1
Saturday 20 Apr 2024 17:33

شاہ اردن کی غلامی اور عوامی غصہ

شاہ اردن کی غلامی اور عوامی غصہ
تحریر: علی احمدی
 
امریکی تھنک ٹینک "اٹلنٹک کاونسل" نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں اردن کی جانب سے اسرائیل پر مارے گئے ڈرون طیاروں اور میزائلوں کو مار گرانے کی کوشش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے: "شاہ اردن نے (اپنے اس اقدام سے) ثابت کر دیا ہے کہ وہ امریکہ کا اتحادی باقی رہنے کیلئے حتی اپنے عوامی مطالبات کو بھی قربان کر دینے کیلئے تیار ہے۔ یہی بات اردن کے عوام میں اس کے خلاف شدید ناراضگی کا باعث بنی ہے۔" یہ تھنک ٹینک اپنی رپورٹ میں مزید لکھتا ہے: "حتی حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کے دن (طوفان الاقصی) آپریشن انجام پانے سے پہلے بھی اردنی حکام اپنی عوام کی جانب سے شدید تنقید کا شکار تھے۔ اردن میں بے روزگاری کی شرح 22 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔"
 
اٹلینٹک کاونسل نامی یہ تحقیقاتی ادارہ لکھتا ہے: " ایک سروے رپورٹ کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ 18 سے 29 سال کے جوانوں کی 63 فیصد تعداد اقتصادی مسائل کے باعث ملک چھوڑ کر چلے جانے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔اردن میں بے روزگاری اور اقتصادی مشکلات کا شکار جوانوں کی تعداد حتی لبنان اور عراق میں معیشتی مسائل کا شکار جوانوں سے زیادہ ہے۔" ایسے حالات میں غزہ کی جنگ کا آغاز ہوتا ہے اور اردن میں اقتصادی بحران مزید شدت اختیار کر جاتا ہے۔ خزاں 2023ء کے بعد سے اردن میں سیروسیاحت کے شعبے کو شدید دھچکہ پہنچا ہے اور اس ملک کی جانب سفر کرنے والے سیاحوں کی تعداد میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ معیشت میں کمزوری کے اس مسئلے نے اردن کو بھی بہت زیادہ کمزور کر دیا ہے اور عوام میں بھی ناراضگی اور غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔
 
مزید برآں، اردن کی 50 سے 60 فیصد آبادی فلسطینی مہاجرین پر مشتمل ہے اور حتی شاہ اردن کی زوجہ، ملکہ رانیا بھی فلسطینی نژاد ہیں۔ لہذا یہ ایک فطری بات ہے کہ غزہ پر جاری صیہونی جارحیت پر اردن کی آبادی کا بڑا حصہ برہم ہے اور وہاں غزہ کے عوام سے بہت زیادہ ہمدردی پائی جاتی ہے۔ اردن میں ایک یونیورسٹی کی جانب سے انجام پانے والے سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ 66 فیصد اردنی عوام 7 اکتوبر کے دن حماس کی جانب سے اسرائیل کے خلاف انجام پانے والے (طوفان الاقصی) فوجی آپریشن کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ عوام فلسطین میں جاری قتل عام اور نسل کشی کی بھی پرزور مذمت کرتے ہیں اور اردن کے دارالحکومت امان میں اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے گذشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
 
اردن حکومت اتنے وسیع پیمانے پر اردنی عوام کی جانب سے اسرائیل مخالف احتجاجی مظاہروں پر راضی نہیں ہے۔ فلسطین کے حق میں دارالحکومت امان میں منعقد ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں اب تک ہزاروں مظاہرین اردن کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں۔ اردن میں سرگرم افراد کے بقول ان مظاہرین کو گرفتار کئے جانے کی اصل وجہ غزہ جنگ سے متعلق شاہ اردن کے موقف کی خلاف ورزی بیان کی گئی ہے۔ اردن حکومت نے دارالحکومت امان میں بڑے پیمانے پر مظاہرین کی گرفتاریوں کے بعد اس حقیقت کو بھانپ لیا ہے کہ اسے سیاسی سطح پر اسرائیل کے خلاف تنقید کر کے خود کو عوامی رائے عامہ سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ لہذا ملکہ رانیا نے ایک انٹرویو میں مغربی حکمرانوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ انہوں نے اب تک صیہونی حکمرانوں پر فلسطینی عام شہریوں کے قتل عام کا الزام عائد کیوں نہیں کیا۔
 
اردن کے فرمانروا ملک عبداللہ دوم نے بھی فلسطینی مہاجرین کو اقوام متحدہ کی جانب سے ملنے والی امداد میں کمی پر تنقید کرنے میں اپنے کردار کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ شاہ اردن نے اسی طرح فروری کے مہینے میں علامتی طور پر فوجی یونیفارم زیب تن کیا اور ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ فلسطینی عوام تک انسانی امداد پہنچانے میں ذاتی طور پر حصہ لے رہے ہیں۔ یکم نومبر 2023ء کے دن اردن نے اسرائیلی سفیر کو وزارت خارجہ میں بلایا اور اسے غزہ جنگ کے خاتمے تک اردن سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ 16 نومبر 2023ء کے دن غزہ میں ہزاروں فلسطینی شہریوں کی شہادت کے بعد اردن کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ اس نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات سے انرجی کے بدلے پانی والا معاہدہ آگے بڑھانے کا ارادہ ترک کر دیا ہے۔
 
اسی طرح اردنی وزیر خارجہ نے اسرائیل کو ایک "جارح طاقت" قرار دیا اور کہا کہ وہ غزہ میں اپنے اقدامات کی توجیہہ جائز دفاع کے طور پر پیش نہیں کر سکتا۔ اردن عملی طور پر اس بارے میں پریشان ہے کہ اگر اسرائیل کے خلاف زیادہ سخت پالیسی اختیار کرے گا یا مختلف شعبوں میں امریکہ سے تعاون نہیں کرے گا تو واشنگٹن کی جانب سے امان کو ملنے والی سالانہ امداد منقطع ہو جائے گی اور اردن کے اندرونی حالات زیادہ مشکل ہو جائیں گے۔ لہذا ملک عبداللہ دوم نے ثابت کیا ہے کہ وہ عوامی مطالبات کو تو قربان کرنے پر تیار ہے لیکن بدستور امریکہ کا اتحادی باقی رہنا چاہتا ہے۔" امریکی تھنک ٹینک کا یہ تجزیہ ایسے وقت شائع ہوا ہے جب ایران کی جانب سے اسرائیل پر حالیہ حملے میں اردن کی جانب سے اسرائیل کے دفاع نے اردن اور دیگر اسلامی ممالک کے عوام میں شدید ناراضگی اور غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔
خبر کا کوڈ : 1129961
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش