0
Thursday 24 Nov 2011 15:07

آل سعود خاندان اور اقتدار کا نشہ

آل سعود خاندان اور اقتدار کا نشہ
 تحریر:محمد علی نقوی

سعودی عرب کی پولیس نے شہر قطیف میں ہونے والے پرامن مظاہروں پر حملے کر کے مظاہرین کو زد و کوب کیا ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ آل سعود کی فوج نے ان پر مشین گنوں اور بھاری ہتھیاروں سے حملے کئے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی فورس گھروں کی تلاشی لے رہی ہے۔ عرب ملکوں کے آمر حکمراں اور بادشاہ خاص کر سعودی عرب کا آل سعود خاندان اقتدار کے نشے میں اس قدر چور ہے کہ ان کو اپنے انجام اور حال حاضر میں رونما ہونے والے عبرتناک واقعات کی کوئی خبر ہی نہيں ہے، یا پھر ان کے سامراجی آقاؤں نے ان کی آنکھوں ہر اتنے دبیز پردے ڈال رکھے ہیں کہ انہيں اقتدار کو بچانے کے لئے عوام کا خون بہانے اور ان کا استحصال کرنے اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے علاوہ کوئی دوسری چیز نظر ہی نہيں آرہی ہے۔ وہ اپنے سامراجی آقاؤں منجملہ امریکا اور صہیونی لابی کو خوش کرنے کی راہ میں اتنے آگے نکل چکے ہيں کہ واپسی کا راستہ بھول گئے ہیں۔

سعودی عرب میں عوامی انقلاب کی آہٹیں سنائي دے رہی ہیں، جس کے خوف سے آل سعود نے انسانی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک سو دس شیعہ مسلمانوں کو ملک بدر کر دیا ہے۔ المستقبل العراقی ویب سائٹ کے مطابق ایک سو دس سعودی شیعہ مسلمانوں کو قطر کے طیارے کے ذریعے سعودی عرب سے نکال دیا گيا ہے۔ سعودی حکام کا یہ غیر اخلاقی اقدام ایسے حالات میں سامنے آيا ہے کہ اس ملک کے مشرقی علاقوں میں اسلامی بیداری کی نشانیاں سامنے آئی ہیں اور عوام نے اپنے حقوق کے حصول نیز قیدیوں کی رہائي کے لئے احتجاجی مظاہرے کئے ہیں۔
 
سعودی عرب میں شیعہ مسلمان گرچہ دس سے پندرہ فیصد تک ہیں، لیکن انہیں وہ حقوق حاصل نہیں ہیں جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں، بلکہ ان کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ شیعہ مسلمانوں کو سرکاری عھدوں پر نہیں رکھا جاتا یا بہت ہی کم رکھا جاتا ہے۔ شیعہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے ان کے مذہبی امور پر پابندیاں لگا رکھی ہیں اور انہیں مساجد میں بھی نماز جماعت ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ 

شیعہ مسلمانوں کے ساتھ سعودی حکومت کے رویے میں جو چیز نہایت منفی ہے وہ شیعہ مسلمانوں کے حوالے سے سعودی حکومت کی فرقہ وارانہ نظر ہے۔ یہ نظر انتھا پسند وہابی فکر کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ہے، جس کی مضبوط گرفت میں سعودی حکومت اور آل سعود ہے۔ وہابیوں نے سعودی عرب میں شیعہ مسلمانوں کی زندگي اجیرن بنا دی ہے اور ان پر ہر سطح پر روک ٹوک دیکھی جا سکتی ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق اس وقت آل سعود کی کال کوٹھریوں میں تیس ہزار سیاسی قیدی ہیں، جن میں اکثریت شیعہ مسلمانوں کی ہے۔ یہ بات تک کہی گئی ہے کہ شیعوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لئے مشرقی علاقے کے افراد کو حج کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔ سعودی حکام نے اس طرح سے شیعہ مسلمانوں کو عالم اسلام سے آئے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ رابط قائم کرنے اور انہيں اپنے حالات سے سے آگاہ کرنے سے روکے رکھا۔ گذشتہ مہینوں میں سعودی عرب کے مشرقی علاقوں میں عوام نے اپنے پامال شدہ حقوق کا مطالبہ کرنے کے لئے احتجاجی مظاہرے کئے ہیں، جس سے آل سعود کو شدید تشویش لاحق ہو چکی ہے۔ 

ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ آٹھ مہینوں میں سعودی حکومت نے ایک سو ساٹھ سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا ہے، اور ان میں زیادہ تر تعداد شیعہ مسلمانوں کی ہے۔ سعودی عرب کے گیارہ قانون دانوں اور پروفیسروں نے سنہ دو ہزار نو میں شہری اور سیاسی حقوق کی ایک تنظیم قائم کی تھی۔ اس تنظیم نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ اس ملک کی سکیورٹی فورسز اب تک سینکڑوں سیاسی کارکنوں کو بغیر کسی مقدمے کے جیلوں میں بھیج چکی ہیں، سعودی عرب کے سول اور سیاسی حقوق کی ایک انجمن نے وزارت داخلہ کو ایک خط ارسال کر کے اس ملک کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی قیدیوں کو ان کے جرم سے آگاہ کرے۔
 
سعودی عرب کے سیاسی نظام میں موجود بعض انتہا پسند گروہ گرفتار ہونے والے افراد کو قانون کی تحویل میں دینے اور ان کے لۓ وکیل فراہم کرنے کے بجا‎ئے ان کا جرم ثابت ہوئے بغیر خود ہی ان کے بارے میں فیصلہ سنا دیتے ہیں، سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال اس وقت بہت ہی سنگین ہے۔ برطانیہ کے اسلامی انسانی حقوق کمیشن نے بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری کو اپنی طویل خاموشی ختم کر کے سعودی عرب میں مخالفین کی آواز کو دبانے اور سیاسی قیدیوں کی ابتر صورتحال کے سلسلے میں اس ملک کے حکمرانوں سے حساب لینا چاہۓ۔
 سعودی عرب نہ صرف اپنے ملک میں مخالفین کو کچل رہا ہے بلکہ امریکی اشاروں پر اسکے اہداف کو بھی پورا کر رہا ہے۔
 
المنار ٹی وی چینل کے نامہ نگار نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سعودی عرب شام کی حکومت کے ساتھ دشمنی کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے کی تمام تحریکوں اور انقلابوں کو کچل دینا چاہتا ہے اور سعودی عرب کے کئي شہزادے اپنے ایجنٹوں اور دہشتگردوں کو کئی سو ملین ڈالر کی رقم فراہم کر کے شام کے حالات کو خراب کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گيا ہے کہ شام کے حالات کو خراب کرنے کے پیچھے سعودی عرب کے خفیہ اداروں کا ہاتھ ہے اور وہی وہاں کے مظاہروں کو منظم اور کنٹرول کر رہے ہیں۔
 
شام کے ایک ممتاز تجزیہ نگار طالب ابراہیم نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکہ مسلح افراد کو سعودی عرب اور اردن میں دہشتگردی کی تربیت دے کر شام میں دہشتگردی کی کارروائیوں کے لیے تیار کر رہا ہے، یہ بات زور دے کر کہی کہ امریکی حکام شام کے بحران کے اصلی ذمہ دار ہیں کہ جو شام کی حکومت کو کمزور کر کے علاقے میں صیہونی حکومت کا تسلط چاہتے ہیں۔ موجودہ دور نہ صرف علاقے کی قوموں بلکہ عرب حکام کے لئے بڑا حساس ہے اور سعودی عرب و اردن جیسے ممالک جہاں شاہی حکومتیں ہیں، انہیں سب سے زیادہ تشویش لاحق ہے۔ 

ایسا لگتا ہے کہ علاقے کی شاہی حکومتوں کو احساس ہو چکا ہے کہ جن ملکوں کو مستحکم قرار دیا جاتا تھا ان میں بھی اب اسلامی بیداری کی موجوں سے لرزہ چھا رہا ہے اور بلاشبہ یہ سعودی عرب اور اردن کی شاہی حکومتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے، اگر انہوں نے اپنے عوام کے مطالبات کو نظر انداز کیا تو ان کا انجام اتنا گھناونا ہو گا کہ جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ حرمین شریفین اور ضیوف الرحمان کی خدمت گزاری کے دعویدار اس ملک پر ایک خاندان کی حکومت ہے جو نہ صرف اس ملک کی دولت و ثروت اور ذخائر کو اپنی خاص ملکیت سمجھتا ہے بلکہ اس میں حسب منشا تصرف بھی کرتا ہے۔ اگر سعودی عرب کی قوم کی دولت مغربی بینکوں سے نکال لی جائے تو بڑے بڑے نام نہاد اقتصادی سوپر پاور دیوالیہ ہو جائيں گے اور ان کے بھیک مانگنے کی نوبت آجائے گي۔

لیکن افسوس کہ ملت حجاز کی یہ دولت جو رفاہ عامہ اور امت مسلمہ کے مفادات میں خرچ ہونی چاہیے امریکہ اور یورپ میں بڑے بڑے جوے خانوں اور شراب و شباب پرخرچ ہو رہی ہے اور کوئي یہ پوچھنے والا بھی نہیں ہے کہ عالم اسلام کی قیادت کے اس دعویدار ملک کے شہزادے مغربی ملکوں کے شراب خانوں اور عیاشیوں کے اڈوں میں کیا کر رہے ہیں۔؟ بحرین، مصر، یمن، پاکستان، افغانستان اور عراق نیز دیگر ملکوں میں سعودی عرب کی مداخلت سے ہی عوام اپنے حقوق حاصل کرنے میں ناکام ہیں اور سعودی عرب کو اپنے راستے میں سب سےبڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ بہر حال سعودی عرب کی پولیس نے شہر قطیف میں ہونے والے حالیہ پرامن مظاہروں پر حملے کر کے مظاہرین کو جسطرح زد و کوب کیا ہے، اسکے جواب کا وقت زیادہ دور نہیں، سعودی عرب کے آل سعود خاندان کو بھی قذافی اور اسکے خاندان جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خبر کا کوڈ : 116629
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش