0
Monday 23 Jul 2018 16:50
علی امین خان قومی و صوبائی اسمبلی کیلئے ہاٹ فیورٹ تاہم اب الزامات کی زد میں

کلاچی خودکش حملہ کے سیاسی محرکات، اہداف

ڈی آئی خان اور کلاچی میں پی ٹی آئی کو شدید خسارہ اور جے یو آئی کو آکسیجن ملی
کلاچی خودکش حملہ کے سیاسی محرکات، اہداف
تحریر: آئی اے خان

خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلٰی سردار عنایت اللہ خان گنڈہ پور کے دوسرے صاحبزادے سردار اکرام اللہ خان گنڈہ پور بھی خودکش حملے کا نشانہ بن کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ پانچ سال قبل 16 اکتوبر 2013ء کو صوبائی وزیر قانون اسرار اللہ خان کو انکی رہائش گاہ پہ ہی خودکش حملے میں نشانہ بناکر شہید کیا گیا تھا۔ دونوں بھائی گرچہ پی ٹی آئی میں شامل تھے، تاہم پی ٹی آئی میں شمولیت سے قبل دونوں اپنی الگ سیاسی شناخت رکھتے تھے۔ قومیت کی بنیاد پہ گنڈہ پوری شناخت کہ جو وزیر اور محسود قبائل کا کلاچی میں داخلہ بند رکھے ہوئے تھی۔ ایک ایسی شناخت کہ جس نے اسلام پسند عوام کا ووٹ بھی مذہبی جماعتوں کی جھولی میں نہیں گرنے دیا۔ ایک ایسی شناخت کہ علاقے میں جو پولیس، وکیل، دلیل اور حاکم کا درجہ رکھتی تھی اور اسی کی بدولت یہاں مذہبی، مسلکی شدت پسندی کا جن کوششوں کے باوجود بوتل سے نکل نہ پایا۔ طالبائزیشن کے محاصرے میں موجود علاقہ ’’کلاچی‘‘ کے دونوں سرداروں کو انہی کے علاقے میں یعنی گھروں کے اندر قتل کر دیا گیا جبکہ ریاست اور ادارے تاحال ان کے قاتلوں کا تعین کرنے میں بھی پوری طرح کامیاب نہیں ہو پائے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔

حالیہ سانحہ
اکرام اللہ خان گنڈہ پور اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں کلاچی کے محلہ کمال خیل کے چوک پہ کارنر میٹنگ کے بعد واپس جانے کیلئے روانہ ہوئے ہی تھے کہ نوری دربار کے قریب پہنچتے ہی خودکش حملہ آور نے ان کی گاڑی کے نزدیک خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ جس کے نتیجے میں گاڑی میں سوار سردار اکرام اللہ خان گنڈہ پور، ڈرائیور محمد رمضان، نجیب شاہ، پولیس کانسٹیبل عبدالرزاق اور کانسٹیبل دلنواز اور ایک راہگیر سیف الرحمان شدید زخمی ہوگئے۔ اکرام خان سمیت تمام زخمیوں کو پہلے کلاچی ہسپتال اور پھر فوری طور پر سی ایم ایچ ڈی آئی خان منتقل کیا گیا۔ ہسپتال میں سردار اکرام اللہ خان گنڈہ پور، ان کا ڈرائیور محمد رمضان اور پولیس اہلکار دلنواز زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہوگئے جبکہ دیگر زخمیوں کا علاج جاری ہے۔ ڈی ایچ کیو میں پوسٹمارٹم کے بعد ان کی میت انکے آبائی علاقے کلاچی منتقل کی گئی۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے ان پر حملے کی شدید مذمت کی۔ نگران وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، چیف الیکشن کمشنر سمیت آرمی چیف اور دیگر نمایاں شخصیات نے ان کے قتل کی شدید مذمت اور سانحہ پہ افسوس کا اظہار کیا۔

اکرام اللہ خان گنڈہ پور علاقہ کی معتبر شخصیت تھے، وہ سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سردار عنایت اللہ خان گنڈہ پور کے بڑے صاحبزادے تھے۔ مرحوم عنایت اللہ خان متعدد بار ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے جبکہ ایک بار وزیراعلیٰ اور وزیر خزانہ بھی رہے۔ اکرام اللہ گنڈہ پور 2013ء انتخابات میں ڈی آئی خان کی جنوبی نشست پی کے 98(66) پروا سے ہار گئے تھے جبکہ انکے بھائی اسراراللہ گنڈہ پور آبائی حلقہ سے والد عنایت اللہ خان کی وفات کے بعد
قومی وطن پارٹی کی ٹکٹ پر کامیاب ہوکر صوبائی وزیر بنے تھے اور بعد ازاں تحریک انصاف میں شامل ہوکر 2013ء کا انتخاب لڑا اور کامیاب ہوکر وزارت قانون کا قلمدان سنبھالا، لیکن کچھ عرصہ بعد عیدالفطر کے دن اپنے حجرے میں خودکش حملہ میں شہید ہوئے، انکی خالی نشست پر اکرام اللہ گنڈہ پور کامیاب ہوئے اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے انہیں محکمہ زراعت کی وزارت سونپی تھی۔ انہیں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے کافی قریب سمجھا جاتا تھا اور 2018ء انتخابات کے لئے کئی پارٹی راہنماوں کی مخالفت کے باوجود اکرام خان کو تحریک انصاف کا ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے حلقے پی کے 99 کلاچی میں انتخاب ملتوی کر دیا گیا ہے۔


ذمہ داری اور لواحقین کیجانب سے ملزمان کی نامزدگی میں تضاد
کالعدم تحریک طالبان نے سردار اکرام اللہ خان پہ خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی اور آئندہ بھی سیاسی شخصیات کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔ میڈیا کو جاری پیغام میں طالبان کے ترجمان خراسانی نے کہا ہے کہ اکرام خان کو انتقامی کارروائی میں نشانہ بنایا گیا ہے، کیونکہ کئی طالبان کمانڈروں کے قتل میں اکرام خان نے سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کیا۔ اسی پیغام میں یہ بھی بتایا گیا کہ جنید نامی خودکش حملہ آور کا تعلق لال مسجد کی غازی فورس سے تھا۔ واضح رہے کہ ڈی آئی خان میں اس سے قبل بھی کئی خودکش حملوں میں حملہ آوروں کا تعلق لال مسجد سے بتایا گیا تھا۔

انعام اللہ خان گنڈہ پور کی گفتگو
طالبان کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے باوجود اکرام اللہ خان گنڈہ پور کے بھائی انعام اللہ خان گنڈہ پور نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے سابق وزیر مالیات اور عمران خان کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے سردار علی امین خان گنڈہ پور پہ الزام عائد کیا کہ وہ اکرام خان پہ ہونے والے خودکش حملے میں ملوث ہے۔ انعام اللہ خان کے مطابق اکرام خان اس کارنر میٹنگ کے بعد علی امین خان کے خلاف ہی احتجاج کرنے جا رہے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اکرام اللہ خان کا قتل سیاسی دہشت گردی ہے، علی امین خان نے ہی میرے بھائی کو قتل کرایا ہے اور اس سے قبل میرے چھوٹے بھائی اسرار اللہ خان کو بھی علی امین خان گنڈہ پور نے قتل کرایا تھا۔

علی امین خان اور اکرام خان کی مخالفت سیاسی تھی
واضح رہے کہ 2013ء میں اسرار اللہ پہ خودکش حملے کے بعد اکرام خان نے صوبائی وزارت کا قلمدان سنبھالا تو کچھ عرصے بعد ہی علی امین خان کے ساتھ ان کے سیاسی فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے دونوں رہنماؤں اور صوبائی وزراء نے باقاعدہ پریس کانفرنسز کرکے نہ صرف ایک دوسرے کی کارکردگی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ ذاتیات کو بھی نہیں بخشا۔ اس دوران اکرام خان نے خیبر پختونخوا اسمبلی سمیت متعدد فورمز پہ علی امین خان کو اپنے بھائی اسرار خان کے قتل کا ذمہ دار قرار دیا اور اس کیس میں ہونیوالی پیشرفت اور علی امین کو
شامل تفتیش نہ کرنے کے خلاف انتظامیہ و حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ غیر معروف مقامی میڈیا نے بھی جھوٹی سچی متعدد ایسی رپورٹس جاری کیں کہ جس میں اسرار قتل کیس میں گرفتار ملزمان کی علی امین خان کے ساتھ تعلق کی نشاندہی کی گئی تھی۔ یہاں تک شہید اکرام خان نے سی ٹی ڈی اور ڈی پی او کو باقاعدہ درخواست میں علی امین کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ جس پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث اکرام خان نے احتجاج کا اعلان کیا تھا اور ڈیرہ ٹانک روڈ کو ہتھالہ کے مقام پہ بند کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے دھرنے دینے کا اعلان کیا تھا۔ وہ اپنے اسی اعلان پہ ہی عملدرآمد کرنے جا رہے تھے کہ ان پہ خودکش حملہ ہوگیا۔ جس میں اکرام اللہ خان، ان کے ڈرائیور محمد رمضان اور ان کا گن مین شہید جبکہ چار افراد زخمی ہوئے۔


وقت شہادت بم پروف گاڑی کے بجائے عام گاڑی میں سفر کیوں۔؟
شہید سابق صوبائی وزیر سردار اکرام اللہ خان گنڈہ پور شہید اپنے بھائی سردار اسرار کی شہادت کے بعد اپنے والد سابق وزیراعلیٰ سرحد سردار عنایت اللہ خان گنڈہ پور مرحوم کے زیر استعمال دیسی ساختہ بم پروف گاڑی استعمال کرتے تھے۔ جس وقت سردار اکرام اللہ گنڈہ پور پر خودکش حملہ کیا گیا، وہ کسی دوست کی پراڈو میں سوار تھے اور انکی بلٹ پروف گاڑی انکے قافلے میں انکے پیچھے آ رہی تھی، سکیورٹی ذرائع اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس حوالے سے بھی تفتیش کا آغاز کر دیا ہے کہ وہ کونسی وجوہات تھیں جنکی بناء پر وہ بلٹ پروف سے نکل کر دوسری گاڑی میں بیٹھے اور سفر آخرت پر روانہ ہوئے۔ اب کم از کم اس اہم سوال کا جواب یہ تو قطعاً نہیں ہوسکتا کہ ڈی آئی خان سے علی امین نے انہیں فون کرکے گاڑی بدلنے کا مشورہ دیا ہوگا۔؟ یہ تو کوئی بہت زیادہ اپنا ہی انہیں کسی نہ کسی بہانے غیر محفوظ گاڑی میں سفر پہ مجبور کرسکتا ہے۔

اکرام خان کی شہادت، پی ٹی آئی کو دہرا خسارہ، جے یو آئی کو دہرا فائدہ:

ڈی آئی خان، حالیہ انتخابات میں علی امین ہاٹ فیورٹ
قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں شہد کی بوتل سے شہرت پانے والے علی امین خان گنڈہ پور بلاشبہ ڈیرہ اسماعیل خان میں قومی و صوبائی اسمبلی دونوں پہ ہاٹ فیورٹ شمار کئے جا رہے ہیں۔ عمران خان سے ان کی قربت کی وجہ عوامی سطح پہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت میں شامل ہوئے تو ممکنہ طور پر وزارت داخلہ ان کے سپرد کی جائے گی اور صوبائی اسمبلی میں رہے تو وزارت اعلٰی یا داخلہ انہی کی دسترس میں ہوگی۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی میں شامل نام نہاد بڑے سیاسی برج یا الیکٹیبلز اور علی امین میں ایک فرق پی ٹی آئی سے نظریاتی ہم آہنگی کا بھی ہے۔ علی امین خان پی ٹی آئی میں عمران خان کے سیاسی نظریئے سے متاثر ہوکر شامل ہوئے اور اسی پارٹی میں رہ کر سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور منتخب ہونے، صوبائی وزیر ہونے کے بعد حلقہ کے عوام کے ساتھ اس قدر رابطہ استوار رکھا کہ پانچ سالہ اقتدار میں رہنے کے بعد
خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل ہوئی تو ان کے استقبال کیلئے حلقہ میں عوام کا ایک جم غفیر ان کا منتظر تھا۔

پی ٹی آئی کے ویژن (جس سے اختلاف بھی ممکن ہے) کے مطابق انہوں نے عوامی مسائل کے حل میں ذاتی دلچسپی لی۔ ان کے عوامی نفوذ کا اندازہ لگانے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ حلقہ میں موجود پی پی پی کا مستند اور قطعی ووٹر بھی اس بات کا برملا اظہار کر رہا ہے کہ پی ٹی آئی سے اختلاف اپنی جگہ تاہم علی امین کو ووٹ اس کی کارکردگی کی بناء پہ جائیگا۔ (علی امین خان کے سیاسی اثرونفوذ کے متعلق اتنی تفصیل سے لکھنے کا مقصد یہ بتانا مقصود ہے کہ ڈی آئی خان جسے اگر جے یو آئی کا سیاسی گڑھ اور مولانا فضل الرحمان کے والد مفتی محمود کی سیاسی جنم بھومی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہاں علی امین خان نے اپنی محنت کے بل بوتے پہ ایسی صورتحال پیدا کر دی ہے کہ حلقے میں جے یو آئی اور پی پی دونوں زوال پذیر ہیں)۔


پی ٹی آئی کے صحن میں دو دو لاشیں موجود
اب عین انتخابات کے موقع پہ اسی علی امین پہ نہ صرف سردار اسرار اللہ خان گنڈہ پور کے قتل کا الزام اکرام خان نے عائد کیا تھا بلکہ اب اکرام خان پہ خودکش حملے کا الزام بھی ان پہ عائد کر دیا گیا ہے۔ کلاچی جو کہ عنایت اللہ خان کے خانوادے کا سیاسی گڑھ ہے اور کوشش کے باوجود وہاں کوئی بھی مذہبی سیاسی جماعت قدم نہیں جما سکی۔ اسی عنایت اللہ خان کے گھر سے یکے بعد دیگرے پی ٹی آئی کے دو وزراء کے جنازے اٹھ چکے جبکہ ڈی آئی خان میں پی ٹی آئی کے امیدوار ہارٹ فیورٹ سمجھے جانیوالے علی امین خان کے صحن میں بھی ایک سیاسی لاش پڑی ہے۔ قتل کے الزامات کی سیاسی نعش، چہ مگوئیوں، خدشات، تحفظات، الزامات کی سیاسی لاش، عین انتخابات کے موقع پہ اس سیاسی لاش کی تدفین پہ کوئی بات کرنے کو بھی تیار نہیں۔ اکرام خان پہ خودکش حملہ علاقے میں پی ٹی آئی کی سیاست پہ خودکش حملہ ثابت ہوا ہے، دونوں جگہوں پہ یعنی کلاچی اور ڈی آئی خان میں پاکستان تحریک انصاف شدید خسارے کا شکار ہوئی ہے جبکہ اس خودکش حملے کے بعد جے یو آئی کی پانچوں گھی میں دکھائی دے رہی ہیں۔

اکرام خان پہ خودکش حملہ، جے یو آئی کیلئے فائدہ مند کیونکر۔۔؟
شہید اکرام اللہ خان کے بھائی شہید اسرار اللہ خان نے شہادت سے قبل تحصیل کلاچی سے جو انتخاب لڑا تھا، وہ کسی پارٹی کے ٹکٹ پہ نہیں بلکہ آزاد حیثیت سے لڑا اور اس انتخاب میں انہیں جے یو آئی کی بھرپور تائید و حمایت حاصل تھی۔ واضح رہے کہ جے یو آئی ٹانک، کلاچی، لکی یا بنوں میں کہیں بھی علاقائی سرداروں کی مخالفت میں انتخاب لڑکر جیتنے کی پوزیشن میں نہیں سمجھی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ کلاچی سے عنایت اللہ خان گنڈہ پور یا ان کے خاندان کی مخالفت میں رہ کر جے یو آئی نے شاز و نادر ہی اپنا امیدوار میدان میں اتارا۔ شہید اسرار اللہ خان آزاد حیثیت سے جیت کر صوبائی اسمبلی میں پہنچے، تاہم جے یو آئی کا موقف یہ تھا کہ ان کی حمایت و تائید سے اسرار خان کو یہ سیٹ ملی۔
جے یو آئی کو یہ امید تھی کہ صوبائی اسمبلی میں اسرار خان جے یو آئی سے تعاون کریں گے، تاہم انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور صوبائی وزیر قانون و انسانی حقوق کا قلمدان سنبھالا۔ اس کے علاوہ اسمبلی اور اسمبلی سے باہر بھی انہوں نے جے یو آئی کو حلیف کے بجائے حریف جماعت ہی گردانا۔

2013ء کے خودکش حملے میں ان کی شہادت کے بعد ان کے بھائی اکرام خان ضمنی انتخابات میں کامیاب ہوکر اسمبلی تک پہنچے اور وزیراعلٰی پرویز خٹک سے خصوصی قربت کے باعث وزارت زراعت کا قلمدان سنبھالا۔ اس دوران کلاچی میں علاقائی سطح پہ کئی ایسے معاملات پیش آئے کہ جن کو بنیاد بنا کر مذہبی جماعتوں نے وہاں پر پھیلانے کی شدید کوشش کی مگر یہ کوششیں بارآور ثابت نہ ہوئیں۔ اب اکرام خان کی شہادت کی صورت میں ایک طرف پی ٹی آئی نے صوبائی اسمبلی میں اپنی ایک کنفرم نشست گنوا دی تو دوسری طرف دشمن کا دشمن بھی دوست ہوتا ہے، کے اصول کے تحت کلاچی میں مولانا برادران گنڈہ پور خاندان کے قریب ہوں گے اور ڈی آئی خان میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پہ علی امین کو بیک فٹ پہ جانے پہ مجبور کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ علاوہ ازیں عوامی تائید و حمایت سے علی امین خان عام انتخابات میں کامیاب ہو بھی جائیں تو بھی انہیں مختلف نوع کی تحقیقاتی کمیٹیوں، انکوائریوں کا سامنا بھی ہوگا۔ ڈیرہ میں پی ٹی آئی امیدوار کے کمزور ہونے سے بھی جے یو آئی کو آکسیجن ملی ہے اور کلاچی میں اکرام خان کے بعد انہیں قدم جمانے کا موقع بھی ملا ہے، جو کہ شائد شہید کی موجودگی میں ممکن نہیں تھا۔


دونوں بھائیوں پہ حملوں کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی، مگر پی ٹی آئی اور طالبان میں جھگڑا کس بات کا۔۔۔۔؟
پی ٹی آئی پاکستان کی وہ سیاسی جماعت ہے کہ جس کے سربراہ کو طنزاً ’’طالبان خان‘‘ کہا گیا۔ اسی پارٹی نے ماضی میں وفاقی حکومت پہ طالبان سے مذاکرات کیلئے سب سے زیادہ دباؤ ڈالا۔ اسی سیاسی جماعت نے طالبان کے دفاتر کے قیام کا مطالبہ اور لاہور ہائیکورٹ میں اس کی اجازت کیلئے باقاعدہ رٹ دائر کی۔ پی ٹی آئی حکومت کے وزیراعلٰی نے ہی سوات اور شانگلہ سے سکیورٹی فورسز کے انخلاء کا مطالبہ کیا۔ طالبان قیادت پہ ہونے والے ڈرون حملوں کی بھی سب سے زیادہ مخالفت پی ٹی آئی نے اور ان امریکی ڈرون حملوں کو روکنے کیلئے نیٹو سپلائی لائن بند کرنے کی اسمبلی فورم پہ تجویز پیش کی۔ پرسوں ہونے والے عام انتخابات میں بھی گرچہ پی ٹی آئی کئی سیاسی جماعتوں کی مخالفت میں ہے، تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بابائے طالبان سمجھے جانے والے مولانا سمیع الحق یعنی جے یو آئی (س) انتخابات میں پی ٹی آئی کی فرنٹ لائن حلیف ہے۔ مولانا سمیع الحق کے مدرسے اکوڑہ خٹک کو سرکاری بجٹ میں سے خطیر اور اعلانیہ مدد کا خطرہ بھی پی ٹی آئی حکومت نے مول لیا۔ حالیہ انتخابات میں کالعدم جماعتیں جن پہ دہشتگردی کے الزامات ہیں یعنی کالعدم سپاہ صحابہ
وغیرہ سے متعلق امیدواروں کا علاقائی سطح پہ سب سے زیادہ الحاق بھی پی ٹی آئی کے ساتھ دینے کو ملا ہے۔

چنانچہ ایسے حالات میں محض اس الزام کے تحت کہ سردار اکرام خان نے فوج کے ساتھ تعاون کیا یا طالبان کمانڈروں کے قتل میں سکیورٹی فورسز کی مدد کی، ان کو نشانہ بنائے جانا حیران کن ہے، کیونکہ پالیسی کے اعتبار سے یا شخصیت کے اعتبار نہ ہی طالبان اور پی ٹی آئی میں اتنی دوریاں ہیں کہ پی ٹی آئی امیدواروں پہ خودکش حملے ہوں اور نہ ہی سردار اکرام خان اور طالبان میں اتنے فاصلے تھے کہ انہیں اس طریقے سے ٹارگٹ کیا جائے کہ جانی نقصان بھی کم از کم ہو اور واقعہ دہشتگردی بھی قرار پائے اور علاقے کی بااثر ترین شخصیت کہ علاقائی ووٹرز پہ مکمل گرفت رکھتی ہو، وہ بھی راستے سے ہٹ جائے اور اس حملے کی ذمہ داری بھی اس طریقے سے قبول ہو کہ ریاست یا ادارے تفتیش یا تحقیق کا بھی درد سر مول نہ لیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی قتل کی تحقیق کا نقطہ آغاز اس سوال سے ہونا چاہیئے کہ اس قتل سے فائدہ کس کو ہوا۔؟ نقصان کس کو ہوا۔؟ حقیقت یہی ہے کہ علی امین خان سمیت پی ٹی آئی شدید نقصان کا شکار، علی امین خان اور پی ٹی آئی مخالفین دہرے فائدے میں دکھائی دے رہے ہیں۔ نیز وہ قوتیں جو بیلٹ کے ذریعے مقابلے کی پوزیشن میں نہیں تھیں، دہشتگردی کے اس سانحہ کے ذریعے انہوں نے اپنی رٹ بھی ظاہر کی ہے۔


قانون میں قاتلوں کو سزا دینے کی سکت کا سوال۔۔؟
پانچ سال قبل شہید اسرار اللہ خان کے جنازے میں علی امین خان گنڈہ پور کے سوا کسی بڑی سیاسی شخصیت نے شرکت نہیں کی تھی، اکرام خان کے جنازے میں فیصل کریم کنڈی کے سوا کوئی نامور سیاسی شخصیت شریک نہیں ہوئی، یہاں تک کہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت بھی، یہ ایک المیہ بھی ہے اور منفی پیغام بھی۔ تاہم بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ علی امین سمیت پی ٹی آئی قائدین سکیورٹی خدشات کی بناء پہ اکرام خان کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ ان کے بھائی انعام خان نے جنازے سے قبل ہی حملے کے ذمہ دار عناصر کا تعین اور میڈیا میں ان کے ناموں کا اعلان کرکے اس چیز کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ نگران وزیراعظم نے سانحہ کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے، تاہم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ جس معاملے کو دبانا مقصود ہو، اس پہ کمیٹی کا قیام وطیرہ بن چکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس قتل کی آزادانہ تحقیقات ممکن ہو پائے گی۔ بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو کیا ذمہ دار عناصر کا محاسبہ ہوگا۔ کیا قانون انہیں قرار واقعی سزا دے گا۔ اگر یہ امید برقرار بھی رکھیں تو پھر سوال تو یہ بھی ہے کہ یہی قانون سابق وزیر قانون یعنی شہید اسرار اللہ خان گنڈہ پور کے قاتلوں کو پانچ سال گزرنے کے باوجود نشان عبرت کیوں نہیں بنا سکا۔ شائد کہ ہائی پروفائل قتل کی تحقیق اور مجرموں کو سزا دینے سکت کسی میں نہیں ہے۔ جبھی تو وطن عزیز کا کوئی گوشہ ایسا نہیں کہ جو بے گناہ شہریوں کے خون سے آلود ہ نہ ہو۔
خبر کا کوڈ : 739740
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش