0
Saturday 15 Nov 2014 16:26

آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں طالبان اور انتہا پسند عناصر تتر بتر اور منتشر ہو رہے ہیں، امریکی تھینک ٹینک

آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں طالبان اور انتہا پسند عناصر تتر بتر اور منتشر ہو رہے ہیں، امریکی تھینک ٹینک
اسلام ٹائمز۔ معروف امریکی تھینک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن میں جنوبی ایشائی امور کی ایک ماہر لیزا کرٹس (Lisa Curtis) نے شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں طالبان اور عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فوجی کارروائیوں کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج کے آپریشن کے نتیجے میں طالبان اور انتہاپسند عناصر تتر بتر اور منتشر ہو رہے ہیں ان کی مرکزیت پر ضرب لگی ہے اور حملے کرنے کی ان کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے۔ انہوں نے ایک امریکی کمانڈر کے حالیہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان شمالی علاقوں میں اپنی سرحد کے اندر عسکریت پسندوں کے خلاف جو کارروائیاں کر رہا ہے اس سے افغانستان میں صورت حال بہتر ہونے میں مدد مل رہی ہے جس سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہتر ہونے کی راہ ہموار ہوگی اور نئے افغان صدر کے لیے بھی ایک موقع پیدا ہوا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر بنانے کی سمت پیش رفت کریں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اگلے سال جنوری سے افغانستان میں اپنے تقریباً دس ہزار فوجی رکھنا چاہتا ہے تاہم اب وہاں ہمارا مشن تبدیل ہوجائے گا اور امریکی فوجی وہاں افغان فوج کو تربیت اور مشاورت فراہم کریں گے اور وہاں امکانی طور غیر معینہ مدت کے لیے اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھیں گے۔

پاکستان میں قبائلی علاقوں میں ڈرون کے استعمال سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں لیزا کرٹس نے کہا کہ ڈرونز نے القاعدہ کی قیادت کو بھاری نقصان پہنچانے اور حملے کرنے کی ان کی صلاحیت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے تاہم ڈرونز کے ساتھ معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کا مسئلہ بھی جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتہا پسندوں کی جانب سے لاحق خطرات سے نمٹے کیلیے وہاں کی حکومتوں کے ساتھ مل کر دوسرے ذرائع استعمال کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ انتہاپسند نظریات کو پھیلنے سے روکا جاسکے، کیونکہ جنگجوؤں کے ساتھ صرف میدان میں ہی نہیں بلکہ نظریات کے محاذ پر بھی لڑنے کی ضرورت ہے اور میرا خیال ہے کہ امریکہ پاکستان کی حکومت کے ساتھ مل کر انتہا پسندی پر مبنی نظریات کی تشہیر روکنے اور نوجوانوں کو اس کے سحر سے بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

افغانستان میں انتہاپسندی پر مبنی نظریات کے مقابلے کے سلسلے میں انہوں نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں جمہوری حکومت کی حمایت جاری رکھنی چاہیے اور وہاں کی سول سوسائٹی کی مدد کرنی چاہیے۔ انہوں نے اس سلسلے میں پاکستان اور امریکہ کی سول سوساسٹی کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب آنے میں مدد مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی معاشرے کی اکثریت انتہا پسندی کے نظریات کے خلاف ہے اور وہ جمہوری اقدار کو پھلتے پھولتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے وہ چاہتی ہے کہ ان کے ملک کا مستقبل روشن ہو۔ اس لیے، ہمیں چاہیے کہ ایسے لوگوں کو سامنے لائیں اور انہیں طاقت ور بنائیں۔

امریکہ میں وسط مدتی انتخابات کے نتیجے میں کانگریس کے دونوں ایوانوں ری پبلیکنز کی عددی اکثریت سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں لیزا کرٹس کا کہنا تھا کہ اس سے ملکی اور بالخصوص خارجہ پالیسیوں پر ری پبلیکنز کے دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ مشرق وسطیٰ کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے اْنھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں آئی ایس آئی ایس یعنی اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف زیادہ سخت رویہ اختیار کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا اور ری پبلیکنز یہ چاہیں گے کہ انتہا پسند جنگجوؤں کے خلاف شام اور عراق میں صرف فضائی حملوں پر ہی اکتفا نہ کیا جائے، بلکہ اپنے فوجی دستے بھی زمین پر اتارے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ عراق کی حد تک آئی ایس آئی ایس کے خلاف فضائی حملے کامیاب رہے ہیں اور اس کے بعد وہ کسی نئے علاقے پر قبضہ نہیں کرسکے تاہم شام میں صورت حال بہت پیچیدہ ہے، جس پر کانگریس میں سنجیدہ بحث کرنے اور کسی قابل عمل نتیجے پر پہنچنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اسلامک اسٹیٹ کا خطرہ افغانستان اور عراق کی جنگوں سے زیادہ خطرناک اور پیچیدہ ہے۔ ان کا خیال تھا کہ امریکی عوام بھی آئی ایس آئی ایس کے خلاف سخت کارروائی کی حمایت کرے گی۔ افغانستان اور پاکستان میں اسلامک اسٹیٹ کے قدم جمانے سے متعلق خطرے پر گفتگو کرتے ہوئے جنوبی ایشیائی امور کی ماہر لیزا کرٹس نے کہا کہ میں نہیں سمجھتی کہ افغانستان میں وہی غلطی دہرائی جائے گی جو ہم عراق میں کر چکے ہیں عراق سے مکمل امریکی فوجی انخلاء نے اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کو ابھرنے کا موقع فراہم کیا اس لیے وائٹ ہاؤس پر یہ دباؤ بڑھ رہا ہے کہ افغانستان کے معاملے میں عراق جیسی غلطی کا اعادہ نہ کرے اور وہ افغان حکومت کو فوجی ہتھیار، تربیت اور مالی امداد فراہم کرتا رہے۔
خبر کا کوڈ : 419635
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش