1
Saturday 4 May 2024 16:29

منحرف عقائد کے خلاف امام جعفر صادق علیہ السلام کے اقدامات

منحرف عقائد کے خلاف امام جعفر صادق علیہ السلام کے اقدامات
تحریر: صدیقہ سادات الموسوی

شیعہ مذہب ہمیشہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام کے مبارک نام سے جڑا ہوا ہے۔ اس سوال کا جواب پانے کیلئے مکتب اہلبیت علیہم السلام کو مکتب جعفری ہی کیوں کہا جاتا ہے؟ ہمیں اس عظیم امام کی امامت کے زمانے کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام میں سے ہر ایک کی امامت کی مدت، ان کی زندگی کے اہم ترین حصوں میں سے ایک ہے۔ چونکہ ہر معصوم امام نے اپنے زمانے کے مخصوص سیاسی، ثقافتی اور سماجی حالات کے مطابق حکمت عملی اختیار کی اور ان سے ہم آہنگ اقدامات انجام دیے ہیں لہذا امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور کے حالات کو جاننا اور پرکھنا اس معاملے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔ ائمہ اطہار علیہم السلام دین کے بہترین محافظ اور نگہبان ہیں اور انہوں نے انبیاء علیہم السلام، خاص طور پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشن اور راستے کو ہی آگے بڑھایا ہے۔
 
امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانے کے ثقافتی اور سیاسی حالات
سیاسی نقطہ نظر سے امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ، اسلامی تاریخ کے اہم ترین زمانوں میں شمار ہوتا ہے جس میں اہم انقلابات اور واقعات رونما ہوئے جن میں سے ایک اہم ترین واقعہ حکومت اور اقتدار کی بنی امیہ سے بنی عباس کو منتقلی ہے۔ بنی عباس، جو گذشتہ طویل عرصے سے بنی امیہ کے خلاف نبرد آزما تھے، نے اپنی خاص پالیسیوں کے ذریعے بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ انہوں نے اپنی تحریک کا نعرہ "آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوشنودی" قرار دیا اور خود کو رسول خدا ص کے خاندان سے عقیدت رکھنے والا اور قریبی ظاہر کیا۔ یوں انہوں نے تھوڑے ہی عرصے میں اپنے مخالفین کا قلع قمع کر دیا اور 132 ہجری میں اموی سلسلہ خلافت کا خاتمہ کر ڈالا۔ ابوالعباس سفاح نے پہلے عباسی خلیفہ کے طور پر اقتدار سنبھالا۔ اگرچہ شروع میں یہ تصور پایا جاتا تھا کہ پیروان اہلبیت علیہم السلام کو بنی امیہ کے دباؤ اور ظلم و ستم سے نجات مل گئی ہے لیکن جلد ہی بنی عباس کا اصل چہرہ سامنے آگیا۔

بنی عباس، جنہوں نے اہلبیت علیہم السلام کو خلافت واپس دلانے کا وعدہ کیا تھا، نے اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف اپنا وعدہ پورا نہیں کیا، بلکہ خاندان رسول اکرم (ص) کو بھی سخت دباؤ کا شکار کر ڈالا اور یوں پیروکاران اہلبیت علیہم السلام کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانے میں بنو امیہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ جب سفاح کا بھائی منصور اقتدار میں آیا تو حالات بالکل بدل گئے۔ وہ ایک ظالم اور بے رحم خلیفہ تھا جو علویوں، خاص طور پر امام جعفر صادق علیہ السلام کو اپنے اقتدار کیلئے واحد خطرہ تصور کرتا تھا۔ لہذا اس نے امام علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں پر شدید دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی امامت کا آخری حصہ، تاریخ اسلام میں اہل تشیع کیلئے مشکل ترین زمانوں میں سے ایک تھا جس میں امام علیہ السلام اور انکے پیروکاروں کے درمیان رابطہ مکمل طور پر کاٹ دیا گیا تھا۔

بعض اوقات امام علیہ السلام کے اصحاب پھیری والے کا بھیس بدل کر  چپکے سے ان کے گھر میں داخل ہو جاتے اور ان سے اپنے شرعی سوالات کے جوابات حاصل کر لیتے تھے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سب سے زیادہ موجودہ حالات سے آگاہ تھے اور بخوبی جانتے تھے کہ اسلامی انقلاب کے آغاز کیلئے پیروکاران اہلبیت علیہم السلام کے پاس کافی حد تک طاقت نہیں ہے لہذا انہوں نے طاغوتی حکومت کے خلاف بالواسطہ جدوجہد کو اپنی بنیادی حکمت عملی قرار دے رکھا تھا۔ امام علیہ السلام نے اپنی تمام تر توانائیاں دین اور دینی تعلیمات کی تشریح کرنے اور اپنے پیروکاروں کی مذہبی بصیرت میں اضافہ کرنے کیلئے صرف کر دیں جس کے نتیجے میں شیعہ تہذیب نے بہت ترقی کی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا زمانہ، متضاد آراء اور نظریات کا دور کہلاتا ہے۔ کیونکہ اس زمانے میں کثیر تعداد میں مذہبی فرقے اور دھڑے ابھر کر سامنے آئے۔

اسی طرح یہ زمانہ، اسلامی معاشرے میں فکری انتشار، منحرف افکار اور گوناگون عقائد جنم لینے کا زمانہ بھی ہے۔ اسی وجہ سے مختلف مسلمان حلقوں میں خدا کی ذات اور صفات کی معرفت اور دیگر عقائد  جیسے قضا و قدر، جبر و تفویض، توحید اور قیامت، ثواب اور عقاب نیز دین کے شرعی احکام اور قرآن کریم کی آیات کی تفسیر جیسے مسائل میں شکوک و شبہات اور اختلافات کا شکار ہو چکے تھے جس کے نتیجے میں مختلف مذہبی فرقے جیسے خوارج، معتزلہ، صوفی، زنادقہ، جبریہ، مشبہہ، تناسخیہ وغیرہ ظہور پذیر ہوئے اور مختلف مذاہب اور فرقے معرض وجود میں آ گئے۔ ایک طرف شبہات کی پیدائش اور دوسری طرف دینی تعلیمات کی تشریح کیلئے مناسب ماحول کی فراہمی نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو مسلمانوں کی روحانی اور دینی ترقی کیلئے وسیع تحریک شروع کرنے کا مناسب موقع فراہم کر دیا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی جانب سے منحرف عقائد کے خلاف انجام پانے والے چند اہم اقدامات درج ذیل ہیں:

1)۔ درست دینی عقائد کا بیان اور ان کی تشریح
اس اقدام کے باعث مسلمان، اسلام کے درست دینی عقائد سے آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس زمانے میں موجود منحرف عقائد اور شبہات سے بھی پوری طرح واقف ہو گئے۔ یوں حق اور باطل کے درمیان فرق واضح ہو گیا جس کے نتیجے میں مسلمان، زیادہ آسانی سے صراط مستقیم کو پہچان کر اطمینان سے اس پر عمل پیرا ہو سکتے تھے۔ اکثر شکوک و شبہات اور منحرف عقائد کی اصل وجہ توحید اور صفات و افعال الٰہی جیسے مسائل کی درست شناخت اور فہم کا فقدان تھی۔ دوسری طرف زندیق اور ملحد افراد بھی مسلمانوں میں اپنے الحادی افکار پھیلاتے رہتے تھے لہذا اس زمانے میں دیگر ہر زمانے سے زیادہ مختلف دینی عقائد میں سے توحید سے مربوط مسائل کی وضاحت بہت ضروری تھی۔ توحید کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی احادیث مبارکہ میں سے ایک "توحید مفضل" ہے جس میں آپ ع نے مٹی، پودوں، حیوانات، انسانوں، نباتات، سیاروں اور دیگر عناصر کی تشریح کی ہے اور انتہائی خوبصورت انداز میں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ تمام موجودات خداوند عالم کی تسبیح کرنے، شہادت دینے اور اللہ اکبر کہنے میں مصروف ہیں اور حتی جمادات اور نباتات بھی ہر لمحہ تکوینی عبادت اور اطاعت میں مصروف ہیں۔

2)۔ دینی تعلیمات کے خلاف سامنے آنے والے شکوک و شبہات کا جواب دینا
منحرف عقائد کے خلاف امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک اور اہم اقدام درست دینی عقائد کی عقلی بنیادوں کو مضبوط بنانا تھا۔ آپ ع کے زمانے کے مخصوص ثقافتی اور نظریاتی حالات کے پیش نظر دین کے بارے میں زیادہ تر شبہات، علم کلام خاص طور پر معرفت الہی سے مربوط تھے۔ لہذا امام جعفر صادق علیہ السلام سے توحید اور عدل الٰہی کے بارے میں بہت سی احادیث نقل ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر امام علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہے: "توحید یہ ہے کہ آپ جسے اپنے لئے مناسب سمجھتے ہیں اسے خدا کیلئے مناسب نہ سمجھیں اور عدل یہ ہے کہ کسی ایسے کام کو خدا سے منسوب نہ کریں جسے اگر آپ خود انجام دیں تو دوسروں کی ملامت کا سامنا کرنا پڑ جائے۔" خداوند متعال کی ذاتی صفات اور افعالِ الٰہی کی نادرست تفسیریں مسلمانوں میں مختلف قسم کے منحرف افکار پیدا ہونے کا باعث بن گئیں۔ کچھ خدا کی صفات کو مخلوقات کی صفات جیسا پیش کرنے لگے تو کچھ اور خدا کی صفات کو خدا کی ذات سے جدا کہنے لگے۔

ایسے گمراہ کن عقائد کے پیش نظر امام جعفر صادق علیہ السلام نے ٹھوس عقلی دلائل کے ذریعے ان شکوک و شبہات کا جواب دینا شروع کر دیا۔ دنیا یا آخرت میں خدا کو دیکھنے کا مسئلہ جلد ہی مسلمانوں میں سب سے زیادہ زیر بحث مسائل میں سے ایک بن گیا۔ بعض حلقوں کی جانب سے آیات قرآن کریم کی ظاہری تفسیر انجام پانے کے بعد مختلف آراء سامنے آئیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حقیقت کی تشریح یوں فرمائی: "آنکھیں اسے نہیں دیکھتیں۔  لیکن دل، ایمان کی حقیقت سے اسے پا لیتے ہیں۔ خدا کو ظاہری حواس سے دیکھا نہیں جا سکتا اور اس کا عام انسانوں سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا اور بغیر تشبیہ کے جانا جاتا ہے۔" قضا و قدر الہی اور انسان کا بااختیار یا بے اختیار ہونا بھی ان مسائل میں سے ایک تھا جو مسلمانوں میں مختلف مذہبی فرقوں کی پیدائش کا باعث بنے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے حدیث شریف "لا جبر و لا تفویض بل امر بین الامرین" بیان کرنے کے بعد اس کی تشریح میں فرمایا: "جب کوئی شخص گناہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اور تم اسے منع کرو اور پھر اسے اپنے حال پر چھوڑ دو اور وہ گناہ کا ارتکاب کرے تو تمہارا اسے اپنے حال پر چھوڑ دینے کا مطلب یہ نہیں کہ تم نے اسے گناہ کرنے کا حکم دیا ہے۔"

3)۔ درس و تدریس یا عظیم جعفری یونیورسٹی
دینی تعلیمات کے فروغ کیلئے امام جعفر صادق علیہ السلام کے اہم ترین اقدامات میں سے ایک، عظیم درسگاہ اور تعلیمی مرکز کا قیام تھا۔ اس زمانے میں پوری اسلامی سرزمین میں متعدد انقلابات کا سلسلہ جاری تھا جس کے باعث امام جعفر صادق علیہ السلام پر حکومتی دباو میں کمی واقع ہوئی اور آپ علیہ السلام نے اس سنہری موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عظیم علمی تحریک کا آغاز کر دیا۔ یوں اسلامی تاریخ میں ایک عظیم حوزہ علمیہ اور علمی مرکز معرض وجود میں آیا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی تھی۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی کوششوں اور درسی نشستوں کا نتیجہ چار ہزار طلباء کے تعلیم یافتہ ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔ ان طلباء نے بہت سی ترک شدہ اور بھولی ہوئی احادیث کو جمع کرنے کا کام شروع کر دیا جس کے نتیجے میں بہت سی احادیثی کتب سامنے آئیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے چار سو اصحاب کی جانب سے چار سو حدیثی کتب (اصل) کی تالیف اس زمانے کے اہم ترین علمی اقدامات کی ایک مثال ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنی اس عظیم علمی تحریک کے نتیجے میں عام مسلمان افراد کو بھی اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایا اور انہیں معلوم ہوا کہ کس طرح ظالم حکمرانوں نے خلافت پر قبضہ کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کو اپنے درست اور حقیقی راستے سے منحرف کر دیا اور یوں مسلمانوں کو تباہی اور گمراہی کی طرف لے گئے۔ لہذا روز بروز اہلبیت اطہار علیہم السلام اور خاندان پیغمبر اسلام ص کی طرف توجہ بڑھتی گئی جس کے نتیجے میں حکمفرما ظالمانہ نظام حکومت کے خلاف متعدد انقلابات رونما ہوئے اور عوام کے اندر ظالمانہ حکومتوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوگیا۔

4)۔ ماہر شاگردوں کی پرورش
یہ بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک اور اقدام تھا۔ آپ ع اپنے شاگردوں کی صلاحیتوں سے بخوبی واقف تھے لہذا انہیں ان کی فہم و فراست کے مطابق خاص علمی شعبے کی تعلیم فراہم کرتے تھے۔

5)۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے علمی مناظرے
امام جعفر صادق علیہ السلام کے علمی مناظروں نے منحرف عقائد سے مقابلے اور موجودہ عقائد کی اصلاح میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ ع ہمیشہ مختلف فرقوں اور مذاہب کے مفکرین اور سربراہان کی جانب سے علمی مناظروں کی دعوت کا خیر مقدم کیا کرتے تھے۔ کیونکہ اس طرح نہ صرف منحرف عقائد کا بطلان واضح ہو جاتا تھا بلکہ تاریخ میں ان علمی مناظرے کے ثبت ہو جانے کے باعث دوسرے افراد بھی اس سے بہرہ مند ہو سکتے تھے۔ یوں مسلمانوں کے درمیان علمی مکالمے اور مناظرے کا درست اور مطلوبہ انداز تشکیل پایا اور اس نے ایک خاص مقام حاصل کر لیا۔ علمی مناظرات میں امام جعفر صادق علیہ السلام کا طریقہ کار بہت اہم ہے۔ امام علیہ السلام کی باریک بینی، متانت اور فہم و فراست ایسی تھی کہ حتی مخالفین بھی اس کی تعریف کرتے تھے۔ آپ ع مدمقابل کے قبول کردہ مسائل کی بنیاد پر دلیل پیش کرتے اور یہ دلیل اتنی مضبوط ہوتی کہ مدمقابل اپنی رائے کے باطل ہونے کا اعتراف کرنے اور امام علیہ السلام کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور ہو جاتا۔
 
آخرکار امام جعفر صادق علیہ السلام کی جانب سے 34 سال تک دینی تعلیمات اور دین کی حقیقت کو بیان کرنے اور ان کی تشریح کرنے کی مسلسل کوششوں کے بعد، جو اس دوران بہت سے انحرافات کا شکار ہو چکا تھا، دین دوبارہ زندہ ہو گیا اور اسلام کے درست عقائد واضح ہو گئے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کی جانب سے انجام پانے والی اس عظیم علمی تحریک نے دینی تعلیمات کے بارے میں پائے جانے والے تمام شکوک و شبہات کا ازالہ کر دیا۔ اسی طرح درست دینی تعلیمات کے بیان اور تشریح کے نتیجے میں تمام منحرف تعلیمات بھی اپنی حیثیت کھو بیٹھیں۔ لہذا اس کے بعد سے شیعہ مذہب کی تاریخ امام جعفر صادق علیہ السلام کے مبارک نام سے جڑ چکی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1132809
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش