0
Thursday 21 Mar 2024 05:03

پاک افغان تکلیف دہ تعلقات

پاک افغان تکلیف دہ تعلقات
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان و افغانستان دو ہمسایہ ممالک ہیں اور مذہب، ثقافت سمیت بہت سے تہذیبی رشتوں میں جڑے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دونوں میں بڑی تعداد میں پختون آباد ہیں، اسی طرح پاکستان اور افغانستان دونوں میں بلوچ اور ہزارہ بھی آباد ہیں۔ یوں دونوں طرف رشتہ داریاں اور صدیوں کی آمد رفت ہے۔ افغانستانیوں کی بڑی تعداد مہاجرین کی صورت میں یہاں رہی اور بہت سے افغانستانی تعلیم، صحت یا کاروبار کے سلسلے میں پاکستان آتے جاتے رہے۔ پاکستان نے انڈیا، ایران اور چین کے ساتھ اپنے بارڈر کو بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق چلایا، مگر افغانستان کے ساتھ ہمارا بارڈر بغیر کسی ضابطے کے افغانستانیوں کے لیے کھلا رہا۔ کسی قسم کے ویزہ یا پاسپورٹ کی ضرورت نہیں تھی، اس وجہ سے بہت سے بنگالی، بہاری اور دیگر ممالک کے لوگ براستہ افغانستان آسانی سے پاکستان میں داخل ہو جاتے تھے۔

2007ء میں تحریک طالبان پاکستان بنی اور اس نے پاکستانی ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ ویسے تو افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ابتدا سے ہی مثالی نہیں رہے، ان کی ایک الگ تاریخ ہے، جس کا آغاز ہی پاکستان کو تسلیم نہ کرنے کے افغانستان کے موقف سے ہوتا ہے۔ موجودہ خرابی کا تعلق ٹی ٹی پی سے ہے۔ دو ہزار اکیس میں افغان طالبان ایک معاہدے کے تحت افغانستان پر قابض ہوگئے۔ پاکستان کو امید تھی کہ ٹی ٹی پی کا مسئلہ حل ہو جائے گا، حل تو خاک ہونا تھا، یہ مسئلہ پاکستان کے لیے درد سر بن گیا۔ گذشتہ سال پاکستان میں خونی سال رہا، ملک بھر میں 650 سے زائد حملے رپورٹ ہوئے، جن کے نتیجے میں تقریباً ایک ہزار افراد شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر سکیورٹی اہلکار تھے۔

تازہ واقعہ نے تو حد کر دی، پاکستانی چیک پوسٹ پر حملے میں سات جوان شہید ہوگئے۔ یہ حملہ افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقے شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوجی چیک پوسٹ پر کیا گیا۔ عام طور پر چھوٹے موٹے حملے ہوتے ہیں اور ان میں چھوٹا موٹا نقصان ہوتا ہے۔ یہ بہت بڑا خودکش حملہ تھا، جس میں جدید ہتھیار استعمال کیے گئے تھے، ایسے حملے ریاستی مدد کے بغیر انجام پانا بہت مشکل ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری جیش فراسان محمد جو کہ حافظ گل بہادر گروپ نے نیا بنایا ہے، قبول کر لی۔ یہ گروپ بنیادی طور پر تحریک طالبان پاکستان کا ہی ایک حصہ ہے۔ جب ٹی ٹی پی کے حوالے سے افغان طالبان پر بہت دباو تھا کہ اسے ختم کریں یا انہیں پاکستان کے حوالے کر دیں تو انہوں نے ایک نیا گروپ کھڑا کر دیا، تاکہ دنیا اور پاکستان کی توجہ کو بھٹکایا جا سکے۔

اس حملے کے بعد صدر اور وزیراعظم نے جواب کی بات کی اور وزیر دفاع نے تو جگہوں کے معلوم ہونے کا بھی اعلان کیا تھا۔ اس حملے کے دو دنوں بعد پاکستان نے افغانستان میں ائرسٹرائیک کیا ہے۔ اس حملے میں ٹی ٹی پی اور ان گروہوں کو نشانہ بنایا گیا، جو پاکستان میں حملوں میں ملوث ہیں۔ ان حملوں کے بعد افغان ترجمان ذبیح المجاہد اور افغان وزارت دفاع کے سخت بیانات سامنے آئے اور گھسا پٹا موقف سامنے آیا کہ پاکستان کے اندر مسائل ہیں اور وہیں توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کارروائی کے بعد افغانستان نے ضلع کرم میں واقع پاک فوج کے ٹھکانوں اور عام لوگوں پر شیلنگ کی۔ کرم ضلع کے ہسپتال انتظامیہ کے مطابق، سرحد پار سے گولہ باری سے پاکستان میں کم از کم چار شہری زخمی ہوئے۔

مارٹر فائرنگ صبح سویرے شروع ہوئی اور دو گھنٹے تک جاری رہی۔ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق چار زخمی آئے تھے، ان کی حالت خطرے سے باہر تھی، اس لیے انہیں فارغ کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ، ضلع کرم میں فوجی ذرائع کے مطابق، گولہ باری سے کم از کم تین فوجی اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ افغانستان کی طرف دہشتگروں کے خلاف اس کارروائی کا پاکستان کی فوجی چوکیوں پر حملہ کرکے جواب دیا گیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ٹنشن جنوبی وزیرستان میں ہے اور حملے پارا چنار کی عوام پر ہوتے ہیں۔؟ ویسے کوئی مشکل سوال نہیں، اس کا جواب کافی واضح ہے۔

تواتر سے یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ ٹی ٹی پی کے لوگ نیٹو فورسز کا چھوڑا ہوا اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ نیٹو نے اسلحہ چھوڑا ہے یا دیا ہے۔؟ یہ بحث طلب موضوع ہے اور اس پر تحقیق کی ضرورت ہے۔ نیٹو کا چھوڑا ہوا اسلحہ اس طرح گلیوں بازاروں میں تو نہیں چھوڑا گیا۔ وہ چھاونیوں اور بیسز میں تھا، جہاں افغان طالبان نے قبضہ کر لیا تھا۔ وہاں سے یہ اسلحہ کیسے ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگا؟ یہ الگ سوال ہے۔ یہی اسلحہ بلوچ علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں بھی آیا ہے، مچھ میں ہونے والا حملہ اسی کا نتیجہ تھا۔ پاکستان کے ریاستی ادارے یقیناً اس کی تحقیق کر رہے ہوں گے۔ سابق نگران وزیراعظم پاکستان کاکڑ صاحب نے اپنے تازہ انٹرویو میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔

افغان طالبان اور پاکستانی طالبان میں نظریاتی بنیادیں مشترک ہیں۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ پورے کے پی کی بجائے زیادہ فوکس ٹرائبل ایریا میں ہوگیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کا فاٹا کے کے پی میں انضمام کے حوالے سے ایک خاص موقف رہا ہے اور حیران کن حد تک مشترک ہے۔ سکیورٹی حلقوں نے ان کارروائیوں کو ناگزیر قرار دیا۔ معروف تجزیہ نگار عامر رانا  نے کہا ریاست کے اداروں نے اب کسی بھی خطرے کے لیے جوابی کارروائی اختیار کی ہے۔ طالبان ٹی ٹی پی کی حمایت کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں اور پاکستان میں حملوں میں ان کے اپنے ارکان کے ملوث ہونے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

پاکستان کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہ علاقائی امن اور سلامتی کے لیے اجتماعی خطرہ ہیں۔ ہم ٹی ٹی پی کی طرف سے لاحق خطرے سے نمٹنے میں افغان حکام کو درپیش چیلنج کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔ اس لیے پاکستان دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حل تلاش کرنے اور کسی بھی دہشت گرد تنظیم کو افغانستان کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو سبوتاژ کرنے سے روکنے کے لیے کام جاری رکھے گا۔ یہ مناسب موقف ہے، اس میں افغانستان یا افغانستان کی اقوام کے ساتھ دشمنی کی بات نہیں ہے۔ افغان طالبان کی ان دہشتگردوں کے خلاف مدد کی بات ہے کہ پاکستان کی مدد سے انہیں ختم کر دیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 1123929
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش