2
0
Saturday 4 Aug 2012 23:46

قافلہ سالار مکتب خمینی، قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی

قافلہ سالار مکتب خمینی، قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی
تحریر: ارشاد حسین ناصر
  
قافلہ سالار مکتب خمینی، قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی(رہ) نے تقریباً ساڑھے چار سال (10فروری 1984ء سے 5 اگست 1988ء) کا مختصر عرصہ ملت کی قیادت و سیادت میں گذارا ہے، مگر آج 24 برس ہونے کو آئے ہیں کہ ان کی نورانی و معنوی شخصیت کے سحر میں پوری قوم ایسے ہی گرفتار دکھائی دیتی ہے کہ جیسے آج ہی وہ ہم سے جدا ہوئے ہوں، اور کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں موجود ہوں اور راہنمائی فرما رہے ہوں، جیسے کوئی نظروں سے اوجھل ہو اور اسکی موجودگی کا احساس بھی رکھتے ہوں ۔۔۔۔! 

یہ 25 نومبر 1946ء کی ایک سہانی فجر تھی جب آپ نے کرم ایجنسی کے ایک نجیب اور بلند مقام سادات حسینی کے فرد سید فضل حسین شاہ کے گھر میں آنکھ کھولی تھی، پیواڑ کے پرائمری اسکول سے تعلیمی سلسلہ کا آغاز کرنے والے سید عارف نے بعد ازاں اعلٰی تعلیم کے حصول کیلئے نجف و قم کی فضاؤں میں پرواز کی اور علم و عرفان کی منازل طے کیں۔ آپ بچپن سے ہی بے حد دیندار، متقی اور پرہیزگار تھے اور یہ سب تو جیسے آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ آپ نے پہلی بار 1967ء میں نجف کا سفر کیا، تاکہ اعلٰی علمی مدارج کو طے کر سکیں۔ 

یہ وہ دور تھا جب عراق میں آقائے محسن الحکیم مجتھد اعلٰی تھے، وہ شروع سے ہی ملکوتی صفات کے مالک تھے، جن کی کرنیں صاحبان نظر کو محسوس ہو جاتی تھیں۔ آپ کے اساتذہ بھی آپ میں عرفانی و معنوی صفات دیکھ لیتے تھے۔ جب حضرت امام خمینی (رہ) ایران سے جلا وطن ہو کر نجف پہنچے تو آپ ان کی محفل کے شریک بن گئے اور ہمیشہ نماز ان کی اقتداء میں ادا کرنے کی سعی کرتے۔ یہ تعلق اتنا گہرا ہوا کہ عشق خمینی (رہ) میں تبدیل ہو گیا، اسی عشق نے آپ کو بعد میں قومی حقوق کے نگہبان اور استعمار دشمن قائدین کی صف میں لا کھڑا کیا۔

10 جولائی 1984ء کے دن آپ کو بھکر میں قائد ملت چنا گیا۔ ساڑھے چار سال کے بعد 5 اگست 1988ء کی دم فجر جمعہ کے دن پشاور میں قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کو ہم سے چھین لیا گیا، آج ان کو ہم سے جدا ہوئے 24 برس ہوجائیں گے۔ ہم ہر سال ان کے ایام شہادت اَلم و غم اور اس جذبہ و احساس کے ساتھ مناتے ہیں کہ ان کی راہ پر چلتے ہوئے، ان کے راستہ کو اپناتے ہوئے، ان کے قدموں کے نشان پاتے ہوئے، اس ملک میں اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یہ عزم اور عہد ہم نے ہر سال 5 اگست کو شہید کی روح سے کرنا ہوتا ہے، ہم اس موقعہ پر اکثر یہ شعار بھی بلند کرتے ہیں کہ
                         حسینی تیرا راستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے ہمارا راستہ
                         شہادتوں کا راستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہے ہمارا راستہ
اور پھر اس روز جیسے جیسے ان کی جدائی کا زخم تازہ ہوتا ہے تو یہ ترانہ ہمارے لبوں پر بے ساختہ آجاتا ہے 
                             ہم غمزدوں کے عارف حسینی (رہ) سلام ہو
                             تم پہ میرے وطن کے خمینی (رہ) سلام ہو
اگر دیکھا جائے تو 24 برس کم نہیں ہوتے، کسی کو بھول جانے کیلئے، کسی کا غم کافور ہو جانے کیلئے، کسی کے سحر سے باہر آنے کیلئے، اس لئے کہ ایک شخصیت کے چلے جانے کے بعد جب کوئی دوسری شخصیت مل جائے تو فطری طور پر نئی نسل کا عشق و محبت نئی قیادت کے ساتھ زیادہ ہوتا ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جن دوستوں، برادران، خواہران، دختران حتٰی کہ قیادت کی صف میں شامل آج کے نوجوان علماء، جنہوں نے شہید قائد کو شاید دیکھا بھی نہیں، انہی سے اپنی محبت و عشق کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
 
آج بھی اگر قومی کام کرنے والے برادران و خواہران سے پاکستان کی آئیڈیل شخصیت کا سوال کریں تو جواب "شہید عارف الحسینی(رہ) " ہی آتا ہے ۔۔۔۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے۔؟ شاید ایسا تو نہیں کہ ہم ان کے بعد کسی ایسی شخصیت کو سامنے نہیں لاسکے۔؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی شخصیت نے ان کی طرح ملت کی راہنمائی، قیادت و سیادت کیلئے خود کو عوام کے سامنے پیش نہیں کیا؟۔۔۔۔ اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں شہید کے افکار سے راہنمائی لے کر تجزبہ و تحلیل کرنا ہوگا ۔۔۔۔ شہید کی راہ اور راستے کو تلاش کرنا ہوگا، شہید کے پاس جانا ہوگا۔
 
شہید کی ملت کیلئے پرخلوص خدمات، جدوجہد، فکر امام (رہ) پر سختی سے عمل پیرا ہونا اور آپ کی جرات و صداقت کی داستانوں کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ ۔۔ دیکھیں شہید کیا فرماتے ہیں "بہرحال میں نے اسی دن (انتخاب قیادت) سے طے کیا تھا کہ فقہ جعفریہ کے تحفظ کیلئے جان تک قربان کر دوں گا۔ اگر آپ میں سے کوئی بھی ہمارے ساتھ تعاون نہ کرے میں اکیلا ہی اپنی جان اس ملت پر قربان کروں گا، لیکن میں نے جو وعدہ کیا ہے، کبھی اس سے پیچھے نہ ہٹوں گا۔"
 
اور شہید قائد فرماتے ہیں کہ "ہم وقار و عزت کی زندگی کو غلامی پر ہر قیمت میں ترجیح دیں گے۔" شہید جانتے تھے کہ ان جو ذمہ داری عائد کی گئی ہے وہ کیا تقاضا کرتی ہے، اسی لیے تو فرمایا "مکتب انبیاء، راحت و آرام طلبی نہیں بلکہ تکالیف و زحمات کا مسلسل مقابلہ ہے۔ لہٰذا حق کی خاطر ہمیں یہ سب برداشت کرنا پڑے گا۔" کوئی ہے جو اس احساس کے ساتھ میدان میں اترا ہو، یہاں تو ایسے جذبات و احساسات والے کو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مروا دیگا، ایجنسیاں چونک جائیں گی، دشمن بیدار ہو جائے گا اور نہ جانے کیسے کیسے بہانے تراشے جاتے ہیں، اپنی سستے، کاہلی اور نااہلی چھپانے کیلئے۔۔ 

اصل بات نظریہ کی ہوتی ہے، شہید کا نظریہ امام راحل (رہ) کا نظریہ تھا، وہ مکتب خمینی (رہ) کے پاکستان میں سالار تھے۔ انہوں نے بہت سارے لوگوں کو امام خمینی (رہ) کی تقلید کروانے اور ان کی فکر و فلسفہ اپنانے کی تاکید کرتے رہے اور اپنے نظریہ کی قاطعیت و دو ٹوک موقف کا اظہار اس طرح کرتے تھے "امام خمینی (رہ) کے ذریعہ دنیا کے تمام مسلمانوں پر حق کی حجت تمام ہو چکی ہے، میں آمادہ ہوں کہ اپنی جان و مال اور اولاد قربان کر دوں، لیکن اس بات کیلئے تیار نہیں کہ خط ولایت فقیہہ سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹوں۔"
 
شہید کی قربت میں رہنے اور ان کی زندگی کا مطالعہ کرنے والے یقیناً جانتے ہیں کہ وہ اپنے دور قیادت پر اسی دوٹوک موقف، پُر خطر راہ، جس کا احساس خود ان کو بھی تھا، اور عزت و وقار کی زندگی، نظریہ ولایت فقیہہ پر سختی سے کار بند رہے اور مکتب انبیاء یعنی تحرک، تسلسل عمل کے ذریعے زحمات، تکالیف، مشکلات، مصائب کو جھیلتے رہے، حتیٰ کہ اپنے الٰہی اہداف اور مکتب انبیاء کی پیروی میں قیمتی ترین متاع جان تک قربان کر دی۔ 

میں نے طویل تنظیمی زندگی میں آج تک اس سے بڑھ کر کسی عالم دین سے ولایت فقیہ کے نظریہ پر سخت موقف نہیں سنا، حتیٰ وہ لوگ بھی جو ولایت فقیہ کی نمائندگی کا ڈھول پیٹتے نہیں تھکتے، ان کی زبان پر اس نظریہ ولایت کا نام ہی نہیں آتا، یہ شہید کے معنوی فرزند ہیں، جو اس پر سختی سے کاربند ہیں اور اس کے پاکستان میں پرچارک ہیں، شہید کو بھی انہی سے توقعات اور امیدیں تھیں۔ 

5 اگست 1988ء جمعہ کی دم فجر آپ (رہ) اس ملت پر فدا ہوگئے۔ پشاور میں آپ کے زیر تعمیر مدرسہ میں وقت کے ابن ملجم جمیل اللہ نے آپ کو اس وقت نشانہ بنایا جب آپ مدرسہ کی بالائی منزل سے وضو کرکے نیچے اتر رہے تھے۔ آپ کے دل کے پاس ایک ہی فائر لگا، جس نے اس ملت کو یتیمی سے دوچار کر دیا اس روز امام خمینی (رہ) کی محفل کا ایک چمکتا ستارہ ڈوب گیا۔ شہید اپنا عہد نبھا گئے اور آج چوبیس برس گذر جانے کے بعد بھی ملت کے نوجوان ان کے خون اور قربانی کا قرض چکاتے ہوئے ان کی راہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ان کی یادوں کے چراغ بھی جلائے ہوئے ہیں اور ان کے راستے پر بھی چل رہے ہیں۔ 

یکم جولائی کو مینار پاکستان کے سائے تلے ان کی یاد میں قرآن و سنت کانفرنس کا تاریخی اجتماع منعقد کرکے جہاں ملکی سیاست، ملی جدوجہد، اور قومیات میں ہلچل مچا دی ہے، وہاں لاکھوں فرزندان قرآن و سنت نے شہید قائد کو پر نم آنکھوں سے خراج تحسین پیش کیا ہے اور ان کے مینار پاکستان کے سائے تلے 6 جولائی1987ء کے منشور و جدوجہد کو عملی کرنے کا عہد دہرایا ہے۔ اس کانفرنس کے بعد شہید کے حقیقی وارثان کی راہوں میں مشکلات و مسائل کے پہاڑ کھڑے کئے جائیں گے، دشمن بوکھلاگیا ہے، ایجنسیاں چکرا گئی ہیں، دوستوں کی ذمہ داریاں یقیناً پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہیں، اب سب کی استقامت کا امتحان لیا جائیگا۔
 
دوستان! یاد رکھیں کہ ۔۔۔۔ شہید حسینی (رہ) کی راہ ۔۔۔۔ مکتب انبیاء کی راہ ہے، مشکلات و مصائب کی راہ ہے، رکاوٹوں کی راہ ہے، تکالیف و زحمات اُٹھانے کی راہ ہے، نظریہ ولایت پر مر مٹنے کی راہ ہے، ملت کیلئے قربان ہونے کی راہ ہے، شعوری شہادت کے سفر پر گامزن ہونے کی راہ ہے، مقتل گاہ کی طرف بڑھنے اور پر کٹھن راستوں کو طے کرنے کی راہ ہے ۔۔۔۔ ہاں! شہید کی راہ عزت و وقار کی زندگی کو غلامی پر ترجیح دینے کی راہ ہے، حریت و آزادی کی تاریخ رقم کرنے کی راہ ہے، ایثار و قربانی کی راہ ہے، گھر بار، بچے لٹانے کی راہ ہے، ۔۔۔ اور دمِ فجر سینے پر گولی کھا کر اپنے ہی لہو میں نہا کر "ارجعی الٰی ربک" کی منزل پانے کی راہ ہے ۔۔۔۔ 

اس راہ پر چلنے کا عزم و عہد کرنا یقیناً آسان ہے، مگر عمل کیلئے خمینی (رہ) کا روحانی فرزند ہونا پڑتا ہے، اگر ایسا ہو جائے تو چوبیس برس کیا چوبیس صدیاں بھی گذر جائیں تو لوگ ان کی یادوں کے چراغ دلوں میں جلائے رکھیں گے اور آئندہ نسلیں بھی انہیں اپنا آئیڈیل بنائیں گی اور ۔۔۔۔ اگر کوئی مصنوعی طور پر قد، کاٹھ کا حامل ہو جائے، جبکہ اس کا عمل ان معیارات پر پورا نہ اتر رہا ہو تو آس پاس میں ہونے کے باوجود لوگ اس کی طر ف متوجہ بھی نہیں ہوتے ۔۔۔ شہید کے الفاظ ہمیشہ یاد رکھیںِ: مکتب انبیاء، راحت و آرام طلبی نہیں بلکہ تکالیف و زحمات کا مسلسل مقابلہ ہے، لہٰذا حق کی خاطر ہمیں یہ سب برداشت کرنا پڑے گا:۔۔ دعا ہے کہ اللہ کریم ملت کو ایسے راہنما و قائدین میسر آئیں جو شہید کی راہ کے حقیقی راہرو ہوں۔ (آمین)
خبر کا کوڈ : 184919
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
salam,
janab maktab sirf maktab e jafferia hai na k maktab e khomeni, imam khomeni ny maktab e jaferia ko particaly imposed kia hai,,,tu humaian bhi maktab jaferia ki publicity karni chaiye,,
Syed Muhammad Amin Sheraton
United Arab Emirates
Mashallah baht acha
ہماری پیشکش