0
Saturday 21 Dec 2013 19:34

دہشتگرد کون ہیں؟

دہشتگرد کون ہیں؟
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


جب Helen Thomas نے ایک یہودی ربی کو جواب دیا کہ فلسطین میں موجود تمام یہودیوں کو چاہئیے کہ وہ اپنے اپنے وطن کو لوٹ جائیں تو ربی نے پوچھا کہ کہاں چلے جائیں؟ اس پر Helen Thomas نے ایمانداری سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پولینڈ، امریکہ اور جرمنی سمیت دیگر جہاں سے انکو لایا گیا ہے۔ بہرحال اس جواب کے بعد Helen Thomas کو وائٹ ہائوس کی بہترین رپورٹر کی جاب سے ہاتھ دھونا پڑے اور اسے اس نوکری سے نکال دیا گیا۔ یقیناً اس کا یہ دلیرانی اور ایمانداری پر مبنی جواب اسی بات کا متقاضی تھا کہ اس کے ساتھ اسی قسم کا سلوک روا رکھا جاتا کیونکہ اس نے ایمانداری کے ساتھ سچائی کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ سرزمین فلسطین کو عالمی صیہونیزم نے کس طرح سے ہتھیا لیا ہے اور کس طرح سے غاصبانہ تسلط قائم کر رکھا ہے۔

اسرائیلی منصوبے کے مطابق مارچ سنہ 1948ء سے ہی منصوبہ بندی کی گئی تھی کہ فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کی جائے گی، تاکہ فلسطین میں صیہونیوں کی آبادی کے تناسب کو فلسطینیوں کی آبادی کے تناسب سے بڑھایا جائے، تاہم پھر ایسا ہی ہوا کہ مئی 1948ء میں ساڑھے سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ظلم اور تشدد کے باعث فلسطین سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا جبکہ لاکھوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ پانچ سو اکتیس دیہاتوں کو تباہ و برباد کر دیا گیا جبکہ گیارہ سے زیادہ فلسطینی شہروں کو بھی مکمل طور پر منہدم کر دیا گیا تھا۔ یہی وہ دن تھا کہ جسے فلسطینیوں نے ''مصیبت کا دن'' یعنی ''یوم نکبہ'' قرار دیا تھا۔ البتہ صیہونیوں کی اس سازش کے نتیجے میں 80 فیصد فلسطینیوں کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا اور غاصب صیہونیوں کو سرزمین فلسطین کا مالک بنا دیا گیا، جنہوں نے نہ صرف فلسطین کی زمین پر غاصبانہ تسلط قائم کیا بلکہ ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے گھروں کی جگہ پر صیہونیوں کی کالونیاں بنانا شروع کر دیں۔

دہشتگرد کون؟
فلسطین کے عوام جو ان غیر قانونی صیہونیوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے، اگر کوشش بھی کریں تو صیہونی ان کے گھروں کو نذر آتش کرتے ہیں، حال ہی میں ہانی ابو ہیکل کی ملکیت میں موجود باغات اور درختوں کو صیہونیوں نے دسویں مرتبہ نذر آتش کیا ہے جبکہ ماضی میں بھی اس طرح کیا گیا تھا کہ ہانی ابو ہیکل کے گھر کو صیہونی دہشتگردوں نے نذر آتش کر دیا تھا اور حال ہی میں ایک مرتبہ پھر اس کے درختوں کو نذر آتش کر دیا گیا ہے۔ ہانی ابو ہیکل کے درختوں کو نذر آتش کئے جانے سے ایک روز قبل ہی صیہونی غاصب افواج کے دستوں نے ہانی کے گھر چھاپہ مارا اور ہانی کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے اپنی زمین کو صیہونیوں کے حق میں نہ چھوڑا تو پھر صیہونی دہشت گرد تنظیم کے لوگوں کے حوالے کر دیا جائے، جس طرح ماضی میں انہوں نے اس کے گھر کو نذر آتش کیا تھا اور پھر اگلے ہی روز صیہونی آباد کاروں کے ایک گروہ نے کیمیائی مادہ کے ساتھ ہانی کے زیتون کے باغ میں موجود درجنوں درختوں کو آگ لگا دی اور صیہونی فوجی اس عمل کی چوکیداری پر معمور تھے، تاکہ کوئی بھی فلسطینی ان درختوں کو پانی ڈال کر بجھانے کی کوشش نہ کرے۔

صیہونزم:
شاید ہی سرزمین فلسطین پر کوئی ایسا دن بھی گذرتا ہوگا کہ جس روز فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار نہ کیا جاتا ہو یا ان کے باغات اور کھیتوں کو آگ کی نظر نہ کیا جاتا ہو۔ Gilad Atzmon کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق غاصب اسرائیلی ریاست اور اس کی لابی صرف مشرق وسطٰی ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کے لئے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ دور حاضر میں صیہونزم اور اس کی لابی ایک ایسا خطرہ ہے جسے دنیا کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لئے صیہونزم ایک ایسی لائن ہے جس کی حمایت اور مخالفت دراصل اچھائی اور برائی کی تعریف کرنے میں مدد گار ہے، یعنی اگر کوئی صہیونزم کا حامی ہے تو اس کا مطلب ہے برائی کی طرف ہے اور اگر کوئی صیہونزم کے خلاف ہے تو یقیناً اچھائی کی طرف ہے۔

برطانوی پارلیمنٹ بھی امریکی کانگریس سے مختلف نہیں ہے کہ جس نے مسئلہ فلسطین سے خیانت میں ہمیشہ صف اول کا کردار ادا کیا ہے کیونکہ برطانوی پارلیمنٹ کے 80 فیصد اراکین پارلیمنٹ CFI یعنی (Conservative Friends of Israel).) کے ممبر ہیں۔ اسرائیلی روزنامے ''ہارٹز'' میں شائع ہونے والی خبر میں لکھا گیا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ اس بات پر متفق ہیں کہ ایران دنیا کے لئے سنگین خطرہ ہے کیونکہ وہ نیوکلیئر انرجی کے حصول میں کوشاں ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایران کس طرح دنیا کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے کہ جس نے آج تک ایک ایٹمی ہتھیار نہیں بنایا ہے، جبکہ غاصب اسرائیل نے دو سو سے زائد ایٹم بم بنا رکھے ہیں۔
پروفیسر Jim Fetzer اسرائیل کے جنونی وزیراعظم نیتن یاہو کی جانب سے دیئے جانے والے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ اسرائیلی وزیراعظم کا جھوٹا پراپیگنڈا ہے کہ جنہوں نے کہا کہ ایران نے تیس سال قبل ہی ایٹمی ہتھیار بنا لئے تھے، حالانکہ سچائی اس کے برعکس ہے جو دنیا پر عیاں ہوچکی ہے۔ دوسری طرف امریکی خفیہ اداروں نے سنہ 2007ء میں ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا ہے اور اس رپورٹ کو سنہ 2011ء میں ایک مرتبہ پھر بیان کیا گیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل اب زیادہ دیر تک اس پراپیگنڈے کے باعث دنیا کو بے وقوف نہیں بنا سکے گا کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں یا ایران ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے، بلکہ اسرائیل یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ اسرائیلی ایٹمی ہتھیار نہ صرف خطے کے لئے بلکہ پوری دنیا کے امن کے لئے خطرہ بن چکے ہیں اور اسرائیل کا وجود خود دنیا کے امن کے لئے نہ صرف سوالیہ نشان بلکہ بہت سنگین خطرہ ہے۔ تاہم اسرائیل اس بات سے بھی آگاہ ہے کہ وہ وقت دور نہیں کہ جب صیہونی آباد کاروں کو بالآخر ان کی آبائی سرزمینوں پر جانا پڑے گا کہ جہاں سے انہیں لا کر یہاں بسایا گیا ہے اور یہی حقیقت بھی ہے۔
خبر کا کوڈ : 330045
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش