0
Tuesday 20 Nov 2012 23:34

شریکِ جرم

شریکِ جرم
تحریر: سید علمدار 
 
اپنے اہداف کے حصول کیلے تبلیغ بهترین وسیله ہے۔ تبلیغ کے اہداف سیاسی بھی ہوسکتے ہیں اور مذهبی بھی، اقتصادی بھی ہوسکتے ہیں اور ثقافتی بھی، غرضیکہ ہر شخص یا گروه اس وسیلے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ خصوصاً آج کے اس ترقی یافته دور میں اسکی اہمیت کہیں زیاده بڑھ گئی ہے۔
المختصر یہ کہ تبلیغ آج کے دور میں ترویج و تخریب کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ جو تبلیغ تخریب کے لیے ہو، اسکو پراپیگنڈہ کہا جاتا ہے، یا ہم اس کو تبلیغ سوء یا تبلیغ بد سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ 

کسی کے خلاف تبلیغ سوء عموماً دشمنوں کی جانب سے کی جاتی ہے۔ جیسا کہ آج کل پیغمبر اسلام (ص) اور قرآن کے خلاف دشمنان اسلام مصروف ہیں۔ لیکن کبھی کبھی یہ تبلیغ سوء دشمنوں کی طرف سے نہیں بلکہ نام نہاد دوستوں، اپنے ہی ساده لوح لوگوں اور ناسمجھ طرف داروں یا مخفی دشمنوں کی طرف سے شروع ہوجاتی ہے۔ یہ تبلیغ بظاہر ہمدردی اور خلوص کے لبادے میں اصلاح اور تعمیر کی خاطر کی جاتی ہے، لیکن اس کا نتیجہ تخریب، کردار کشی، غیبت اور باہمی سرد مہری کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اسکا نقصان بھی دشمن کی تبلیغات سے کہیں زیاده ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دانا دشمن نادان دوست سے بهتر ہے۔
 
آج اسلام کو بھی مکار دشمنوں سے زیادہ نادان دوستوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لیکن اسکا یہ مطلب بھی نہیں که اس ظاہری دشمن کو نظر انداز کر دیا جائے، بلکہ اس دشمن کی شناخت اور مقابله انتہائی ضروری ہے۔ لیکن اس سے اسلام کو زیاده خطره نہیں؛ کیونکہ بسا اوقات ممکن ہے کہ یه ظاہری دشمنوں کی دشمنی سے اسلام کو فائدہ ہی پہچ جائے، جیسا که 11 ستمبر کے بعد جو حملے اسلام پر ہوئے اسکے بعد مغربی دنیا میں اسلام اور زیاده تیزی سے پھیلا اور لوگوں پر بہت تیزی کے ساتھ اسلام کی حقیقت آشکار ہوئی۔ 

لیکن اسلام کو جو نقصان اپنے کلمہ گو نادانوں کی سوء تبلیغ سے پہنچا، اتنا دشمن کی تبلیغ سوء سے نہیں پہنچا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کرنے والے یا تو خود اسلام سے ناآشنا اور جاہل ہیں اور یا پھر اتنے کور مغز، ضدی اور متعصب ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اصلاح کے قابل اور لائق سمجھتے ہی نہیں۔ یہ اسلام کو متعارف نہیں کرواتے بلکہ اپنی کٹر اور خشک واہیات و خرافات کو اسلام کی نام پر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ کوئی انہیں پوچھنے روکنے اور ان کی تردید کرنے والا نہیں۔ یہ اپنی سفّاکانہ وارداتوں اور احمقانہ بیانات کے باعث دنیا کے سامنے اسلام کو دین محبت کے بجائے دین نفرت بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
 
انہوں نے اسلام کے نام پر ضدِ اسلام تعلیمات کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔ انہوں نے اسلام جیسے علمی دین کو دینِ جہالت بنا کر پیش کیا ہے۔ اسلام جو آزادی، مساوات اور عدالت کا علمبردار اسے ضد آزادی و مساوات و عدالت کہہ کر اس کی تبلیغ کر رہے ہیں اور وه افکار جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں، انہیں اسلام کی تعلیمات کے طور پر دھڑلے کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ مسلمان حکمرانوں کا طرز عمل بھی اسلام اور قرآن کے برعکس بالکل برعکس ہے۔ اب رہ گئی بیچاری عوام تو عوام کو کبھی حکمران استعمال کرتے ہیں اور کبھی اسلام کے نام نہاد ٹھیکدار۔ 

اب اگر اسلام کی اس تبلیغ سوء کے تناظر میں دیکھا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ آج دنیائے غرب میں جو اسلام اور پیامبر اسلام صلی الله علیه و اله کی توہین کی گئی، اسکے اصلی مجرم ہم خود ہیں اور ہماری ہی صفوں میں گھسے ہوئے غدار ہیں۔ یہ لوگ خود دشمن کے سامنے اسلام کا منفی چہرہ بنا کر ساری دنیا میں دکھا رہے ہیں۔ انہوں نے دنیا کے سامنے پیغمبر صلی اللہ علیہ ۔۔۔ اسلام کو متعارف ہی نفرت آمیز انداز میں کرایا ہے۔ اگر پیامبر (ص) کو بعنوان اسوه حسنہ پیش کیا جاتا تو کسی کو جرأت نه ہوتی کہ وه پیامبر (ص) کی توہین کرتا۔
 
ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شان میں نعتیں تو پڑھتے ہیں، لیکن جب ہمارے سامنے پیغمبر صلی اللہ علیہ ۔۔۔ کے دین کے ٹھیکیدار کہلانے والے پیغمبر صلی اللہ علیہ ۔۔۔ کی امت کو گمراہ کرتے ہیں، فرقہ واریت کو پھیلایا جاتا ہے، لوگوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں، بم دھماکے کرکے بے گناہوں کو خاک و خون میں غلطاں کیا جاتا ہے تو ہم خاموش رہ کر ان سارے کاموں کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ وہ تبلیغ سوء ہے جو ہم لوگ عملی طور پر خود پیغمبر اسلام کے خلاف کر رہے ہیں اور اس کا سارا فائدہ دشمنان اسلام کو پہنچ رہا ہے۔
 
ہمارے دینی ٹھیکیدار اپنے متعصب رہبروں کے نظریات تو ہر وقت بیان کرتے ہیں، لیکن پیغمبر اسلام (ص) کے افکار و نظریات پر بحث و گفتگو اگر کی بھی جائے تو صرف اپنے ہی فرقے کی بالادستی کو ثابت کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ کیا "اسوہ حسنہ" سے مراد یہ ہے کہ صرف پیغمبر (ص) کی شان میں نعتیں پڑھیں، تقریریں کریں اور غیر مسلموں کو توہین پیغمبر (ص) کی سزا دلانے کے لئے جلوس نکالیں۔ آج دنیا میں اگر اسلام، قرآن اور پیامبر (ص) کی توہین ہوتی ہے تو ہمیں بھی اپنے گریبان میں بھی جھانکنا ہوگا که اس مسئلے میں هم سب کس قدر قصور وار ہیں اور اس جرم میں ہم کتنے شریک ہیں۔
خبر کا کوڈ : 213757
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش