0
Saturday 4 Aug 2012 20:35

ایک دوسرے کے بڑوں کو اگر احترام نہیں دے سکتے تو ان کو برا بھلا نہ کہا جائے، مولانا تنویر احمد علوی

ایک دوسرے کے بڑوں کو اگر احترام نہیں دے سکتے تو ان کو برا بھلا نہ کہا جائے، مولانا تنویر احمد علوی
مولانا تنویر احمد علوی ملی یکجہتی کونسل کے رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ جامعہ محمدیہ کے نائب رئیس بھی ہیں۔ آپ نے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی سے ایم اے اصول دین کیا، اس کے علاوہ درس نظامی وفاق المدارس سے 1997ء میں مکمل کیا۔ فیصل آباد جامعہ اسلامیہ امدادیہ سے دورہ حدیث سے فراغت حاصل کی اور آج کل تدریس سے منسلک ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مدارس دینیہ اور ملی یکجہتی کونسل کے حوالے سے مولانا تنویر علوی کے ساتھ مدرسہ محمدیہ میں ایک نشست کا اہتمام کیا تھا، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: ہمارے ہاں مدارس کی تعلیم پر حکومت اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے، اصلاحات مدارس کے نام پر ایڈ لی جاتی ہے، اصل معاملہ کیا ہے۔؟
تنویر احمد علوی: اصل میں حکومتی اصلاحات تو صرف ایک نام ہوتا ہے، دراصل حکومت تمام وفاقوں کے مدارس پر اپنا کنٹرول اور تسلط قائم کرنا چاہتی ہے، تاکہ حکومت اپنی مرضی سے مدارس میں نصاب رائج کرے۔ اس تبدیلیء نصاب میں مغربی مفاد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے جرات و حمیت نکال دیا جائے۔ ایک کھوکھلا سا نصاب مدارس میں رائج کیا جائے۔ جہاد کے نام سے وہ کانپتے ہیں، لہذا جہاد سے متعلقہ جتنی آیات و احادیث ہیں وہ نکال دی جائیں۔

اسلام ٹائمز: عام اسکولوں کے نصاب سے بھی جہاد سے متعلقہ آیات نکال دی گئی ہیں، اس کی کیا وجہ ہے۔؟
تنویر احمد علوی: حال ہی میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے نصاب میں جہاں سورۃ انفعال پڑھائی جاتی ہے، وہاں بھی حکومت نے ان پر زور دیا کہ اس سورۃ کی جگہ کسی اور سورۃ کی تفسیر پڑھائی جائے۔ یہ ایک مہم چل رہی ہے اور اسی کا نام اصلاحات ہے اور اسی کو وہ دیگر مدارس کے اندر بھی لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ تنظیمات مدارس دینیہ کے نام سے مدارس کے بورڈ کا قیام نہایت خوش آئند اقدام ہے۔ اصل میں ہماری قیادت اور حکمرانی کرنے والے افراد دینی واقفیت سے محروم ہوتے ہیں، ان کو مغرب والے جو اصلاحات اور جو سبق یاد کرا دیتے ہیں، تو یہ یا تو اپنی جہالت کی بنا پر اس پر ایمان لاکر اسی پر عمل شروع کر دیتے ہیں یا پھر اپنی مفاد پرستی کی بنا پر ان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ جہاد تو دراصل امن قائم کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے سیاستدان دہشت گردی اور جہاد میں فرق کرنے سے قاصر ہیں۔ جہاد اور فساد میں فرق ہے، جہاد کا تصور تو بڑا پاکیزہ ہے۔ یورپ والوں اور مغرب کو یہ فرق سمجھانے کی ضرورت ہے، لیکن عموماً ہوتا یہ ہے کہ ہماری قیادت میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ ان کو مطمئن کرسکیں۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کے لئے مغربی میڈیا نے شدت پسند، دہشت گرد، انتہا پسند وغیرہ جیسے نام مشہور کئے ہیں، اس میڈیا وار کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔؟
تنویر احمد علوی: اس معاملے میں ہمارے ارباب اختیار کو بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین مغرب کے سامنے اپنا رول پیش کریں کہ یہ جو آپ نے اصطلاحات گھڑی ہیں۔ ان کی تعریف بھی بیان کریں کہ آپ کی نظر میں دہشت گرد کون ہے، آپ کے نقطہ نظر کے تحت انتہا پسند کون ہے۔ آپ بغیر تحقیق کئے کسی پر انتہا پسندی کا لیبل چسپاں کر دیتے ہیں، ہم آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ کن الزامات کی بنیاد پر آپ ہمیں دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔ اور ہماری حکومت بھی کسی قسم کی وضاحت لئے بغیر جس کو مغرب والے دہشت گرد کہتے ہیں یہ بھی ان کو دہشت گرد کہنا شروع کر دیتی ہے۔ تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے قائدین یہ مسئلہ اٹھائیں کہ دہشت گرد اور انتہا پسند کی تعریف کیا ہے اور وہ کون ہیں، تاکہ یہ مسئلہ حل ہوسکے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی بات بجا ہے کہ دہشت گردی یا Terrorism کی واضح تعریف سامنے نہیں آسکی اور مسلمانوں پر دہشت گرد کا لیبل چسپاں کر دیا گیا، اس میں مسلم ممالک خصوصاً سعودی عرب کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔؟
تنویر احمد علوی: ہمیں حکمرانوں سے بہت زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہیے، ان کو اپنے مفادات عزیز ہیں اور وہ امریکہ یا یورپ کے سامنے سر اٹھانے کی جرات نہیں رکھتے، ان ممالک کے سربراہان سے تو ہمارے مذہبی جماعتوں کے قائدین زیادہ موثر ہوسکتے ہیں، اگر یہ لوگ اس سلسلے میں مل کر آواز اٹھائیں تو بھی معاملہ حل ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں ملی یکجہتی کونسل کا احیاء عمل میں لایا گیا، اس سے کس حد تک امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔؟
تنویر احمد علوی: ملی یکجہتی کونسل مختلف مسالک اور فرقوں کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے تو یہ بہت زیادہ موثر کردار ہے۔ اگر یہ پلیٹ فارم سیاست میں الجھ گیا تو سیاست کی نظر ہو جائے گا، جیسے متحدہ مجلس عمل سیاست کا شکار ہو کر غیر فعال ہو گئی۔ ملی یکجہتی کونسل کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد یہ ہونا چاہیے کہ مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد اور امن کو قائم کرکے اخوت کو فروغ دیا جائے۔ کونسل کی میٹنگ میں بھی یہ رائے دی تھی کہ دیکھا جائے کہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کی راہ میں کون سے اسباب و عوامل مددگار ہوسکتے ہیں اور کونسے اس راہ میں رکاوٹ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تمام مسالک کے ذمہ داران بیٹھیں اور ایک ضابطہ اخلاق طے کر لیں اور دیکھیں کہ اس ملک میں مختلف مسالک کے درمیان کیا چیزیں ہیں جو انتشار پیدا کر رہی ہیں اور کون سی ہیں جو پیار اور الفت پیدا کریں گی۔ اسطرح جو منفی چیزیں ہیں، ان کا خاتمہ کیا جائے اور مثبت چیزوں کو آگے بڑھایا جائے۔

اسلام ٹائمز: ابھی تک ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے کیا امور سرانجام دئیے گئے اور وہ کس حد تک باعث اطمینان ہیں۔؟
تنویر احمد علوی: میری رائے میں وہ جماعتیں جن پر شدت پسندی کا الزام پہلے سے موجود ہے، جب تک وہ جماعتیں اس اتحاد میں شامل نہ ہوں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ مثال کے طور پر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ان سے متعلق سپاہ محمد ہے، اسی طرح دیوبندی حضرات کی طرف سے سپاہ صحابہ ہے۔ اسی طرح جمعیت علماء پاکستان میں سنی تحریک ہے۔ ملک میں امن یا فساد میں ان دھڑوں کا عمل دخل زیادہ ہے۔ تو ان کو اگر باہم بٹھایا جائے ان کے مسائل کو سنا جائے، شروع میں کچھ اجلاسوں میں تند و تیز باتیں ہوں گی، لیکن آہستہ آہستہ جب ان کے سامنے مشکلات رکھی جائیں کہ آپ کے اس نقطہ نظر سے اور اس انداز سے کیا کیا مسائل جنم لے رہے ہیں تو معاملہ حل ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: عام تاثر ہے کہ ان مذہبی فسادات میں انٹرنیشنل کانسپیریسی کارفرما ہے اور مذہبی فسادات میں بیرونی ممالک کی پشت پناہی کے شواہد موجود ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
تنویر احمد علوی: اس حوالے سے چونکہ عملاً میں اس میدان میں نہیں رہا۔ تمام ممالک کے اس خطے سے اپنے مفادات وابستہ ہیں۔ مثلاً روس کے مفادات کے تحفظ کے لئے بھی لوگ موجود ہیں، لیبیا ہے ایک دور کا ملک ہے لیکن اس کے مفادات کے تحفظ کے لئے بھی پاکستان میں لوگ موجود ہیں۔ کچھ لوگ غلط فہمی میں استعمال ہو رہے ہوتے ہیں، ان کے سامنے مشکلات رکھی جائیں، تو میرا خیال ہے ان کو قائل کیا جاسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے اقدامات میں سے ایک خوش آئند اقدام جمعہ کمیشن کا قیام ہے، جو تند و تیز خطباء حضرات کو کنٹرول کرے گا، یہ عملی طور پر کیسے ممکن ہوگا۔؟
تنویر احمد علوی: ایک رائے جو کونسل کے اجلاس میں چل رہی تھی وہ یہ تھی کہ تمام حضرات کو لکھی ہوئی تقریر دے دی جائے اس کا تو کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ کچھ بنیادی نکات ایسے ہونے چاہییں جن پر ہمارا اتحاد ہو۔ تمام مسالک و مساجد ان بنیادی نکات پر متفق ہوں، تاکہ وہ نکات ہر جمعے کو بیان ہو جایا کریں۔ مثال کے طور پر آج کل ڈرون حملے چل رہے ہیں یا برما کی صورتحال ہے، ان پر رہنمائی کر دی جائے کہ اگر آپ ان موضوعات پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو فلاں فلاں آیات و احادیث کو ضرور دیکھ لیں، باقی گفتگو ہر مقرر اپنی ہی کرے گا، لیکن چند موضوعات ایسے ہیں جن پر پورے پاکستان کی مساجد سے آواز اٹھے۔

اسلام ٹائمز: ابھی تک ملی یکجہتی کونسل نے مشترکات اور متفقات پر جو کام سرانجام دیا ہے، اس کے بارے میں بتائیں۔؟
تنویر احمد علوی: میرا خیال ہے ابھی تک کام ہوا نہیں ہے لیکن کام ہوسکتا ہے، مثلاً میں نے ایک رائے دی تھی کہ تمام مدارس کا ایک مشترکہ بورڈ ہو، ہمارے ہاں مدارس میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے، خواہ وہ اہل تشیع کے مدارس ہوں یا اہل سنت کے، ان میں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس میں کافی حد تک یکسانیت موجود ہے، مثلاً دیوبندی اور بریلوی مدارس میں منطق کی جو کتب پڑھائی جاتی ہیں، وہ اہل تشیع حضرات کی لکھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح اہل تشیع کے مدارس میں نحو و صرف کی جو کتب پڑھائی جاتی ہیں وہ اہل سنت کی تحریر کردہ ہیں۔ جب پہلے سے اس قدر وسعت ہمارے اندر موجود ہے کہ ہم ایک دوسرے کی کتب پڑھا سکتے ہیں تو نصاب کو بھی ہم ایک بنا سکتے ہیں۔ نصاب اور فنون کی کتب ایک ہو جائیں اور احادیث اور فقہ کی کتب اختیاری مضامین ہو جائیں وہ ہر ایک مسلک اپنی پڑھائے۔ اور اوپر سند سب کو ایک ہی جاری ہو۔ اسطرح میں سمجھتا ہوں کہ ہم کافی حد تک یکسانیت اور وحدت پیدا کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایک رائے یہ بھی آئی تھی کہ تمام مسالک کے طلاب اور نوجوانوں کی مشترکہ ورکشاپ رکھی جائے، یہ بھی وحدت کے لئے ممد و معاون ثابت ہوگی۔؟
تنویر احمد علوی: بالکل جب آپس میں ہم مل کر بیٹھتے ہیں تو بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ممکن ہوتا ہے۔ مثلاً اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان بہت سی غلط فہمیاں ہیں۔ اگر مل کر بیٹھیں ایک دوسرے کے علماء کو دیکھیں تو بہت سی پیچیدگیاں ختم ہوسکتی ہیں۔ ایک ماحول کو فروغ دینے کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے بڑوں کو اگر احترام نہیں دے سکتے تو ان کو برا بھلا نہ کہا جائے، آپ یہ کہیں کہ دوسروں کے اکابر کو بھی اسی طرح احترام دیں جس طرح اپنے اکابرین کا دیتے ہیں تو یہ ناممکن ہے۔ 

میں اب بریلوی حضرات سے کہنا شروع کر دوں کہ دیوبندی اکابر کا اسی طرح احترام کریں جیسے مولانا احمد رضا خان کا آپ احترام کرتے ہیں یا وہ کہیں کہ آ پ جیسے مولانا قاسم نانوتوی کا احترام کرتے ہیں اسی طرح آپ مولانا احمد رضا خان کا احترام کریں تو یہ ناممکن چیزیں ہیں۔ لیکن میں اگر سرعام مولانا احمد رضا خان بریلوی پر تنقید نہ کروں، وہ سرعام مولانا قاسم نانوتوی پر تنقید نہ کریں تو یہ دونوں اکٹھے رہ سکتے ہیں۔
 
اسی طرح اہل تشیع اور اہل سنت حضرات ایک دوسرے کے بڑوں کو کچھ نہ کہیں۔ اپنے نظریات اپنی درسگاہوں تک محدود کریں اور اہل سنت اپنی درسگاہوں میں اپنے طلباء کو پڑھائیں اور باہر عوام کے سامنے یہ مسائل نہ چھیڑے جائیں، تو عوام باہم شیر و شکر ہوسکتی ہے، اکٹھی رہ سکتی ہے۔ عوام کو اپنی نماز، عبادات، مسائل پڑھائے جائیں وہ ہے تعلیم، تعلیم کی حد تک پڑھائے جائیں۔ لیکن عوام کے سامنے ایسی چیزیں نہ رکھی جائیں، جن سے باہمی غلط فہمیاں اور الجھنیں جنم لیتی ہیں، اس طرح ہم امن کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دشمن ہمارے درمیان موجود اختلافات کو استعمال کرکے ہمیں کمزور کر رہا ہے، کیا یہ حقیقت ہمارے پیش نظر ہے۔؟
تنویر احمد علوی: اہل علم حضرات کی زبان عام کرنے کی اشد ضرورت ہے، جو علمی انداز میں عقائد کو بیان کریں، علمی انداز سے مسائل سمجھانے سے کبھی آگ نہیں لگتی۔ انہیں مسائل کو اہل علم کی بجائے جب خطیب بیان کرتے ہیں تو وہ اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں، جس سے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ علمی انداز سے ایک دوسرے کے مسائل کو پڑھا جاتا ہے، سنا جاتا ہے، لیکن انہیں مسائل کو جب خطیب بیان کرتے ہیں تو اس سے آگ لگتی ہے اور مسائل و اختلافات بڑھتے ہیں۔ ملی یکجہتی کونسل اگر اپنا مثبت کردار پیش کرے اور اپنی اہمیت اجاگر کرے تو سارے لوگ ان کو تسلیم کریں گے، لیکن اگر یہ شروع سے ہی متنازعہ بن جائیں اور قومی مسائل میں ان کا کوئی کردار نہ ہو تو یہ اپنی حیثیت کھو بیٹھیں گے۔

مشرف دور میں مدارس کے خلاف مہم چلی، ان دنوں جامعہ فریدیہ کے اندر تنظیمات مدارس دینیہ کا پروگرام ہوا۔ تو وہاں جامعہ فریدیہ کی چھت پر پہلی لائن کے اندر جو شخصیات موجود تھیں، ان میں علامہ ساجد میر، علامہ ساجد نقوی، حافظ حسین احمد صاحب، ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب۔ بہرحال ہر مکتبہ فکر کی صف اول کی قیادت موجود تھی، تو وہاں ہمارے صحافی سے ایک گورا صحافی پوچھتا ہے، یہ کون کون ہیں۔ اسے بتایا گیا کہ یہ فلاں فلاں ہیں اور ان کا تعلق ان مسالک سے ہے تو وہ بےساختہ بولا کہ پھر حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔ تو اگر یہی مثال ہم ملی یکجہتی کونسل کے حوالے سے پیش کریں تو اگر یہ تمام لوگ اکٹھے ہوکر چلیں تو قومی معاملات میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر معاملہ سر سے گزر جائے اور یہ تمام اکٹھے ہوکر ایک معمولی سی مٹنگ کرلیں، تو نہ ہی ان کو عوام میں پذیرائی ملے گی اور نہ ہی یہ مزید چل سکیں گے۔

اسلام ٹائمز: مصالحتی کمیشن کی غرض و غایت کیا ہے۔؟
تنویر احمد علوی: مختلف مسالک کے درمیان جھگڑوں کا حل تلاش کرنا، اگر شیعہ سنی جھگڑا ہوتا ہے تو شیعہ سنی اکابر یہ دیکھیں کہ زیادتی کس کے ساتھ ہو رہی ہے، مظلوم کا ساتھ دیں اور ظالم کا ہاتھ روکیں۔ یہاں یہ نہ دیکھا جائے کہ میرا مسلک کونسا ہے، اس سے ہمارے مسائل حل ہوں گے۔ میں یہاں ایک مثال دیتا ہوں۔ مولانا مظفر حسین ایک بزرگ گزرے ہیں، آج سے دو سو سال پہلے، مسلمانوں کا وہاں جھگڑا تھا ہندؤوں کے ساتھ مندر کے سلسلے میں، ہندو کہتے تھے کہ یہ جگہ ہمارے مندر کی اور مسلمان کہتے تھے کہ یہ مسجد کی جگہ ہے۔ آخر میں انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مولانا مظفر حسین آکر جو فیصلہ کریں ہمیں منظور ہے، مولانا مظفر حسین آئے انہوں نے دونوں کا قضیہ سنا اور فیصلہ دیا کہ میری رائے میں یہ جگہ ہندؤوں کی ہے۔ وقتی طور پر بہت سے مسلمان مولانا کے خلاف ہوگئے، لیکن اس واقعے کے بعد بہت سے ہندو مسلمان ہوگئے۔ اگر ہمارے اکابرین اس انداز میں فیصلے کریں تو ظلم کرنے والے بھی خائف ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ملی یکجہتی کونسل کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی۔؟
تنویر احمد علوی: پارلیمنٹ کے اندر موجود افراد کی ذہن سازی کی جائے کہ قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہ بننے پائے۔ اب اسلامی نظریاتی کونسل قانون کو قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھ کر اپنی سفارشات مرتب کرتی ہے، پارلیمنٹ میں موجود افراد کی ذہن سازی کی جائے، تاکہ وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آواز اٹھائیں۔ دین کا درد رکھنے والے علما وقتاً فوقتاً اکٹھے ہو کر پارلیمنٹ کے ممبران سے ملاقاتیں کریں، تاکہ ان کی ذہن سازی کی جاسکے۔

احتجاج سے بڑھ کر اگر ناصحانہ انداز اپنایا جائے تو زیادہ فائدہ ہوگا، ہر چیز کا حل احتجاج میں نہیں ہے۔ حکومتی افراد سے ملاقاتیں کی جائیں اور ان کے سامنے مسائل رکھے جائیں کہ یہاں قرآن و سنت سے متصادم قوانین چل رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سی تحریکیں چلی ہیں، ختم نبوت کی تحریک کیوں کامیاب ہوئی۔ اس لئے کہ اس تحریک کے قائدین کا انداز ناصحانہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہمارے علماء کی یہ روش رہی ہے کہ اپنی مسلمان حکومت سے بھی وہی طریقہ کار رکھا گیا جو انگریز سے رو ا رکھا جاتا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پیار محبت اور خیر خواہی کا طریقہ کار اپناتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کروایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 184528
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش