0
Wednesday 20 Mar 2024 11:58

نیٹو میں وسعت اور روس کی دھمکی

نیٹو میں وسعت اور روس کی دھمکی
تحریر: حنیف غفاری

سویڈن بالآخر شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے (نیٹو) کے 32ویں رکن ملک کے طور پر اس گروپ میں باقاعدہ شامل ہوگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسٹاک ہوم کی بین الاقوامی نظام میں غیر جانبداری کی پالیسی کا خاتمہ ہوگیا ہے اور آج کی دنیا میں وہ نئے تنازعات میں براہ راست داخل ہوگیا ہے۔ یہ مسئلہ اس ملک کے اندر نیز اس کے پڑوسیوں میں فلاحی ریاست کے ڈھانچے پر منفی اثر ڈال سکتا ہے. اس اقدام سے یوکرین کی جنگ کے دو سال سے زائد عرصے کے بعد اب اس شمالی یورپی ملک کی پوزیشن مستحکم ہوگئی ہے، جو عرصے سے اس معاہدے کی حفاظتی چھتری تلے یعنی نیٹو اتحاد کا رکن بننے کی کوشش کر رہا تھا۔

سویڈن کے وزیراعظم اولاف کرسٹرسن اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے اس عمل کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نیٹو میں سویڈن کی رکنیت کے ناقدین کا خیال ہے کہ بیرونی تنازعات میں داخل ہونے سے اس یورپی ملک کے اندرونی معاملات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حالیہ دہائیوں میں سویڈن نے بعض بین الاقوامی بحرانوں میں ثالث کا کردار ادا کیا ہے، لیکن اب یہ عالمی تنازعات کا حصہ بن چکا ہے اور اس مسئلے نے اس کے روایتی کردار کو چیلنج کر دیا ہے۔ کہانی یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔

شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے میں سویڈن اور فن لینڈ کی باضابطہ اور حتمی رکنیت کا مطلب شمال میں نیٹو کی توسیع ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یوکرین میں جنگ شروع ہونے کے بعد مغرب اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ نیٹو کی مشرق میں توسیع سے بحر اوقیانوس کے دونوں اطراف کے لیے بہت زیادہ تزویراتی  لاگت آتی ہے۔ لہذا، نیٹو کے ارکان کے دائرہ کار میں توسیع اسے متناسب شکل دے سکتی ہے۔ شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے میں چار ممالک سویڈن، ناروے، فن لینڈ اور ڈنمارک کی رکنیت کی وجہ سے یہ خطہ مغرب اور روس کے درمیان ممکنہ جنگی محاذوں میں سے ایک بن گیا ہے اور اس نے شمالی یورپ کو روسیوں کے ساتھ جیو اسٹریٹیجک محاذ آرائی میں ایک نئے اڈے میں تبدیل کر دیا ہے۔

قابل ذکر نکتہ شمالی یورپ تک نیٹو کی سرزمین کی توسیع کے بعد مغربی روس کے تزویراتی تنازعات کا مستقبل ہے۔ اس سے پہلے، نورڈک اور اسکینڈینیوین کے علاقوں کو ماسکو کے لیے کوئی مادی خطرہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ کریملن اور ان ممالک کے حکام کے درمیان رسمی اور غیر رسمی بات چیت ہوتی اور ان تعلقات کو مغرب کے ساتھ کشیدگی پر قابو پانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب، روس بھی اسٹاک ہوم اور ہیلسنکی کو میسنجر یا مشاورتی ثالث کے طور پر استعمال نہیں کرسکتا۔ شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے میں چار ممالک سویڈن، ناروے، فن لینڈ اور ڈنمارک کی رکنیت کی وجہ سے یہ خطہ مغرب اور روس کے درمیان ممکنہ جنگی محاذوں میں سے ایک بن گیا ہے۔ ماسکو کی جانب سے بحیرہ بالٹک میں جوہری آبدوزیں تعینات کرنے کی دھمکی اسی تناظر میں ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ تمام فریقین (روس اور اسکینڈینیوین ممالک) ایک دوسرے کے درمیان ممکنہ کشیدگی کو روکنے اور کنٹرول کرنے میں کتنے کامیاب ہوں گے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ 21ویں صدی میں عالمی سلامتی کے میدان میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، ان میں کچھ مظاہر اچانک اور عاملوں کے کنٹرول سے دور ہوچکے ہیں۔ اس سلسلے میں، روس اور سکینڈے نیویا کے ممالک کے درمیان ممکنہ کشیدگی کو محض ممکنہ تصور نہیں کیا جا سکتا، بلکہ وہ خاص حالات کے زیر اثر حقیقت کا روپ بھی دھار سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1123792
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش