0
Thursday 13 Feb 2014 23:52

تحریک طالبان پاکستان، مذاکرات، نفاذ شریعت اور متعلقہ سوالات و اعتراضات کا ایک جائزہ

تحریک طالبان پاکستان، مذاکرات، نفاذ شریعت اور متعلقہ سوالات و  اعتراضات کا  ایک جائزہ
تحریر: محمد حسین
(محبی بلتستانی)

یہ  مسلمانوں کا بہت بڑا المیہ ہے کہ آج طالبان جیسا پیشہ ور دہشت گرد گروہ اسلام اور مسلمانوں کی ترجمانی کرنے پہ آئے اور ریاست کی غیر نواز پالیسی اور جمہور مسلمان علماء کی عدم بصیرت اور خاموشی کی بدولت طالبان اسلام کی ترجمانی کرتے ہوئے پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے  سیاہ نعرے کے اندر اپنے گھناونے جرائم چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ جمہور اہلسنت، بریلوی، سلفی، اور جمیع اہل تشیع، حتیٰ کہ پاکستان میں موجود مسلک دیوبند جو آبادی میں ۱۵ فیصد ہے اور طالبان کا تعلق بھی اسی مسلک سے ہے، کے جید علماء، دانشور اور مفتی حضرات بھی طالبان کی تشریح کردہ شریعت سے اتفاق نہیں کرتے۔

اسلام کبھی طاقت کے زور پر نہیں لاگو کیا جا سکتا بلکہ تزکیہ نفس، تقوٰی اور تمام اخلاقی اقدار کی شخصی اور آزادانہ پاسداری کے ذریعے تعمیر ذات سے تعمیر معاشرہ پھر جب پورا معاشرہ فکری اور عملی طور پر تیار ہونے کے بعد پورے معاشرہ میں اس کا نفاذ کیا جائے گا جبکہ طالبان کا طریقہ عبادتگاہوں، آبادیوں اور قومی تنصیبات کو معصوم شہریوں کے خون سے نہلا کر ایسا من مانا اسلام طاقت کے زور پر نافذ کرنا ہے جس پر اہل اسلام کے ایک فیصد علماء و دانشور بھی متفق نہیں۔ اس کے نام نہاد نفاذ کے لیے وہ اب تک ستر ہزار معصوم شہریوں کو مساجد، عبادت گاہوں، مذہبی جلسہ جلوسوں، نماز جنازہ کی صفوں، سکولوں، ہسپتالوں اور دیگر عوامی مقامات پر موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔

طالبان کے مظالم کا مختصر جائزہ
طالبان  اپنے  فرسودہ افکار، خودکش بمبار اور مالِ اغیار کے بل بوتے پر گذشہ ایک دہائی سے  پاکستان میں  بےگناہ شہریوں کے خون کی ندیاں بہا رہے ہیں۔ طالبان کی شریعت میں عبادت گزاروں، نمازیوں، بسوں میں سفر کرنے والے نہتے بچوں، خواتین اور نہتے لوگوں، ہسپتال کے بستروں پر پڑے ہوئے زخمیوں اور مریضوں، ہوٹلوں میں کھانا کھانے والوں، سکول جانے والے طلبہ و طالبات، وکلاء، ججوں، اساتذہ، تاجروں، علما، دانشوروں، شاعروں، ادیبوں، فنکاروں، صحافیوں اور ہر اس انسان کو انتہائی بے دردی سے ذبح کرنا، قتل کرنا، آگ میں جھلسا دینا، گولیوں سے چھلنی کرنا، بموں سے پارہ پارہ کرنا، انسانی جسم کو ٹکرے ٹکرے کر کے ہوا میں بکھیر دینا، انسانی سروں کو تن سے جدا کر کے ان سے فٹ بال کھیلنا عمدہ، واجب اور نہایت مستحسن فرائض شرعی میں سے ہیں اور اسی شریعت کے نفاذ کے لیے انہوں اب تک ہزاروں  نہتے پاکستانیوں کو خون میں نہلا دیا ہے۔ اس شریعت کے نفاذ کے لیے طالبان نے درجنوں مساجد،  درجنوں مزارات، درجنوں امام بارگاہوں، کئی گرجا گھروں اور مندروں کو نشانہ بنایا ہے۔ طالبانی شریعت میں ڈرون حملوں میں مرنے والوں کا قصاص پاکستان کے شیعہ، بریلوی، مسیحی، احمدی، سکھ اور ہندو کمیٹی کے نہتے عوام سے لیا جاتا ہے. طالبان کی شریعت میں ہر اس کو قتل کیا جاتا ہے جو کسی بھی لحاظ سے اُن سے اختلاف رائے رکھتا ہو چاہے وہ دیوبندی ہی کیوں نہ ہو۔ واضح رہے فقہی اختلافات کے باوجودہ یہ مسلمہ امر ہے کہ اسلامی شریعت میں جنگ کی صورت حال میں بھی غیر متحارب افراد، زخمیوں، عورتوں، بچوں معذوروں پر حملہ نہیں کیا جا سکتا، عبادت گاہوں (چاہے غیر مسلموں کی کیوں نہ ہو)، فصلوں، جانوروں اور نہروں جیسے انسانی زندگی کی تمام ضروریات و وسائل پر حملہ نہیں کیا جا سکتا۔

طالبان کے خلاف آپریشن کی مخالفت کیوں؟
قسطوں میں مرتے مرتے پاکستان اپنے ستر ہزار معصوم شہری گنوا چکا ہے اور اربوں ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آرمی آپریشن کیا جائے اور تھوک کے حساب سے کئی ہزار شہری مروائیں ان کے خون سے دہشت گردی کی بھڑکتی ہوئی آگ کو ہمیشہ کے بھجا دے۔ روز روز کے لہو دینے سے پاکستان کی عوام اس سودا بازی کے لیے تیار ہے لیکن ابھی ایک بہت بڑا طبقہ طالبان کے خلاف آپریشن کی بجائے ان سے مذاکرات کرنے کے حق میں ہے۔

طالبان کے خلاف آپریشن کی مخالفت صرف وہی لوگ کر رہے ہیں جن کو عبادت گاہ، سکول، آفس، مارکیٹ یا گھر میں نشانہ نہیں بناتے۔ جن کا شناختی کارڈ دیکھ کر ان کے جوان بیٹوں  کو طالبان گولیوں سے چھلنی نہیں کرتے، جن کے جسموں کے اعضاء کو طالبان خون اور آگ میں نہیں بکھیرتے، جن کے مفادات طالبان کی بدولت محفوظ ہیں۔ جن کی خواتین کے سروں پر سہارا موجود ہے۔ جن کو عبادت کے وقت، سفر کرتے ہوئے، سکول جاتے ہوئے، دفتر جاتے ہوئے، گھر لوٹتے ہوئے، نماز جنازہ پڑھتے ہوئے، مذہبی رسومات ادا کرتے ہوئے، ہسپتالوں میں مریضوں اور زخمی افراد کی تیماداری کرتے ہوئے طالبان یا اس کی ہمنوا مسلح تنظیموں کی جانب سے کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا۔ جن کو ماووں کو اُن کے جوان بیٹوں کی لاشیں تحفے میں نہیں ملتی، جن کے سہاگ نہیں اجڑتے، جن کے بچے، بڑے، خواتین، مائیں، بہنیں، بھائی، والدین اور عزیز و اقارب یتیم ہونے، گھر اجڑنے، سہاگ اجڑنے، ضعیف العمری میں جواں بیٹوں کی لاش  اٹھانے جیسے مصائب کا سامنا کرنا نہیں پڑتا، جن کو بسوں سے اتار کو بے دردری سے تڑپا تڑپا کر نہیں مارا جاتا، جن کا کوئی عزیز رشتہ دار فوج، پولیس میں وطن کی حفاظت کرتے ہوئے طالبان کے ہاتھوں نہیں مارا جاتا۔ جن کو طالبان کے ہاتھوں شہید ہونے والے ستر ہزار پاکستانی سکیورٹی اہلکار اور عوام نظر نہیں آتے، جن کو قومی تنصیات پر حملے نظر نہیں آتے۔ جن کو ملک میں امن و امان  کی بگڑی ہوئی صورتحال سے کوئی ذاتی دلچسپی نہیں۔

طالبان سے مذاکرات اسلامی شریعت، اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ کیونکہ؟

1. اسلامی شریعت کے مطابق کسی ایک بےگناہ انسان کے قتل کی سزا قصاص ہے جبکہ طالبان صرف ایک انسان کے قاتل نہیں بلکہ وہ ستر ہزار بےگناہ پاکستانی شہریوں کے قاتل ہیں۔

2. طالبان سینکڑوں مساجد، امام بارگاہوں، مزارات، گرجا گھروں، مندروں، سکولوں، ہسپتالوں اور بازاروں کو تباہ کر کے ملک میں خوف و ہراس پھیلا کر لوگوں کی زندگی سے امن، سکون، خوشحالی چھیننے والے خونخوار درندے ہیں۔ طالبان قرآن مجید کی روشنی مفسد فی الارض شمار ہوتے ہیں اور انہیں عبرت ناک سزا دینے کا حکم دیتا ہے۔ ہزاروں بےگناہ لوگوں کے قاتل سے مذاکرات اسلامی شریعت اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔

3. خلیفۃ المسلمین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکم سے ریاست کو زکوٰۃ نہ دینے والے ہزاروں صحابہ کرام اور مسلمانوں کو اس جرم میں قتل کیا جا سکتا ہے تو طالبان کو فساد اور اجتماعی قتل و غارت کے جرم کے باوجود انہیں تحفظ فراہم کرنے کا کوئی شرعی جواز نہیں۔

4. امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ خوارج کو لاحکم الا للہ کہنے پر ان کے اس نعرے کو کلمۃ الحق یراد بہ الباطل کہہ کر ان کے ساتھ جہاد کرکے ان کا قلع قمع کر سکتے ہیں تو طالبان کے نفاذ شریعت کا نعرہ بھی کلمۃ الحق یراد بہ الباطل (درست نعرے جس سے مقصد باطل ہو) کے زمرے میں آتا ہے۔ اقتدار میں شراکت کے سوا نفاذ شریعت سے کیا مراد ہے؟ اس دھوکہ باز نعرے اور مذاکرات کے پیچھے طالبان کے ہزاروں جرائم کی پردہ پوشی کی کوئی قانونی جواز نہیں۔

5. آئین پاکستان ریاست کو کسی کالعدم اور ریاست کے ہزاروں شہریوں کے قاتل، ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کو ذبح کرنے والے، ان کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والے، ریاست سے برسرپیکار، قومی تنصیبات اور املاک کو کھربوں روپے کے نقصانات کے ذمہ دار تخریب کار گروہ سے مذاکرت کرنے اور ان کو ماورائے عداالت تحفظ فراہم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا ہے۔

6. اسلامی شریعت اور آئین پاکستان دونوں طالبان کے جرائم کو مذاکرات کے سیاہ پردے میں چھپانے اور ہزاروں بےگناہ شہریوں کے خون کو ورثاء کی اجازت کے بغیر ماورائے عدالت معاف کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

7. مذاکرات کے دوران بھی طالبان اپنی اجتماعی قتل و غارت جیسے جرائم رکھے ہوئے ہیں۔ اس اہم مرحلے میں بھی ان جرائم کو دیکھتے ہوئے ان سے مذاکرات کا کوئی قانونی، شرعی اور آئینی جواز باقی نہیں رہتا۔

8. اب بتائیں کیا ان سے مذاکرات اسلامی شریعت کے منافی اور آئین پاکستان سے غداری نہیں؟

9. آپ خونخوار طالبان کے تشریح کردہ معصوم لوگوں کو خون سے نہلانے والے جہاد، ظلم و بربریت اور قتل و غارت کے خوفناک اسلام کے حق میں ہیں؟

10. کیا ارحم الراحمین، رب العالمین کے بھیجے ہوئے، رحمت للعالمین کے لائے ہوئے حیات بخش، عالمگیر، انسان دوست اسلام کے نزدیک ایک بےگناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل شمار  نہیں ہوتا ؟

طالبان کے حمایتی طبقوں کی جانب سے عام طور پر  ان سوالات کا جواب مجموعی طور پر یوں  دیا جا رہا ہے کہ؛


1) پاکستان میں دھماکے کرنے والے طالبان  نہیں۔

2) طالبان صرف سکیورٹی اہلکار یعنی پاک فوج اور پولیس پر حملے کرتے ہیں کیونکہ وہ امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

3) طالبان  صرف شیعوں پر حملہ کرتے ہیں کیونکہ وہ صحابہ کرام کو گالی دیتے ہیں۔

4) طالبان تو پاکستان میں نفاذ شریعت  جیسے اہم اور مقدس جہاد کے لیے سرگرم ہے۔

5) یہ ایک فرقہ وارانہ جنگ ہے جسے ایران اور سعودی عرب ہوا دے رہے ہیں؛

ان جوابات پر پھر  یہ سوالات  اٹھتے ہیں۔ ان کے جوابات مطلوب ہیں۔

1) اگر پاکستان میں حملے طالبان نہیں کرتے تو پھر ریاست  کو طالبان سے ہی  مذاکرات کیوں کرنے پڑے؟

2) اگر طالبان صرف سکیورٹی اہلکار یعنی پاک فوج اور پولیس پر حملے کرتے ہیں، پھر وہ بتائیں کہ مساجد، عبادت گاہوں، امام بارگاہوں اور عوامی مقامات پر حملے کر کے فخریہ اعلانات کیوں کر رہے ہیں اور یہ بھی بتائیں کہ پاک فوج اور پولیس پر حملے کرنے کے لیے ان کے پاس کیا شرعی و قانونی جواز ہے جو جمہور اہلسنت (بریلوی، دیوبندی اور سلفی علماء کے پاس نہیں)؟

3) اگر طالبان  شیعوں پر حملہ کرتے ہیں کیونکہ وہ صحابہ کرام کو گالی دیتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ شیعہ علماء، فقہا اور مجتہدین ازواج النبی اور صحابہ کرام کے خلاف کسی بھی توہین آمیز حرکت کو حرام سمجھتے ہیں، ثانیا یہ بتائیں، اگر کسی ایک فرد نے یہ جرم کیا ہے تو اس جرم کی سزا پوری کمیونٹی کو واجب القتل قرار دینے کے لیے طالبان اور اس کی ہمنوا مسلح تنظیموں کے پاس کونسا شرعی، آئینی اور قانونی جواز و اختیار ہے؟

4) اگر طالبان شریعت کے نفاذ کے لیے جہاد میں سرگرم ہیں تو   مجھے بتائیں شریعت کی کونسی تشریع و تعبیر کا نفاذ ہو گا؟ کیا علماء اسلام کسی ایک شریعت پر متفق ہیں؟ اور نفاذ شریعت سے مراد اقتدار میں طالبان کو حصہ دار بنایا جانے کے سوا کیا ہے؟ نفاذ شریعت کے لیے اگر طالبان کا راستہ درست ہے تو پھر مختلف اسلامی مکاتب فکر (بریلوی، دیوبندی، سلفی، شیعہ) سے وابستہ پاکستان میں موجود ہزاروں مفتیان کرام، علماء عظام اور مسلمان کیوں ان سے اختلاف کر رہے ہیں؟ وہ بھی اسلحے، بارود اور خودکش بمباروں کی مدد سے یہ مقدس جہاد شروع کریں۔

5) اگر یہ جنگ سعودی عرب اور ایران کے درمیان پاکستان میں لڑی جا رہی ہے تو جواباً عرض ہے کہ پاکستان کے مسلمانوں کو اتنا شعور ہونا چاہیئے کہ اُسے پتہ چلے کہ وہ اپنے لیے جی رہے ہیں یا غیروں کے لیے، اگر کوئی بھی گروہ یا تنظیم کسی اور ملک کی ایماء پر پاکستان میں انسانوں کو خون کے دریا میں نہلا رہے ہیں تو ہم بلاتخصیص اس کی مذمت کرتے ہیں اور ہر غیر نواز اور نمک خوار گروہوں سے بیزاری کرتے ہیں۔  نیز یہ فرقہ وارانہ جنگ ہے تو پھر  صرف ایک طرف کے لوگ  مسلسل نہ مرتے۔  اس کے علاوہ دنیا پر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کون شدت پسند تنظیموں کو فنڈز دیتا ہے اور کون اس کی سرپرستی کرتا ہے۔
پاکستان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس کے لئے اپنے شہریوں  اور تنصیبات کا تحفظ اہم ہے یا طالبان کا تحفظ۔۔ یہ دونوں کام اکھٹے نہیں ہو سکتے یا طالبان کو ریاست کا اہم سرمایہ بنا کر عوام کے سستے خون سے کھیلنے کی کھلی چھٹی دے یا ہزاروں شہریوں کے خون اور اہم قومی تنصیبات پر حملہ کرنے والے غیر ریاستی عناصر ٹی ٹی پی اور اس کی  ہمنوا تنظیموں کے وجود کو ختم کر کے اٹھارہ کروڑ عوام کو چین سے  جینے کا موقع دے۔ ان میں سے ایک ہی کام ہو سکتا ہے، فیصلہ ریاست اور عوام کا۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 350987
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش