4
0
Monday 31 Dec 2012 22:30

انسان کشی اور خلائی مخلوق

انسان کشی اور خلائی مخلوق
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com 
 
اگرچہ پاکستان میں اس سے پہلے اور بعد میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں لیکن سفاکیّت، سنگدلی اور درندگی کے اعتبار سے یہ انتہائی دلخراش سانحہ تھا کہ جب 2 اپریل 2012ء کی شب راولپنڈی سے سکردو جانے والی انیس سے بیس گاڑیوں کے کانوائے کو چلاس کے مقام پر روک کر مسافروں کو ایک ایک کرکے نیچے اتار کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مسافروں کو کئی درجن مسلح موٹر سائیکل سواروں نے ناکہ لگا کر روکا اور ارد گرد گھات لگائے، ہزاروں انسان نما درندے خنجر، پتھر اور ڈنڈے لے کر مسافر بسوں پر حملہ آور ہوئے۔ پتھروں کے برسنے اور گولیوں کے چلنے کی آوازوں کے درمیان ننھے بچوں کی چیخیں اور مستورات کے بین فضاوں میں گونجتے رہے، لیکن کسی پر کوئی رحم نہیں کیا گیا۔ ظلم ،سفّاکیّت اور درندگی کی انتہا تو دیکھئے، کتنے ہی لوگوں کو زندہ ان کے ہاتھ پاوں باندھ کر دریا میں بہا دیا گیا۔ یہ وہ ظلم ہے جس کے گھاو وقت کے مرہم سے مندمل نہیں ہوسکتے اور جس کے دھبے ہماری تایخ کے دامن پر ہمیشہ دکھائی دیتے رہیں گے۔

ابھی ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں کوئٹہ سے تفتان کے راستے میں 3 بسوں کے قریب خودکش بم دھماکہ کرکے 19 افراد کو شہید کردیا گیا ہے جب کہ 25 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ بعض اطلاعات کے مطابق، مارے جانے والے اور زخمیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ اگر آپ پاکستان میں جاری انسان کشی کو قابو میں کرنے کے خواہاں ہیں تو سب سے پہلے آپ کو یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کے اندر دو طرح کی مخلوق پائی جاتی ہے۔ ایک وہ مخلوق ہے جس کا ناطہ پاکستان کی مٹی سے جڑا ہوا ہے، یہ محنت مزدوری کرتی ہے، چھکڑا بسوں میں سفر کرتی ہے، ٹاٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے، دن بھر کی مشقّت کے بعد بمشکل تن ڈھانکتی اور پیٹ بھرتی ہے۔ ریلیوں کی قطاروں میں، تنظیموں کے نعروں میں، دفتروں کے چکروں میں، تھانوں کی فائلوں میں اور خودکش حملوں کے قالب میں اسی مخلوق کا بھرتہ بھرا ہوا ہے۔ یہ پاکستان کی زمینی مخلوق ہے۔ یہ پاکستان کی زمین پر ہی رہتی ہے، زمینی سفر ہی کرتی ہے اور رشوت کی قانونی شکل یعنی ڈبل اور ٹرپل فیسز نہ ہونے کے باعث پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے دفاتر کے باہر اپنی عمر کا قیمتی حصہ خاموشی سے ضائع کر دیتی ہے۔ 

پاکستان کی خلاوں میں بھی ایک مخلوق بستی ہے، جو اپنے آپ کو سیاست دان، آقا، مالک اور حکمران کہتی ہے۔ یہ دور سے زمینی حالات کا جائزہ لیتی ہے، دفتروں کے رگڑے، مہنگائی کے جھٹکوں، علاقائیت کے سیلاب، بیوروکریسی کے عذاب اور دہشت گردی کے ناگ سے اس مخلوق کا واسطہ ہی نہیں پڑتا۔ یہ خلائی مخلوق عوامی سطح سے اوپر ہی اوپر رہتی ہے اور خلاوں میں بیٹھ کر ہی اہلِ زمین کے دکھوں پر اشک بہاتی ہے، بیانات کی برسات کرتی ہے اور آئندہ کے حالات کی پیشین گوئیاں کرتی ہے۔ البتہ دنیا کے محکمہ سیاسیات کے مطابق گذشتہ کچھ دہائیوں سے خصوصاً ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد پاکستان کی زمینی مخلوق، خلائی مخلوق سے سخت نالاں ہے۔
یہاں پر زمینی مخلوق نے یہ محسوس کرنا شروع کر دیا ہے کہ ہمارے مسائل سوگ منانے، تعزیتی بیانات، مذمتی جملوں اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے حل نہیں ہوسکتے، بلکہ ان مسائل کے حل کے لئے ضروری ہے کہ خلائی مخلوق بھی زمینی مخلوق کےساتھ مساوی زندگی گزارے۔ پروٹوکول کلچر کا خاتمہ کیا جائے، ظلِّ الٰہی کی سواری کے سائرن اتارے جائیں، امیرِ ملت بھی ملت کی مانند اپنے پیٹ پر پتھر باندھیں، جس جہاد کی ٹریننگ قائدین اپنے بچوں کو نہ دیں، اس جہاد سے قوم کے بچوں کو بھی محفوظ رکھیں۔ 

حقائق کے تناظر میں حالات کو سدھارنے کے لئے ضروری ہے کہ جس نان جویں کو ملّت چبائے، اسی کو قائد ملت بھی تناول فرمائیں۔ جب قائدین کی جانب سے ملت کو صحابہ کرام اور اہل بیت رسول (ص) کی مانند زندگی گزارنے کے درس دیئے جائیں تو پیرِ طریقت بھی سرکارِ دوعالم (ص) کی مانند خاک کے تکئے پر سر رکھ کر سو جائیں۔ جس مشکیزہِ آب سے حبشی سیراب ہو، اسی سے قریشی بھی اپنی پیاس بجھائے، جس جام کو ابوذر (ر) اپنے ہونٹوں سے لگائیں، اسی سے سلمان فارسی کی تشنگی بھی بجھے، حاکمِ وقت امت کے غریب ترین فرد کے معیارِ زندگی پر آکر اپنی زندگی گزارے اور رہبر عوام کے مقابلے میں خلائی مخلوق بن کر نہ رہے۔ جب تک خلائی مخلوق، زمینی مخلوق کے معیارِ زندگی کے مطابق زندگی نہیں گزارے گی تو وہ دہشت گردی کے حل کے لئے فقط زبانی اعلانات کرتی رہے گی۔ 

یہ ہم سب کے لئے سمجھنے اور سوچنے کا مقام ہے کہ جسے وی آئی پی پروٹو کول حاصل ہو اور جس کے بینک بیلنس، جائیداد، پلازوں اور پلاٹوں پر قارون کی رال بھی ٹپک پڑے، وہ غریب کا درد کیسے محسوس کرسکتا ہے؟ اسی طرح جس نے پبلک ٹرانسپورٹ میں کبھی سفر نہ کیا ہو، جس کے بچوں نے نادرا کی لمبی قطاروں میں کھڑا ہونے کا مزہ نہ چکھا ہو، جس کی فیملی نے شناختی کارڈ آفس کی ذلتوں کو مہینوں تک نہ سہا ہو، وہ دفتری امور کی اصلاح کو اپنا پہلا مشن کیسے قرار دے سکتا ہے؟ جس کے گھوڑے بھی مربّہ کھاتے ہوں، جس کے نوکر بھی بادشاہوں جیسی زندگی گزارتے ہوں، وہ مہنگائی اور غربت کے خلاف کیا جہاد کرے گا۔؟ 

جس کی اپنی سکیورٹی اور حفاظت کے لئے چور اچکّے اور سرکاری و غیر سرکاری غنڈوں کی بھرمار ہو اور جس کے اقرباء اور بیوی بچے ہوائی جہاز کے علاوہ سفر نہ کرتے ہوں، اسے زمینی قافلوں کو سکیورٹی فراہم کرنے اور دہشت گردی کو روکنے کے لئے جان کھپانے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔؟ آپ کی اطلاع کے لئے ہم یہ بھی عرض کئے دیتے ہیں کہ پاکستان میں بسنے والے لوگوں کی اکثریت زمینی مخلوق سے تعلق رکھتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں زمینی مخلوق کے لئے ضروری ہے کہ وہ الیکشن کے ان دنوں میں خلائی مخلوق کے سامنے دھمال ڈالنے کے بجائے، خلائی مخلوق سے اپنے ساتھ زندگی گزارنے کا مطالبہ کرے۔
 
الیکشن کی مہم کے دوران ہمیں اہلِ زمین کو یہ شعور دینا چاہیے کہ اگر خلائی مخلوق زمین پر اتر آئے اور ہلِ زمین کے ساتھ ہی دفتروں کے دھکے کھائے، مہنگائی کا ذائقہ چکھے، پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرے تو تقریباً زمین کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے، سیاسی اوزون کی تہہ میں موجودہ شگاف پر ہو جائے گا، اقتصادی زلزلوں کے جھٹکے رک جائیں گے، جمہوریّت کا رقبہ دن بدن بڑھنے لگے گا، فوجی آمریّت کے سیلاب کی مسلسل تباہ کاریاں ٹھہر جائیں گی اور لوگ ایک دوسرے کی گردنیں اڑا سے باز آجائیں گے۔ المختصر یہ کہ جب تک "خلائی مخلوق" خلا میں رہے گی، زمینی مخلوق کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ چونکہ اگر سیاستدان، حکمران یا رہبر کو عوام کی مانند اپنی زندگی بھی خطرے میں نظر آئے اور عام لوگوں کی مانند اپنا خاندان بھی داو پر لگا ہوا دکھائی دے تو پھر وہ بیانات نہیں داغے گا بلکہ عملی اقدامات کرے گا۔
خبر کا کوڈ : 226919
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

زبردست! میرے دل کی آواز۔
Pakistan
واہ
خدا سلامت رکھے نذر بھائی کو
" اللہ کرے زور قلم اور زیادہ"
Iran, Islamic Republic of
ہمیشہ کی طرح بے لاگ اور زوردار لکھا ہے۔
یه قوم کی آواز ہے۔ مظلوم قوم کی آواز
منتخب
ہماری پیشکش