0
Sunday 6 Apr 2014 22:29

افغان قوم کا اکثریتی فیصلہ

افغان قوم کا اکثریتی فیصلہ
تحریر: سید اسد عباس تقوی

جمہوریت میں لاکھ سقم سہی، تاہم اس کے تحت ہونے والے انتخابات سے حاصل ہونے والے بعض نتائج بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جس کی مثال حال ہی میں گذشتہ تین دہائیوں سے جنگ گزیدہ افغانستان میں دیکھنے میں آئی۔ افغانستان کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ یہ ملک جنگجو لوگوں کی سرزمین ہے۔ یہاں کے باسی گولی اور لاٹھی کے علاوہ کسی طور پر اپنا مافی الضمیر بیان نہیں کرسکتے۔ افغانستان کے بارے میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں کے عوام شدت پسند ہیں۔ طالبان اور القاعدہ کو اسی زمین کا ثمرہ قرار دیا جاتا ہے۔

مگر افغانستان کے حالیہ صدارتی انتخابات نے تو اس قسم کے تقریباً تمام ہی تواہمات اور خیالات کو غلط ثابت کر دیا۔ ان انتخابات کے کیا نتائج نکلتے ہیں، ملک میں کس قدر موثر اور بااختیار حکومت تشکیل پاتی ہے، اس سے قطع نظر افغانستان جیسے جنگ زدہ ملک میں جہاں ہر وقت موت کے سائے منڈلا رہے ہوں، ذرائع رسل و رسائل ناپید ہوں، عوام کی بڑی اکثریت ناخواندہ ہو، دھماکوں اور جنگی کارروائیوں کی دھمکیاں مل رہی ہوں، بارہ ملین اہل رائے دہندگان میں سے سات ملین سے زیادہ افراد کا ووٹ ڈالنا اس امر کی نشاندہی ہے کہ عام افغان شہری داخلی جنگوں، شدت پسندی، فرقہ پرستی سے تنگ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا ملک امن اور ترقی کی جانب سفر کرے۔

ملکی رائے دہندگان کی بڑی اکثریت کا جمہوری عمل اور انتخابات پر اعتماد اس امر کی بھی نشاندہی کر رہا ہے کہ اس مملکت کی ایک بڑی اکثریت جس میں پختون، تاجک، ازبک، ہزارہ اور دیگر کئی نسلوں کے افراد شامل ہیں، جمہوریت کو ہی اپنے پیچیدہ نیز دیرینہ مسائل کا حل سمجھتی ہے۔ طرز حکومت کے حوالے سے افغانستان کی سرزمین پر اور بھی کئی ایک آوازیں بلند ہوئیں، جن کی دیکھا دیکھی ہم میں سے بھی کچھ لوگ ان نعروں کے پیچھے چل پڑے، تاہم افغان عوام کی اکثریت کا حالیہ فیصلہ ایک خط فاصل ہے۔ تیس سال کے جنگی تجربے کے بعد آج افغان عوام سیاسی دھارے کا حصہ بن چکی ہے۔ وہاں کوئی بھی حکومت قائم ہو، کتنی ہی صاحب اختیار یا بے اختیار ہو، عوام کی اس اکثریت نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ ہمارے مسائل کا حل پرامن سیاسی عمل میں مضمر ہے۔

انتخابی عمل میں افغان عوام کی اکثریت کی شرکت خطے کے لیے بھی نہایت خوش آئند ہے۔ خطے میں موجود قوتوں کو اس تبدیلی کو درک کرنے اور اس تبدیلی کے مطابق اپنی حکمت عملی میں ردو بدل کی ضرورت ہے۔ آج کا افغانستان مزید خانہ جنگی کا متحمل نہیں ہے، عام افغان شہری امن، ترقی اور استقلال کا متلاشی ہے۔ اس بدلی ہوئی صورتحال میں کوئی بھی ایسا عمل جس سے افغانستان کے امن، پیشرفت اور استقلال کو کوئی نقصان پہنچے، خطے کی کسی بھی طاقت کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ اگر مزید واضح الفاظ میں لکھوں تو شاید اتنا کہہ سکوں کہ خطے کے ممالک کو اسی کی دہائی میں ترتیب دی جانے والی افغان جہاد پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔

افغانستان کا جمہوری عمل ابھی انتہائی ابتدائی مراحل میں ہے۔ اس ملک میں قبیلہ، نسل، فرقہ اور زبان بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے باوجود بعض ایسے صدارتی امیدوار بھی منظر عام پر آئے ہیں جو مختلف قبیلے، نسل اور فرقے سے ہونے کے باوجود دوسری نسل، قبیلے اور فرقے کے افراد کے لیے مورد اعتماد ٹھہرے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، ڈاکٹر اشرف غنی اور عبد الرب رسول سیاف کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ڈاکٹر عبد اللہ عبداللہ نسلی طور پر تاجک اور پختون پس منظر کے حامل ہیں۔ آپ شمالی اتحاد کے سربراہ احمد شاہ مسعود کے قریبی رفقاء میں سے ہیں اور ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے سربراہ ہیں۔ افغانستان کی نیوز ایجنسی پژواک کے مطابق ملک کے چونتیس صوبوں سے منتخب ہونے والے تین سو سات صوبائی کونسلوں کے اراکین میں سے اکسٹھ اراکین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے حق میں ہیں۔ یاد رہے کہ 2009ء کے انتخابات میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے افغان صدر حامد کرزائی کے مقابلے میں الیکشن لڑا اور تیس فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔

ڈاکٹر اشرف غنی احمد زئی قبیلے کے پختون ہیں۔ پژواک کے مطابق پختون پس منظر رکھنے کے باوجود ڈاکٹر اشرف صوبائی کونسلوں کے 65 اراکین کے پسندیدہ صدارتی امیدوار ہیں۔ عبدالرب رسول سیاف ملک کے قدامت پسند طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آپ مصر کے فارغ التحصیل ہیں اور ایک خبر کے مطابق القاعدہ کے بانی راہنماؤں منجملہ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کے قریبی افراد میں شمار ہوتے تھے۔ عبد الرب رسول سیاف خود بھی افغان جہاد میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسامہ بن لادن آپ ہی کی دعوت پر سوڈان سے افغانستان آئے۔ اس پس منظر کے باوجود عبد الرب رسول سیاف کے شمالی اتحاد میں شامل کئی جماعتوں سے بہت قریبی تعلقات ہیں۔

افغانستان کے حالیہ انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت کو پوری دنیا میں بہت سراہا گیا ہے۔ تقریباً سبھی امیدوار آزاد الیکشن کمیشن کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ ملک کی صدارت کے لیے کسی بھی امیدوار کو اکیاون فیصد ووٹوں کی ضرورت ہے۔ پژواک کے مطابق، غیر حتمی نتائج میں کوئی بھی امیدوار یہ اکثریت حاصل نہیں کرسکا۔ مئی میں آنے والے حتمی نتائج میں اگر یہی صورت برقرار رہتی ہے تو پہلے دو امیدوار انتخابات کے دوسرے مرحلے میں مدمقابل ہوں گے۔ اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق آٹھ صدارتی امیدواروں میں سے دو امیدوار بڑی اکثریت کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔ جن میں ایک ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ ہیں، جنھوں نے غیر حتمی نتائج کے مطابق اب تک 40 اعشاریہ 72 فیصد جبکہ ان کے مقابلے میں ڈاکڑ اشرف غنی احمد زئی نے 42 اعشاریہ 10 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔

حتمی انتخابی نتائج کچھ بھی ہوں، ملک کی صدارت ان مذکورہ بالا دونوں افراد میں سے کسی ایک کے پاس جائے، اس کے سیاسی اثرات مختلف ہوسکتے ہیں جو اب تک غیر حتمی ہی ہیں، تاہم ایک نتیجہ جو حتمی ہوچکا ہے یہ ہے کہ افغان بادشاہت سے لے کر امارت تک کے مختلف تجربات کے بعد حق رائے دہی کو قبول کرچکا ہے۔ جو فی ذاتہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ افغان عوام کے مسائل کے حل اور خطے میں اس مملکت کے مثبت کردار کے حوالے سے اگرچہ افغان جمہوریت سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتیں، تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بدلی ہوئی فضا کو سمجھا جائے اور اس کے مطابق پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔ یہی زندہ قوموں کی نشانی ہے اور یہی دنیا میں جینے کا ہنر ہے۔
خبر کا کوڈ : 369885
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش