0
Monday 30 Jun 2014 20:16

شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ تین سال قبل ہوگیا تھا لیکن کیانی ٹالتے رہے، میجر جنرل (ر) اطہر عباس

شمالی وزیرستان میں آپریشن کا فیصلہ تین سال قبل ہوگیا تھا لیکن کیانی ٹالتے رہے، میجر جنرل (ر) اطہر عباس
اسلام ٹائمز۔ پاک فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے کہا ہے کہ فوج نے تین برس قبل شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا تاہم اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ہچکچاہٹ کے باعث یہ کارروائی نہ کی جا سکی۔ فوج میں یہ اصولی فیصلہ ہو چکا تھا کہ 2010ء سے 2011ء تک شمالی وزیرستان میں آپریشن کی تیاری کی جائے گی اور اسی سال یہ آپریشن کر لیا جائے گا اور اس علاقے کو شدت پسندوں سے صاف کر دیا جائے گا۔ اس سوال پر کہ جنرل کیانی نے آپریشن کے حق میں حتمی فیصلہ کیوں نہیں دیا، کیا اس میں ان کی ذاتی کمزوریوں کا دخل تھا، سابق فوجی ترجمان نے کہا کہ یہ تاثر عمومی طور پر درست ہے۔ ان میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے بارے میں ایک طرح کی ہچکچاہٹ پائی جاتی تھی۔ وہ یہ فیصلہ کرنے میں بہت تامل کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ فیصلہ کرنے سے ان کی ذات کے بارے میں باتیں کی جائیں گی۔ کہا جائے گا کہ یہ جنرل کیانی کا ذاتی فیصلہ تھا۔ اس لیے وہ اس فیصلے کو ٹالتے رہے۔ جس کی وجہ سے ہم نے بہت وقت ضائع کیا اور نقصان اٹھایا۔ جنرل اطہر عباس نے کہا کہ اس شش و پنج میں بدقسمتی سے بہت وقت ضائع ہو گیا جس کی بھاری قیمت اس ملک، عوام، حکومت اور فوج کو ادا کرنی پڑی۔

سابق فوجی ترجمان نے کہا کہ اس تاخیر کی وجہ سے شدت پسندوں کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں، ان کی تعداد بڑھ گئی ہے، ان کے وسائل میں اضافہ ہو چکا ہے، ان کے آپس میں رابطے بڑھ چکے ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہاں پر معاملات زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ سابق فوجی ترجمان کے مطابق فوج کی اعلیٰ قیادت نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا فیصلہ وہاں پر تعینات فوجی کمانڈروں کی رائے اور وہاں سے ملنے والی انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر کیا تھا۔ وہاں زمین پر موجود فوجی کمانڈروں کی متفقہ رائے تھی کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر طرح کے شدت پسند اسی علاقے میں جمع ہو چکے تھے۔ جنرل اطہر عباس نے کہا کہ اس سے پہلے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے کے بارے میں فوج کی اعلیٰ قیادت میں دو آرا پائی جاتی تھیں۔ ایک رائے اس کارروائی کے حق میں تھی جب کہ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ اس کارروائی کو ملتوی کیا جا سکتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں جن میں حقانی نیٹ ورک بھی شامل تھا کہ انھیں کیسے ہینڈل کیا جائے۔ اس کے علاوہ فوجی کارروائی کے متاثرین کا مسئلہ بھی بہت اہم تھا۔

اطہر عباس نے کہا کہ فوجی قیادت کی رائے تھی کہ حکومت اور ملک کی سیاسی قیادت نے 2009ء میں سوات سے نقل مکانی کرنے والوں کا ٹھیک طرح سے خیال نہیں رکھا تھا اور خدشہ تھا کہ شمالی وزیرستان سے بھی بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کریں گے۔ ان عوامل کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی تاخیر کا شکار ہوتی رہی اور اس کی ہم سب نے بھاری قیمت ادا کی۔ اطہر عباس کے مطابق امریکہ نے بھی شمالی وزیرستان میں آپریشن کے معاملے پر فوج کے لیے مشکلات پیدا کیں، امریکہ سے ہر روز ایسے بیانات آتے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ امریکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے فوج پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ ہم امریکیوں کو یہ بتاتے رہے کہ اس طرح کے بیانات ہماری مدد نہیں کر رہے بلکہ ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنے میں مزید مشکل کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ اگر ہم یہ فیصلہ کر لیتے تو اس سے یہی تاثر ملتا کہ یہ کارروائی امریکہ کی خواہش پر کی جا رہی ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں حالات آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے 2010ء میں تھے اس لیے اگر آج آپریشن کیا جا رہا ہے تو اس وقت بھی کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میری ذاتی رائے میں یہ کارروائی 2011ء میں ہو جانی چاہیے تھی۔ ہم نے اس پر بہت وقت ضائع کر دیا ہے جس سے ہم سب کی مشکلات بڑھی ہیں۔ 2010ء میں منظوری کے بعد آپریشن کے لئے ایک سال کی تیاری کی گئی۔

سابق فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ جنرل کیانی کی ہچکچاہٹ اور امریکہ کی پیدا کردہ مشکلات کے باعث آپریشن میں تاخیر ہوئی جس کا شدت پسندوں کو فائدہ پہنچا اور ان کے قدم مضبوط ہوئے جس کی وجہ سے ملک و قوم کو بھاری نقصانات برداشت کرنا پڑے، اب شدت پسندوں کی تعداد اور وسائل میں بےحد اضافہ ہو چکا ہے۔ اطہر عباس کا کہنا ہے کہ میری ذاتی رائے کے مطابق وزیرستان میں آپریشن 2011 میں ہو جانا چاہئے تھا۔
خبر کا کوڈ : 396425
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش