0
Wednesday 20 Jun 2018 12:24

امریکہ کی اسرائیل نوازی

امریکہ کی اسرائیل نوازی
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
ہر دور کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسہ

جابروں کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ ظالم طبقات کی حمایت و نصرت کی۔ اللہ اور اللہ والوں کے سوا البتہ مظلوم کا مددگار کون ہے؟ امریکہ اپنے سماجی و سیاسی رویئے میں منافق ترین ریاست ہے۔ کیا سارے امریکی منافق ہیں؟ بالکل نہیں۔ جب ہم امریکہ پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل سمیت ہر قاتل طبقے کی جنم گاہ اور ان کی پشت بان ریاست ہے تو اس سے ہماری مراد امریکی ریاست کی پالیسی اور اس کا مقتدر طبقہ ہوتا ہے نہ کہ عام امریکی۔ وہ امریکی جو عدل پسند ہیں، دنیا کے وہ سارے انسان جو عدل پرست اور مظلوم کے حمایتی ہیں، وہ قابل تکریم و تعظیم ہیں، کیونکہ سارے مظلوموں کا ہدف ایک ہے۔ ظالم سے نفرت، ظالم سے نجات۔ اسرائیل ایک ثابت شدہ دہشت گرد ریاست ہے۔ غزہ کی پٹی اسرائیلی وحشتوں کی گواہ ہے۔ مجھے عرب ریاستوں کی خاموشی اور اسرائیل نوازی پر قطعی حیرت نہیں۔ اسرائیل کے سامنے سینہ سپر ہونا ان کے بس کی بات ہی نہیں، نہ ان کی ترجیح ہے۔ تین چار ملکی مسلم ممالک پہ مشتمل عسکری اتحاد مسلمانوں کو ہی کمزور کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ یمن و شام اس اتحاد کا خاص ہدف اگر نہیں تو پھر یہ اتحاد اپنا رخ اسرائیل کی طرف کیوں نہیں کرتا؟ اس لئے کہ امریکی منشا یہی ہے۔

خطے اور عالمی حالات پہ نظر رکھنے والے تجزیہ کار جانتے ہیں کہ اسرائیل کی امریکہ کے لئے خطے میں کیا اہمیت ہے۔ اقوام متحدہ کے تمام ذیلی اداروں کے اجلاسوں کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیا جائے۔ ہر مرتبہ یہ امریکہ ہی ہوتا ہے جو اسرائیلی وحشتوں کی حمایت کرتا نظر آتا ہے۔ اسی طرح چند دیگر عالمی طاقت کے سرکردہ ممالک بھی اکثر امریکہ کے اس حوالے سے ہم رکاب نظر آتے ہیں۔ تازہ رپورٹ کے مطابق امریکہ نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ممبران پر "منافق" ہونے اور کونسل کے اسرائیل مخالف ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کونسل کی ممبرشپ چھوڑ دی ہے۔ امریکہ کی اقوام متحدہ میں سفیر نکی ہیلی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق "منافقانہ" ہے اور "انسانی حقوق کا مذاق اڑا" رہی ہے۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق پر اسرائیل مخالف ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کونسل کا ممبر رہنے کے فیصلے پر نظرثانی کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق 2006ء میں قائم کی گئی تھی اور کونسل کو ان ممالک کو ممبران بنانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا، جن ممالک کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سوال اٹھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ایک بیان میں امریکی فیصلے کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کونسل کا ممبر رہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر زید رعد الحسین نے امریکی فیصلے کو "مایوس کن" قرار دیا ہے۔

امریکہ کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے وقت کیا گیا ہے، جب ٹرمپ انتظامیہ کی غیر قانونی طور پر امریکہ آنے والے تارکین وطن کو ان کے بچوں سے علیحدہ کرنے کی پالیسی کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ زید رعد الحسین نے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کو "بے ضمیر" قرار دیا ہے۔ عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے ہمیشہ ہی سے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہے ہیں۔ بش انتظامیہ نے 2006ء میں اس کونسل کے قیام پر اس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت اقوام متحدہ میں امریکی سفیر جان بولٹن تھے، جو اس وقت صدر ٹرمپ کے نیشنل سکیورٹی کے مشیر ہیں۔ امریکہ اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کا دوبارہ ممبر 2009ء میں اوباما انتظامیہ میں ممبر بنا۔ امریکہ کے کئی اتحادیوں نے اس پر کونسل میں رہنے پر زور دیا ہے۔ وہ ممالک امریکہ کی اقوام متحدہ پر تنقید کے حق میں ہیں، ان کا بھی خیال ہے کہ امریکہ کونسل میں رہ کر اصلاحات کے لئے کام کرے۔ نکی ہیلی نے کونسل کی ممبر شپ چھوڑنے کا اعلان وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ہمراہ مشترکہ پریش کانفرنس میں کیا۔ نکی ہیلی نے کونسل کو "سیاسی تعصب کی گندگی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ "میں اس بات کو بالکل واضح کرنا چاہتی ہوں کہ اس قدم کا مقصد انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنا نہیں ہے۔"

یاد رہے کہ گذشتہ سال نکی ہیلی نے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ماننا مشکل ہے کہ اسرائیل کے خلاف قراردادیں منظور کی جاتی ہیں، لیکن وینزویلا کے خلاف ایک قرارداد پر بھی غور نہیں کیا جاتا، جہاں درجنوں مظاہرین کو قتل کر دیا گیا۔ 2013ء میں انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے اس وقت آواز اٹھائی، جب چین، روس، سعودی عرب، الجیریا اور ویتنام کو ممبر منتخب کیا گیا۔" امریکہ کا دکھ وینزویلا یا دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں بلکہ امریکہ کا دکھ جیسا کہ امریکی ذمہ داران کے بیانات سے ظاہر ہو رہا ہے، کونسل میں اسرائیل مخالف قراردادوں کی منظوری ہے۔ امریکہ سمیت عالمی برادری کے طاقتور ممالک اگر واقعی انسانی حقوق کے حوالے سے فکر مند ہیں تو انہیں چاہیے کہ کشمیر و فلسطین، یمن، افغانستان و عراق سمیت جہاں جہاں بھی بم گرائے جا رہے ہیں، حملہ آور ممالک، اتحادیوں اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف آواز بلند کریں۔ اگر امریکہ اور اس کے عالمی اتحادی ایسا نہیں کرسکتے تو پھر نام نہاد انسانی حقوق کا رونا رو کر عالم انسانیت کی آنکھوں میں دھول مت جھونکیں۔ دنیا کے عدل پسند جانتے ہیں کہ اگر امریکہ و یورپی ممالک اسرائیل کی پشت پہ نہ ہوتے تو اسرائیل نہ تو ایٹمی طاقت بنتا اور نہ ہی وہ اس قدر منہ زور ہوتا۔
خبر کا کوڈ : 732508
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش