0
Friday 22 Aug 2014 22:09

اگر ہندوستان کے مسلمانوں میں وحدت ہوتی تو 50 فیصد پارلیمنٹ کے ممبر مسلمان ہوتے، مولانا اخضر حسین

اگر ہندوستان کے مسلمانوں میں وحدت ہوتی تو 50 فیصد پارلیمنٹ کے ممبر مسلمان ہوتے، مولانا اخضر حسین
مولانا اخضر حسین کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سرینگر سے ہے، آپ 36 سال سے جموں و کشمیر میں دینی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں، 1985ء میں آپ نے کشمیر یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کی، مولانا اخضر حسین جموں و کشمیر مسلم وقف بورڈ میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں، 1994ء میں جب کشمیر بھر میں حالت کشیدہ ہوئے تو آپ درگاہ حضرت بل کے امام جمعہ و جماعت منتخب ہوئے جو کشمیر کی سب سے بڑے و قدیمی درگاہ ہے اسکے بعد درگاہ کیلاشپورہ میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، مولانا اخضر حسین انجمن علماء احناف کے سربراہ بھی ہیں جو سابقہ سات سال سے منشیات اور دیگر بدعات کے حوالے سے جموں و کشمیر کا فعال ترین ادارہ ہے، آپ اسٹیٹ حج کمیٹی کے اہم ممبر بھی ہیں، آپ حنفی مسلک، صوفی مشرب کی آبیاری اور خاص کر جو سماج میں بے راہ روی موجود ہے اسکے خلاف مہم میں آپ کمر بستہ ہیں، ایک ملاقات کے دوران اسلام ٹائمز نے مولانا اخضر حسین سے خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: جموں و کشمیر میں منشیات کے خلاف آپ کی مہم سالہا سال سے جاری ہے، اس جد و جہد میں جو عناصر آپ کی راہ میں رکاوٹ ہیں جو چاہتے ہیں کہ یہاں ایسے خرفات کا خاتمہ نہ ہو۔؟
مولانا اخضر حسین: مختصر طور پر بتاؤ کہ جن لوگوں میں نفسیات ہو وہ دینداری کو ترویج پاتا نہیں دیکھ سکتے ہیں، جو نفس کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہوں وہ منشیات کے خلاف ہماری اس مہم کو کہاں تعاون دیں گے، صرف دیندار لوگ ہی اس مہم کا حصہ بن سکتے ہیں، کشمیر بھر میں جو مسلمان کے درمیان آپسی اخوت، بھائی چارگی اور ملی روابط و پاک معاشرہ جو یہاں تھا وہ برقرار رہے اس کے لئے کافی کام کرنے کی ضرورت ہے، ہماری بھی کمزوری ہے، علماء کرام کو بھی بری الذمہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور حکومت کی بھی غفلت ہے، یہاں پر کام ہوسکتا تھا اگر حکام چاہتے اور اگر وہ خود غرض اور مفاد پرست نہیں ہوتے، یہاں بے روزگاری عام ہے، منشیات عام ہے، بے راہ روی کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت سارے مسائل ہیں جن کا حل سرکار اگر چاہے تو ممکن ہے، منشیات کی اگر آپ بات کریں تو جو بھی جموں و کشمیر کے بڑے لوگ، رئیس لوگ اور منسٹروں اور نیتاؤں کے بیٹے ہیں وہ اس وباء کے شکار ہیں، یہاں اس دور میں بھی کشیری عام لوگ بھوکے زندگی بسر کر رہے ہیں، ابھی تک حکومت نے کیا کیا ہے ایک عام سوال ہے، میں نے شراب اور دیگر منشیات کے خلاف مہم چھیڑی تو پتا چلا کہ اس میں یہاں کے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی ملوث ہیں، میں نے اسکے خلاف جنگ چھیڑی تو علماء کرام کو دعوت دی وہ نہیں آئے سوائے کچھ علماء کے، میں سلام پیش کرتا ہوں میرواعظ عمر فاروق کو جنہوں نے میری اس تحریک کو بہت تعاون دیا، ہم اس سلسلے میں کوشش ہرحال میں جاری رہے گی، اور اس مسئلہ پر سیاست نہیں کرنے دیں گے۔

