0
Friday 13 Jul 2012 20:10

امت مسلمہ کی زبوں حالی کے بنیادی اسباب

امت مسلمہ کی زبوں حالی کے بنیادی اسباب

تحریر: جاوید عباس رضوی

دنیا میں آج مسلمانوں کی پریشانی اور زبوں حالی کی بنیادی وجہ ان کی صفوں کے درمیان انتشار ہے، بڑی طاقتیں جس طرح مسلمانوں کو عالمی سطح پر استعمال کرکے اپنا الو سیدھا کرتی ہیں، شائد ہی دنیا میں کسی دوسری ملت کا اس طرح استحصال ہوتا ہو، ایک طرف عربی و عجمی عصبیت کو ہوا دی جا رہی ہے تو دوسری طرف فروعی اختلافات کو دنیا کے مختلف ذرائع ابلاغ گمراہ کن پروپیگنڈا کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اغیار کی ان سینہ زوریوں کا سبب مسلمانوں کی اپنی کمزوری ہے، مسلمان اس پر خون جگر کے آنسو روتے ہیں کہ لبنان پر عیسائی اور صہیونی حملہ کرتے ہیں، افغانستان میں امریکہ براہ راست ان کا خون بہا رہا ہے، امریکہ کی مسلم اقلیت مظالم کا شکار ہو رہی ہے، فلسطینی اور کشمیری دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں، لیکن انکی اپنے حال پر نظر نہیں، بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کے مالی و جانی نقصانات پر وہ آنسو بہاتے ہیں لیکن جب آپس میں مسلمان ہی دست و گریبان ہوتے ہیں تو اس پر کف افسوس ملنے کے بجائے وہ عصبیت کے معرکے سر کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔

عرب ممالک کی آپس میں فکری، نظریاتی، تمہیدی و مسلکی، جغرافیائی، لسانی اور تمدنی بنیادیں جس طرح مشترک ہیں، مشکل سے یورپ کے ممالک کے مابین محرکاتِ اتحاد و اشتراک میسر ہوں، لیکن ان مسلم ممالک کی آپسی عصبیت کے نتائج پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسرائیل کی سینہ زوری اور خلیج فارس تک امریکی تگ و تاز کے جرات مندانہ اقدام کی ذمہ دار یہی آپسی فکری ہم آہنگی کی عدم موجودگی ہے۔

مسلمان کو آج کل ہر طرف سے جو مار پڑ رہی ہے، اس کی وجہ یہی آپسی دشمنی ہے، اگر منابع اصلی کی رو سے بس چلتا تو شائد ملکی اور قومی مخاصمت رکھنے والے یا جزوی اختلاف کو بنیادی عقائد پر ترجیح دینے والے عناصر ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کے فتوی بھی صادر کرنے سے گریز نہ کرتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہر مسلمان ملک مجموعی طور پر، ہر اسلامی فرقہ مجموعی حیثیت سے، ہر مسلمان تنظیم مجموعی سطح پر اور ہر مسلم تحریک اجمالی زاویوں سے جب ایک دوسرے بلاک سے متفق و مطمئن ہے، پھر یہ کون سی دیوار ہے جو زندگی کے مختلف شعبوں میں، زمانے کے تقاضوں اور جدید مسائل کی روشنی میں ان مختلف مکاتب فکر و نظر کو وحدت فکر و عمل کے لئے ایک سطح پر لانے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔؟

یہ ہے صرف بے عملی اور عصبیت کی دیوار۔ مثلا مجھے یہ منظور ہے کہ میں اسلامی مدارک کے اندر اندر اپنے مسلمہ عقیدہ و فقہ پر عمل نہ کروں، لیکن یہ بھی گوارا نہیں کہ دوسرا مسلم بھائی، اسلامی مدارک کے اندر اندر اپنے مسلمہ عقیدہ فقہ پر عمل کرے یا ہماری اس سطحی سوچ کو عیاشی و مفاد پرستی کے محافظ ہوا دیتے رہیں، نیز اسلام اور مسلمان کے نام پر فسق و فجور، رشوت و خیانت، زر پرستی، گروہ بندی کے بت بنائے جائیں، تو اس سے امت کے مسائل کہاں حل ہونگے۔

مسلم اکثریت والے ممالک میں مسلمان کا رول کیا مثالی ہونا چاہئے، اور مسلم اقلیت والے ملک میں اسے اسلام نوازی کے لئے کون سا کردار اختیار کرنا چاہئے، یہ ہم سب کے مشترکہ مسائل ہیں، حقیقت یہ ہے کہ قرآن میں فکری ارتقا کی سیر کرکے اسوہ رسول (ص) میں حسن تدبر کا مشاہدہ کر کے اور آئمہ اطہار (ع)، صحابہ کرام (ر) کی متفقہ سیرت سے استفادہ کرکے آج اور ہر دور کے مسلمان، رنگ و نسل، زبان و قومیت کی دیواروں کو گرا کر ایک مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرکے اپنے مسائل حل کرسکتے ہیں، ورنہ عام طور پر مشرکانہ جاہلیت اور جماعتی عصبیت کی جھوٹی جلوہ نمائیوں سے انتشار کا مرض بڑھتا ہی جائے گا، اور یہ ایسی ہی مثال ہوگی، جیسے کوئی غیرت سے روزہ نہ رکھے بلکہ شرارت سے فاقہ کرے۔

ماہ مبارک رمضان کا مقدس مہینہ مسلمانوں کے لئے ریفریشر کورس ہے، جس میں انہیں تطہیر فکر کی طرف متوجہ ہونا چاہئے، روزہ ظاہری برکتوں کا حامل بھی ہے اور باطنی فضیلتوں کا بھی، یہ بدن کی صحت کے لئے بھی مفید ہے اور ایمان کی صحت کے لئے بھی، یہ جسم کی کثافتوں کو دور کرتا ہے اور دل کی خباثتوں کو بھی، ماہ رمضان المبارک صبر، شکر اور ایثار کے لطف و عنایت سے فیضیاب ہونے کا بہترین موقعہ ہے، اس مہینہ کی حاصل جوہری اخلاق پر اس طرح مرتب ہوتی ہے کہ ماحول کی فتنہ سامانیاں اس پر اثر انداز نہیں ہوتیں، اس لئے لا الہ الا اللہ کی مرکزیت کی طرف فکر و نظر کو رخ دے کر اخلاق کے وسیلوں سے ترقی فکر و عمل کے لئے کوشش کرنے کے اس موقعہ سے بہترین استفادہ کرنا چاہئے۔

خبر کا کوڈ : 174002
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش