0
Monday 24 Nov 2014 00:21

کیا زائرین کا مسئلہ روٹس کی تبدیلی سے حل ہوگا؟

کیا زائرین کا مسئلہ روٹس کی تبدیلی سے حل ہوگا؟
رپورٹ: این ایچ جعفری 

کسی بھی خطے میں کاؤنٹر ٹیررازم حکمت عملی تشکیل دینے کیلئے درست اعداد و شمار کا ہونا، مسائل کے تجزیئے کیلئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں عالمی ادارہ برائے امن و معیشیت کی جانب سے جاری کردہ دہشتگردی انڈیکس 2014ء رپورٹ میں دنیا کو دہشتگردی کے حوالے سے درپیش چند اہم حقائق قابل غور ہیں۔ سب سے غور طلب حصہ پاکستان کا عراق اور افغانستان کے بعد دنیا میں دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ پہلے نمبر پر پاکستان میں ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) نے گذشتہ چند سالوں میں اپنے دہشتگردانہ کاروائیوں سے ملک کو زیادہ نقصان پہنچایا لیکن ان واقعات میں 2014ء کے شروع سے اب تک کچھ کمی آئی ہے۔ جسکی وجہ پہلے طالبان کیساتھ وفاقی سطح پر مذاکرات کا شروع ہونا اور بعدازاں وزیرستان میں فوجی آپریشن کا بھرپور آغاز ہے لیکن اس دہشتگردی کو محض وزیرستان آپریشن کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ عارضی طور پر تو طالبان بظاہر اندرونی اختلافات اور قیادت کی کمی کی وجہ سے کمزوری کا شکار ہے لیکن صرف یہی مذکورہ گروپ ملک میں دہشتگردی کی ذمہ دار نہیں۔

رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے بعد سب سے زیادہ خطرناک دہشتگرد گروہ پاکستان میں لشکر جھنگوی ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان اور کراچی سمیت ملک کے دیگر حصوں میں اس گروہ کیخلاف کاروائی کے کم ہی شواہد ہیں۔ حقیقی عوامی نمائندوں کیجانب سے ہمیشہ یہی مطالبہ کیا گیا ہے کہ طالبان سمیت ان تمام دہشتگرد گروہوں کیخلاف کاروائی کی جائے جنکا مقصد ملک کو مسلسل غیر مستحکم رکھنا ہے لیکن حکومت کی جانب سے اس ضمن میں ہمیشہ سستی اور نااہلی کا مظاہرہ کیا گیا۔ مثال کے طور پر نیکٹا کو ملکی سطح پر ان گروہوں‌ کیخلاف کاروائی کرنے کیلئے فعال کرنے کا منصوبہ اب تک سرد خانے میں پڑا ہوا ہے۔

ملک بھر میں جاری دہشتگردی نے جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی کو متاثر کیا، وہی مقدس زیارات کو جانے والے زائرین بھی اس ناسور کی لپیٹ میں ہیں۔ پاکستان بھر سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں زائرین بسوں کے ذریعے زمینی راستہ اختیار کرکے ایران و عراق کی جانب روانہ ہوتے ہیں۔ اسی لئے زائرین کو زمینی راستے سے جانے کیلئے صرف صوبہ بلوچستان کا ہی انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ جو کوئٹہ اور پھر تفتان سے ہوتا ہوا ایرانی بارڈر میں داخل ہوتا ہے۔ تفتان بلوچستان کے چاغی ڈسٹرکٹ میں واقع علاقہ ہے۔ یہ پاکستان کا واحد قانونی بارڈر ہے جو پاکستان کو ایران سے منسلک کرتا ہے۔ تفتان کا علاقہ کوئٹہ سے 600 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، یعنی بس کے ذریعے 24 گھنٹے میں‌ بارڈر تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ایران کیجانب سے منسلک بارڈر کا علاقہ میرجاوا کہلاتا ہے۔ دہشتگردی کے واقعات کی وجہ سے زائرین کو اب تفتان کے راستے ایران جانے کیلئے حکومت کیجانب سے این او سی (نو اوبجیکشن سرٹیفیکٹ) لینا پڑتا ہے، بعدازاں انہیں مکمل سکیورٹی کیساتھ لے جایا جاتا ہے۔ اگر زائرین کی کوئی بس این او سی لئے بغیر تفتان جانے کی کوشش کرے تو راستے میں موجود ایف سی اور لیویز کی چیک پوسٹس انہیں روک کر دوبارہ کوئٹہ بھیج دیتی ہے۔ البتہ انہی چیک پوسٹوں کی موجودگی میں دہشتگردوں کا وہاں سے گزر کر آسانی سے کاروائی کرنا ایک الگ مسئلہ ہے۔

حکومت نے گذشتہ چند واقعات کے بعد زائرین کو ہوائی جہاز کے ذریعے ایران تک پہنچانے کا اعلان کیا لیکن اسکی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے متوسط زائرین نے زمینی راستے کو اپنانے کو ترجیح دی۔ جسکی وجہ سے حکومت نے دوبارہ اعلان کیا کہ وہ زائرین کو کراچی کے ساحل سے سمندری جہاز کے ذریعے ایرانی پورٹ بندر عباس تک پہنچائے گی۔ جس پر اب تک کوئی عملدرآمد نہیں‌ ہوا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بحری جہاز سروس شروع ہونے سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔؟ کیونکہ بلوچستان میں آباد شیعہ ہزارہ آبادی زیادہ تر کوئٹہ میں‌ رہتے ہیں۔ اگر انہیں کراچی تک کا سفر زمینی راستے سے طے کرنا ہو تو پھر بھی انہیں مستونگ کے علاقے سے ہی گزرنا پڑے گا اور زائرین کیلئے مستونگ کا علاقہ ہی ہے جہاں دہشتگرد ہمیشہ اپنی کاروائیاں کرتے آئے ہیں۔ لہذٰا ہوائی جہاز ہو یا بحری جہاز کا راستہ، حکومت نہ ان پر عملدرآمد کی خواہشمند ہے اور نہ ہی کبھی کر پائے گی۔ راستے اور روٹس کو تبدیل کرنے کی بجائے اگر حکومت بلوچستان بھر میں ان دہشتگردوں کیخلاف حقیقی انداز میں فیصلہ کن کاروائی کرے تو زائرین کا مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 421087
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش