2
0
Saturday 7 Sep 2013 10:44

اہل تشیع کی سیاسی جدوجہد کیخلاف فرقہ واریت کا شوشا!

اہل تشیع کی سیاسی جدوجہد کیخلاف فرقہ واریت کا شوشا!
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ 

پاکستان کی سیاسی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ اسلام کے نفاذ، اسلامی اقدار کے تحفظ اور ختم نبوت و حرمت رسول ؑ کی حفاظت کے لیے ملت تشیع پاکستان نے ہراول دستے کا کردار اد ا کیا ہے۔ یہ قابل ستائش ہے لیکن سرزمین پاکستان کا سب سے اہم تقاضا ملک میں اسلامی نظام کا نٖفاذ ہے۔ اسی کے پیش نظر ملت تشیع پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے گذشتہ تین دہائیوں سے منظم جدوجہد کر رہی ہے۔ پاکستان کی سرزمین پر آمریت اور مفاداتی سیاست کے خاتمے کے لیے جو نعرہ علامہ عارف حسین الحسینی شہید نے بلند کیا، اس کی گونج آج بھی اسلام آباد میں سنائی دے رہی ہے۔ شہید قائد نے ملت پاکستان کو یہ شعور عطا فرمایا کہ اگر ملکی سلامتی چاہتے ہو اور تو یاد رکھو کہ عزت اور سربلندی کا راستہ صرف اسلام ہے۔

پاکستان وجود میں آنے کے بعد سے مسلسل بیرونی جارحیتوں کا شکار رہا ہے۔ اسوقت سے آج تک ملک کو خطرات درپیش ہیں، لیکن جب بھی جنگ مسلط کی گئی پاکستان کے عوام نے افواج کا ساتھ دیا۔ بھارتی حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔ آج بھی یوم دفاع کی تقریبات میں ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہے اور ملت پاکستان دفاع وطن کے لیے بیدار اور تیار ہے۔ اگر انڈیا نے پاکستان کے خلاف جارحیت کی غلطی کی تو پاکستان کے غیور عوام یہ ثابت کریں گے کہ ہم نشان حیدر پانے والے شہداء کے جذبوں کے امین ہیں۔ جس طرح پاکستان کی آزادی کے لیے حسینی ؑ متوالوں نے قائد اعظم کا ساتھ دیا اور اپنی جانیں نچھاور کیں، اسی طرح جب بھی پاکستان کے دفاع کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو شیعیان حیدر کرار ارض وطن پر قربان ہوئے۔ جس طرح تحریک پاکستان میں کامیابی ایک خدائی نصرت تھی، اسی طرح پاکستانی مسلمانوں کے اخلاص اور نیک نیتی کی بدولت اللہ تعالٰی نے ہر جنگ میں ہماری غیبی امداد کی اور ہمیشہ دشمن کے دانت کھٹے ہوئے۔

فرقہ وارانہ تشدد پاکستان کی سالمیت کو لاحق خطرات میں سب سے اہم ہے۔ فرقوں کی بنیاد پہ پاکستانی مسلمانوں کے درمیان جنگ و جدل ملک کی نظریاتی اساس کو ختم کرکے رکھ دے گا۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جو اسلام کے نام پہ وجود میں آئی۔ پاکستان کی آزادی کے لیے تمام مسلمان مسالک نے متحدہ ہو کرجدوجہد کی، ورنہ یہ ممکن نہ تھا کہ علامہ اقبال کا خواب پورا کرنے میں قائد اعظم محمد علی جناح کامیاب ہوتے۔ مسلمانوں کے درمیان اخوت قرآن کا حکم ہے اور اللہ کے احسان سے برصغیر کے مسلمان متحد ہوئے اور ہمیں آزاد وطن نصیب ہوا۔ پاکستان اسلام کے نام پہ قائم ہونے والی ریاست ہے۔ جدوجہد آزادی میں لاکھوں جانیں قربان ہوئیں، عفت مآب مستورات کی عزتیں پائمال ہوئیں، کئی خاندان تباہ ہوئے اور متعدد گھرانے برباد ہوگئے، تاکہ آنے والی نسلیں اپنے گھروں کو آباد کریں اور انہیں اللہ کے دین پر عمل کرنے کی آزادی ہو۔ لیکن اس ملک میں کبھی اسلامی حکومت نہیں رہی۔ اللہ کی مدد اور نصرت سے مسلمانوں کو الگ ریاست ملی، لیکن ہم آج تک اللہ تعالٰی کے ساتھ کیے گئے وعدے کو پورا نہیں کرسکے۔

قائد شہید نے جب امام خمینی کے راستے پہ چلتے ہوئے ملت تشیع پاکستان کو اسلامی نظام کے نفاذ کی جہدوجہد کے لیے منظم کرنا شروع کیا تو اس دور کی استبدادی حکومت نے ایک سازش کے تحت انہیں شہید کروا دیا۔ انقلاب اسلامی ایران نے پاکستانی قوم کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور مسلمان ہوش میں آنا شروع ہوئے کہ جو ملک ہمارے بزرگوں نے اسلام کے نام پر قائم کیا تھا، اس میں ابھی تک انگریز کا نظام رائج ہے۔ پاکستان حکمرانی کرنے والی آمرانہ ذہنیت اور انکے سائے میں پروان چڑھنے والی نام نہاد جمہوری جماعتوں کو ہمیشہ عالمی طاقتوں کے سہارے کی ضرورت رہی ہے، کیونکہ یہ حکومتیں عوامی امنگوں کی کو پورا نہیں کرسکتی ہیں، اس لیے قوم کبھی ان سے مطمئن نہیں رہی۔ جب قائد شہید نے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تو ملت پاکستان کو گھپ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن نظر آنے لگی۔ پاکستانی شیعہ علامہ عارف الحسینی کی قیادت میں منظم ہونا شروع ہوئے تو حکومت وقت نے محسوس کیا کہ انہیں نظریاتی طور پر جس طاقت کا سامنا ہے وہ گذرتے دنوں کے ساتھ ایک عملی طاقت میں بدلتی جا رہی ہے۔ پاکستانی استبدادی نظام کے علاوہ عالمی طاقتیں بھی انقلاب اسلامی کے خطوط پہ پروان چڑھتی عوامی قوت کو سنجیدہ خطرہ محسوس کر رہیں تھیں۔

قائد شہید کی کوششوں اور بابصیرت قیادت نے ملت پاکستان کو اس پیغام پہ مجتمع کیا کہ اسلام فقط انفرادی احکام اور روایتی رسوم کا مجموعہ نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ آئین زندگی جب تک ہمارے ملک میں نافذ نہ ہو اسوقت تک مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں اللہ کی طرف سے عطا کردہ نعمت کا حق ادا نہیں ہو پائے گا۔ جب تک پاکستان میں اسلامی حکومت قائم نہیں ہو جاتی ملک پے در پے مشکلات کا شکار رہے گا۔ ملت پاکستان کے پاس ذلت اور عالمی طاقتوں کی کاسہ لیسی سے نجات پانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ قائد شہید کے افکار کی روشنی میں مسلمانوں کے تمام مسلک متحد ہو کر، لادینیت سے ریاست اور حکومت کے نظام کو پاک کر دیں۔ ایم ڈبلیو ایم پاکستان کی دیگر نمائندہ شیعہ جماعتوں کیطرح قائد شہید کے نظریہ پر قائم ہے۔ اسلام آباد میں ایم ڈبلیو ایم کا اجتماع اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ شیعہ نمائندہ جماعتوں کے منشور میں واضح طور پر درج ہے کہ ہماری جدوجہد کا مقصد ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔

پاکستان میں مسلمانوں کا اتحاد اور وحدت کے اصول کی بنیاد، اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے، فکر امام خمینی کی روشنی میں منظم ہونا اندرونی اور بیرونی طواغیت کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ سازشوں کے تانے باے بنے گئے۔ قائد شہید کو راستے سے ہٹانے کے ساتھ پاکستان کے مسلمانوں کو فکر امام خمینی کے متعلق گمراہ کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ ضیاءالحق نے براہ راست اسلامی جمہوری ایران یا امام خمینی کے خلاف کبھی زبانی یا عملی طور پر دشمنی یا مخالفت کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن قائد شہید کی شہادت اور پاکستان میں شیعہ سنی تفرقے کو ہوا دینے کے لیے سعودی اور امریکی ایجنسیوں کو فری ہینڈ دیا گیا۔ 

امام خمینی اور مکتب تشیع کے خلاف نفرت آمیز لٹیریچر اور پروپیگنڈہ کو ہوا دی گئی۔ اس مقصد کے لیے سپاہ صحابہ کو محلے کی مسجد کی انجمن سے ترقی دیکر ملک گیر شدت پسند گروہ میں بدل دیا گیا۔ پاکستان کی ہر دیوار پر کافر کافر کے نعروں کی چاکنگ اور شہر بہ شہر گالیاں بکی جاتی رہیں۔ قائد شہید کی شہادت کے بعد امام خمینی کے خط پر پروان چڑھنے والی اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کو شیعہ سنی فسادات اور منظم قتل و غارت کی وجہ سے بہت بڑا دھچکا لگا۔ فرقہ وارانہ تشدد کے اثرات کو اپنے حق میں دیکھتے ہوئے عالمی طاقتوں نے شیعہ مخالف گروہوں کا مزید مضبوط کیا۔ انقلاب اسلامی سے متاثر ہوکر پاکستان میں خلوص کی بنیاد پہ سیاسی تحریک برپا کرنے والوں کے مقابل تنگ نظر اور فسادی ملاوں کو کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن شیعہ قائدین نے اس استعماری حربے کو اپنی راہ میں رکاوٹ تو سمجھا لیکن ان فرقہ پرستوں کے مقابل اپنے آپ کو محدود نہیں کیا۔

جب قائد شہید پارہ چنار میں تھے تو خاص منصوبہ بندی کے ساتھ شیعہ نشین علاقوں کو مختلف قبائل اور لشکریوں کے ذریعے فسادات کی آگ میں جھونکا جاتا رہا۔ قائد شہید ہر میدان میں شیعہ حقوق کے لیے پیش پیش رہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ شیعہ سنی وحدت کو برقرار رکھتے ہوئے عالمی امور سمیت استعمار دشمنی کی پالیسی سے منحرف نہیں ہوئے اور نہ ہی پاکستان میں ہمہ گیر اسلامی تحریک کے مشن کو اپنی جماعت اور کارکنوں کی نظروں سے اوجھل ہونے دیا۔ شہید قائد نے فرقہ واریت کا الزام لگانے والوں کے جواب میں فرمایا کہ فرقہ وارانہ جماعت وہ ہوتی ہے جو اپنے علاوہ کسی دوسرے کو تسلیم نہ کرے اور اپنے علاوہ کسی دوسرے کے حق میں کبھی آواز نہ اٹھائے۔ بدلتے ہوئے حالات اور پیش آنے والے واقعات اپنا رنگ دکھاتے رہیں گے، لیکن قائد شہید کے پیروکار شہید کے مشن کا علم بلند رکھتے ہوئے شیعہ حقوق کا دفاع کریں گے اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد بھی جاری رکھیں گے، کیونکہ پاکستان میں مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ قتل و غارت شروع کروانے والوں کا مقصد ہی یہی ہے کہ پاکستانی مسلمان یک جان ہوکر مقدس سرزمین سے عالمی طاقتوں کو چیلنج نہ کرسکیں۔ اسی امر کی جانب متوجہ کرتے ہوئے شہید حسینی نے فرمایا کہ جہاں فرقہ واریت ہو، وہاں امریکہ کا ہاتھ ہوگا اور جہاں قومیت کی بنیاد پر تفرقہ ہو وہاں روس ہوگا۔

بھکر کے فسادات کے بعد ایم ڈبلیو ایم کے کارکنان اور قائدین کو جس طرح گرفتار کیا گیا، یہ اسی سازش کا تسلسل ہے کہ پاکستانی میڈیا اور معاشرے میں شیعہ نمائندہ سیاسی جماعتوں کو فرقہ وارانہ گروہوں کی طرح پیش کیا جائے۔ مملکت پاکستان کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شیعہ نمائندہ سیاسی جماعتیں نچلی سطح پر عوام میں مقبولیت بڑھانے والے اقدامات کے ساتھ عام لوگوں کی شعوری سطح بلند کرنے کے لیے تبلیغاتی و تربیتی عمل کو منظم طریقے سے جاری کریں۔ ورنہ منشور اور وژن کے لحاظ سے جماعت کی قیادت جو نعرے پیش کرے گی، لازمی نہیں ہے مقامی کارکنان ہنگامی حالات میں جماعت کے بیان کردہ دینی معیارات کو ملحوظ رکھ سکیں۔ ایسے اقدامات، دشمن طاقتوں کی سازشوں کو ناکام بنانے اور نصرت الہیٰ کو شامل حال رکھنے کی لازمی شرط ہیں۔
خبر کا کوڈ : 299321
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

محترم یہ جنگ فرقوں کی جنگ نہیں، لگتا ہے آپ کو عالمی حالات کا زیادہ پتہ نہیں، یہ اب حق اور باطل کی جنگ ہے اور مجلس وحدت کے پاس بہت اچھے اور باشعور لوگ ہیں، آپ کی تنقید بلاوجہ ہے۔
شیعہ فرقے کا نام نہیں، شیعہ اسلام کی اصل شکل کا نام ہے، بردار شیعت کی اصل شکل لوگوں کو بتائیں اور شیعت کو فرقہ نہ بنائیں۔ شکری
ہماری پیشکش