میں کشمیر عزیز کا ایک فرد ہوں اس مسئلہ کو اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہوں، یہاں کی اکثریت چاہتی ہے کہ بے راہ روی کا یہاں پر خاتمہ ہوجائے، اولیاء کرام کی سرزمین ان خرافات اور بدعات سے پاک رہے، کوششیں جاری ہیں اللہ ہمارا معاون ہے، بس رسم شبیری ادا کرنے کی ضرورت ہے، خانقاہوں میں بیٹھنے سے مسائل حل نہیں ہوتے، خانقاہوں کو چھوڑ کر میدان عمل میں آنا ہی رسم شبیری ہے۔ افسوس ہے کہ بعض لوگ شراب اور منشیات و بے راہ روی کو بھی اپنے ووٹ بنک کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں جو بیرون ممالک سے سیاح آتے ہیں وہ یہاں کی تہذیب و تمدن سے متاثر ہونے چاہیے الٹا یہ ہوتا ہے کہ انکو دیکھ کر ہماری خواتین پردہ کرنا ترک کردیتی ہیں، علماء کرام کا اس حوالے سے اہم رول بنتا ہے، بھارت یا کسی اور ملک سے آئے ہوئے سیاحوں کو یہاں سے ایک تربیت اور اسلامی تعلیمات ملنی چاہیے، یہاں کا طریقہ اور تہذیب و تمدن سے وہ بہرہ مند ہونے چاہیے، انہیں یہاں کے لوگوں سے ایک سبق ملنا چاہیے اگرچہ اسکے برعکس ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر مسلمانوں کو اس جانب راغب کیا جارہا ہے کہ عیسائی مشینری مسلمانوں کو لالچ دے کر اپنی جانب مائل کرے۔؟

مولانا اخضر حسین: دیکھیے جب یہاں ارتداد کا معاملہ سامنے آیا تو اس وقت یہاں صرف 200 عیسائی تھے اور اب 3 ہزار سے تجاوز کرچکے ہیں، اور مسلمان بری طرح اس مسئلے کے شکار ہورہے ہیں، مسلمانوں کو پیسے اور شراب و دیگر منشیات دستیاب دے کر اپنے دین سے منحرف کیا جارہا ہے، اس پر بھی ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے اور مسلم ممالک کو بھی کشمیر کی جانب توجہ مبذول کرنے ہوگی، اگر اسلامی مملاک خاص کر سعودی عرب پیسے دے رہا ہے تو کس کام کے لئے دے رہا ہے، ان اہم امور کے لئے تو پیسہ نہیں خرچا جارہا ہے، ہم گھر گھر بھکاری کی طرح جاتے ہیں اور لوگوں سے پیسہ مانگتے ہیں اگر ہمارے پاس وسائل ہوتے تو صحیح طریقے سے کام کیا جاسکتا تھا، ہمیں ہر سال امام اعظم کانفرنس کرنی ہوتی ہے ہمارے پاس وسائل ہوتے تو بخوبی دینی امور انجام پاتے، ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، ہاں اگر سعودی عرب یا دیگر ممالک پیسہ دے رہے ہیں تو غلط جگہوں پر غلط افراد کے ہاتھوں اور غلط مقاصد کے لئے وہ رقم استعمال ہوتی ہے، انہیں دیکھنا چاہیے کہ یہاں کیا ہورہا ہے، ہم 2001ء سے یہاں دینی تحریک چلا رہے ہیں آج تک کس اسلامی ملک نے ہمارا ساتھ دیا ہمیں تعاون دیا، افسوس ہے کہ حق کا کوئی ساتھ دینے والا نہیں، ہم کوئی مہم چھیڑتے ہیں تو ہم پر طرح طرح کی صعوبتیں روا رکھی جاتی ہیں ہمیں قید و بند کی مشکتوں سے گذارا جاتا ہے، غرض کی جو پیسہ عالم اسلام سے آتا ہے وہ صحیح سمت میں استعمال نہیں ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ان تمام مسائل کے حل کے لئے مسلمانوں کے پاس ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہو جہاں سے مسائل کی نشاندہی ہونے کے بعد ان کے حل کے بارے میں مثبت اپروچ اختیار کیا جاتا۔؟
مولانا اخضر حسین: اگر ہم متحد ہوتے تو دنیا کی کون سی طاقت مسلمانوں پر مسلط ہوتی، آپ کے سامنے مسلمانوں کی مثال ہے یہاں کتنے مسلمان رہ رہے ہیں، صرف کچھ ہی پارلیمنٹ ممبر ہی مسلمان ہیں باقی سب کے سب ہندو ہیں، مسلمان اقلیت میں آگئے، ہمارے دہلی کے شاہی امام بی جے پی کی حمایت کرتے ہیں تو دوسرے دن کانگریس کی حمایت کرتے ہیں، نفسیات حاوی ہے اگر ہندوستان کے مسلمانوں میں وحدت ہوتی تو 50 فیصد پارلیمنٹ کے ممبر مسلمان ہوتے، میں آپ کے ذریعہ عالم اسلام سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ انہیں معلوم ہونا چاہیے یہاں کتنے یتیم ہیں، کتنے شہداء کے گھر بے آسرا و بے مدد ہیں، کسی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں یہ عظیم امت خود انتشار کے شکار ہیں۔؟

مولانا اخضر حسین: ہم پر شیطان حاوی ہوچکا ہے اگر ہم اللہ کے نیک بندے ہوتے اور نفسیات ہم پر غالب نہ آئی ہوتی تو اس مصیبت کے شکار ہم نہ ہوئے ہوتے، آپ نے دیکھا کہ فلسطین میں کیا ہوا، غزہ کے مظلومین کن حالات سے دوچار ہیں، قبلہ اول پر قبضہ کن لوگوں کا ہے، مسلمانوں پر عالمی سطح پر مصیبت، قتل و غارت جاری ہے، کون اسلامی ملک اس کی بات کررہا ہے، کون حق کا ساتھ دے رہا ہے، کون مظلومین کے ساتھ ہے، اقوام متحدہ اور دیگر نام نہاد انسانی حقوق کے ادارے بھی امریکہ کی لونڈیاں ثابت ہورہے ہیں، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ کے پاس جو بشری حقوق کے تحفظ کا دستور ہے وہ جمعۃ الوداع کے موقعہ پر ہمارے پیغمبر اسلام نے جاری کیا تھا، کاش ہمارے پیارے نبی (ص) کی تعلیمات پر اقوام متحدہ چلتا تو دنیا میں کوئی بھی انسان بھوکا نہیں رہتا لیکن آج اسکے برعکس اقوام متحدہ یہودیوں کی لونڈی بنا ہوا ہے، کوئی نہیں ہے جو عالمی سطح پر مسلمانوں کے حقوق کی بات کرے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر کے حوالے سے آپ کا موقف اور بی جے پی کے دفعہ 370 کی منسوخی کے بارے میں آپ کے خیالات کیا ہیں۔؟

مولانا اخضر حسین: کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے، کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے ہمیں تمام مسائل میں بحیثیت فریق شامل کرنا ہوگا، برصغیر میں تب ہی امن و امان قائم ہوسکتا ہے جب کشمیر کا مسئلہ حل کیا جائے گا، نریندر مودی کی حکومت آئی ہی نہیں کہ مسلمانوں پر مظالم جاری رکھے گئے ہیں، ابھی جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ 370 ختم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، کیوں ایسے مسائل چھیڑے جارہے ہیں، دفعہ 370 کشمیر کی پہچان ہے اگر اس دفعہ کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کی گئی تو کشمیر خود بہ خود بھارت سے الگ ہوگا اور یہاں حالات پھر سے کشیدہ ہوجائیں گے، یہ دفعہ پل کی حیثیت رکھتا ہے کشمیر اور بھارت کے درمیان، اس کو ختم کرنے میں ہم یہاں کے مقامی سیاست دانوں کو بھی بھری الذمہ نہیں کرتے وہ بھی برابر کے شریک ہیں اس خصوصی دفعہ کو ختم کرنے میں۔

ہندوستان کی ایسی سیاست میں مسلمانوں کو ہوش میں رہنا چاہیے کل تک نئی دہلی کے شاہی امام کانگریس کی حمایت کرتے ہیں تو اب بی جے پی کے ساتھ ہوگئے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے، مسلمانوں کا اپنا ایک موقف ہونا چاہیے، بی جے پی کی حکومت مسلمانوں کے لئے اس قدر نقصاندہ ثابت نہیں ہوگی جتنی مضر کانگریس پارٹی، بی جے پی اب مسلمانوں کے ساتھ صحیح برتاؤ کریں گے، کانگریس پارٹی نے اپنے ووٹ بنک کے لئے ہمارے جوان بیٹے افضل گورو کو پھانسی پر لٹکایا، کانگریس نے مسلمانوں پر حد سے زیادہ ظلم کیا ہے، اور جتنا ظلم کشمیر میں کانگریس کی حکومت میں ہوا اتنا کبھی نہیں ہوا، ہمارے لیڈران کو بس ایک موقف پر اٹل رہنا چاہیے انہیں آج یہاں اور کل وہاں نہیں جانا چاہیے، ہم بے راہ روی کے خلاف ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، ہم منشیات کے خلاف برسر پیکار ہیں اور کھلے عالم اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، ہمارا موقف واضح اور صاف ہونا چاہیے۔ اگر ہم ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوتے ہیں اور مسلکی اختلافات کو ایک طرف کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے، ہمارے اکثر مسائل اور بہت ساری رائج بدعات کا خاتمہ ہمارا مشترکہ مسئلہ ہے، ہمیں تمام مسائل کے حل کے لئے اکھٹا آگے بڑھنا ہوگا، اسلام ایک انسان کی اصلاح چاہتا ہے چاہے وہ جس مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اسلام انسانیت کی فلاح و بہبود کا نام ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارتی مسلمانوں کا ایک مشترکہ لائحہ عمل اور ایک پلیٹ فارم کی ضرورت۔؟

مولانا اخضر حسین: مجھے لتگا ہے کہ اگر ہندوستان کے مسلمان نفس پرستی کو ترک کریں اور تمام جزوی اختلافات کو بالائے طاق رکھیں، نفس کے ساتھ ہمیں سب سے پہلے جنگ کرنی ہوگی، نفس کے ساتھ جہاد کو جہاد اکبر کہا گیا ہے اگر ہندوستان کے مسلمان بھی نفس پرستی کو ترک کریں اور مسلم رہنما نفس کے چنگل سے آزاد ہوجائیں تو تمام مسلمان بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والے ان کے قدم چومنے لگیں گے، ابو الکلام آزاد مسلمان تھے وہ مفسر قرآن تھے، سید سید محمد خان، الطاف حسین حالی مسلمان ہی تھے، شیخ سعدی شیرزای کا ہندوستان میں اچھا خاصہ اثر و رثوق تھا، وہ بلند مرتبت تھے اور اعلیٰ تھے، اب بھی انہیں مختلف مذاہب کے ماننے والے افراد اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہیں، بھارت کے مسلمانوں کے رہنماوں کو انہی کے نقش قدم پر چل کر قوم کی سرپرستی کرنی چاہیے، قوم کو تقسیم کرنے کو کوششیں جاری ہیں جو ہرگز نہیں ہونا چاہیے، مسلم رہنماوں کو تمام ذاتی دکانوں کو بند کرنے کی ضرورت ہے، ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، میری خواہش ہے کہ مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں اپنے مشترکہ دشمن سے ایک ہوکر لڑیں۔
خبر کا کوڈ : 406151
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش