارٹی کو مسند اقتدار پر بٹھا دیا، اس کے بعد پیپلز پارٹی کے لوگ گلگت بلتستان کو لاڑکانہ سمجھتے رہے اور ہر آنے والے الیکشن میں عوام پکے ہوئے سیب کی طرح ان کی جھولی میں گرتے رہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون کے اقتدار کے کھلاڑی گلگت بلتستان کے لوگوں سے نالاں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) پاکستان کے ایوانوں میں وفاقی سطح پر تین مرتبہ داخل ہوچکی ہے لیکن گلگت بلتستان کی سطح پر کوئی قابل قدر کارنامہ سرانجام نہیں دے سکی، جس کی وجہ سے وہ اس سنگلاخ چٹانوں کے باسیوں میں اپنے لئے نرم گوشہ پیدا نہ کرسکی اور یوں عوام مسلم لیگ (ن) سے شاکی اور مسلم لیگ (ن) عوام سے شاکی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 2009ء میں ایک نیا صوبائی سیٹ اپ دیا اور ارض شمال کا نام گلگت بلتستان رکھا گیا، مگر یہ پیکج اس علاقے کے قلیل بجٹ پر سفید ہاتھی ثابت ہوا، سارا سرکاری بجٹ عوام پر کم اور حکمرانوں پر زیادہ خرچ ہوا، جس سے علاقے میں ترقیاتی کام نہ ہوسکے، بلدیاتی نظام انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے مفلوج رہا، جس کی وجہ سے تھوڑا بہت ملنے والا بجٹ بھی کرپشن مافیا کی نظر ہوگیا۔
 
پاکستان پیپلز پارٹی نے نیا نظام تو دیا اور بے شمار اچھے کام بھی کئے مگر میرٹ کو پامال کیا گیا، نوکریاں فروخت کی گئیں، جن سے پڑھے لکھے نوجوانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا، میڈیا چیختا رہا لیکن ذمہ داروں نے اس کرپشن پر آنکھیں بند کر لیں، کاغذی انکوائریاں ہوئیں مگر ملزموں کو نشان عبرت بنانے کے بجائے عہدوں اور تمغات سے نوازا گیا، جس سے عوام میں اس نئے پیکج کے خلاف نفرت میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا، حکام نے نظام کو ٹھیک کرنے کی بجائے نظام کی دھجیاں اڑا دیں، ہر ایک نے نوکریاں اپنوں میں اور منصوبے بزکش جانور کی طرح اپنے حلقے کی طرف کھینچتے رہے۔ اب موجودہ حکومت کا خاتمہ قریب ہے۔ عموماً انتخابات اکتوبر، نومبر میں ہوتے تھے مگر موجودہ حکومت نے اپنی مدت دسمبر میں پوری ہونے کا بہانہ بنا کر انتخابات اگلے سال تک موخر کر دیئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) بھی اپنی وفاقی مجبوریوں کی وجہ سے صوبائی حکومت پر نظر نہ رکھ سکی، انتخابات تو دور کی بات گورنر بھی تبدیل نہ کیا جاسکا، جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے گورنر جنگ کے میدان میں لڑ لڑ کر ہار کر کنارے پر بیٹھ کر گورنری نہ ملنے کی صورت میں پارٹی پر خودکش حملے کی دھمکی دئیے بیٹھے ہیں، جس کی وجہ سے پارٹی میں کافی اختلافات جنم لے چکے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ گھنسارا سنگھ اور قمر زمان کائرہ کی یہ میراث کس کو نصیب ہوتی ہے۔ یہ میراث اس خوش نصیب کو ملے گی، جس پر میاں نواز شریف شفقت کی نگاہ فرمائیں گے۔ باقی خیالی امیدواروں کے ہاتھ مایوسیوں اور آہوں و سسکیوں کے علاوہ کچھ نہیں آئے گا۔
 
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی قیادتوں کے درمیان لفظی جنگ اپنے عروج پر ہے۔ حاکم اقتدار سے جدا ہونے سے انکاری ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت اقتدار کی کرسی سے چمٹنے کے لئے بے قرار ہے۔ دیکھتے ہیں کہ لڑتے لڑتے کس کی دم اور کس کی چونچ ضائع ہوتی ہے۔ مسلم لیگ نون کے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مہدی شاہ ایک گریڈ ون کا ملازم بھی بھرتی نہیں کرسکتا تو میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر مہدی شاہ کو ہٹا کر ان میں سے کسی ایک کو کرسی اقتدار پر بٹھا دیا جائے تو وہ کون سا الہ دین کا چراغ رکھتے ہیں کہ وہ عوام کو مطمئن کر پائیں گے۔ لہٰذا مسلم لیگ والے جلد بازی کرنے کی بجائے موجودہ پیکج کو عوامی امنگوں کے مطابق بنا کر الیکشن کرا دیں، تاکہ عوام ان کو اس نئے کارنامے پر اقتدار پر بٹھا دیں۔ اب آگے راستہ بند ہے، موجودہ حکومت 12 دسمبر کو فارغ ہو رہی ہے، الیکشن کون کرائے گا، کب کرائے جائیں گے، ان باتوں کو پہلے مرحلے میں حل کرنے کی ضرورت ہے، اگر تین ماہ میں الیکشن کرانے کی کوشش کی گئی تو شاید یہ ممکن نہ ہوگا، کیونکہ گلگت بلتستان کے بے شمار علاقے برف کی وجہ سے ڈھکے ہوئے ہونگے، جس کی وجہ سے الیکشن عملے کو پہنچنا اور امیدواروں کے لئے الیکشن کمپین کرنا ممکن نہیں ہوگا، لہٰذا جلد بازی نہ کی جائے بلکہ پھر سے ایک اچھا پیکج دے کر نادرا کے ذریعے صحیح ووٹر لسٹیں بنوا کر الیکشن کرائے جائیں، تاکہ عوام اپنے نمائندے چن سکے اور عوامی امنگوں کے مطابق کوئی آئینی، صوبائی یا وفاقی سیٹ اپ ملنے پر مسلم لیگ (ن) بھی گلگت بلتستان کے لئے کچھ کرنے کا دعویٰ کرسکے گی، ورنہ بغیر کچھ کئے یا دیئے گلگت بلتستان والوں سے ووٹ نہ دینے کا شکوہ ناقابل قبول ہوگا۔ پیکج میں تبدیلی، اسمبلی سیٹوں میں اضافہ وقت کا تقاضا اور عوام کا بنیادی مطالبہ ہے۔

میاں نواز شریف گلگت بلتستان کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، وہ گلگت بلتستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں، وہ علاقے میں بنیادی ضروریات زندگی میں انقلابی تبدیلی چاہتے ہیں، وہ علاقے میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں، علاقے میں سڑکوں کا جال بچھانا چاہتے ہیں، بشرطیکہ مسلم لیگ نون کی صوبائی قیادت میاں نواز شریف کو اصل حقائق سے آگاہ کرسکے۔ مسلم لیگی صوبائی قیادت کو آپس کے اختلافات کو ختم کرکے اخباروں میں مہدی شاہ کے خلاف کھولا جانے والا محاذ جنگ وقتی طور پر بند کرکے یکسوئی سے عوامی مفادات کے لئے کام کرنے پر اپنی توانائی صرف کرنا ہوگی، اگر علاقے کی اصل صورت حال میاں نواز شریف کو نہ بتائی گئی تو یہ قیمتی وقت ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ویسے بھی وزیراعظم اس وقت دھرنے والوں کی وجہ سے مصروف ہیں۔ گلگت بلتستان ویسے بھی میاں نواز شریف کی اقتدار کی کرسی کا سہارا نہیں، گلگت بلتستان ویسے بھی اسلام آباد کی کرسی کے ساتھ بونس میں مل جاتا ہے۔ اب یہ مسلم لیگی قیادت پر انحصار کرتا ہے کہ وہ اپنا کیس وفاقی حکومت کے سامنے کس احسن طریقے سے پیش کرتی ہے یا حسب سابق جی حضوری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو ملتا ہے اس پر صبر و شکر کرکے وفاداری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رکھتی ہے۔
بشکریہ: ڈاکٹر محمد زمان
خبر کا کوڈ : 417345
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش