0
Wednesday 6 Aug 2014 13:11

مشرق وسطٰی کی موجودہ خونچکاں صورتِحال اور مسئلہ فلسطین

مشرق وسطٰی کی موجودہ خونچکاں صورتِحال اور مسئلہ فلسطین
تحریر: فدا حسین بالہامی
fidahussain007@gmail.com

امریکی سامراجیت، اسرائیلی صیہونیت اور عالمِ عرب کی مطلق العنان آمریت پر مبنی سیاسی مثلث ہی ہے کہ جس نے پورے عالمِ اسلام علی الخصوص مشرقِ وسطٰی کے امن و سکون کو غارت کر دیا ہے۔ شام گذشتہ تین سال سے متحارب قوتوں کی خونی چپقلش کا شکار ہے۔ عراق دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے۔ مصر میں جمہوریت کی لاش تانا شاہی کی سولی پر ہنوز لٹکتی دکھائی دے رہی ہے۔ لبنان مسلکی منافرت کے بارود کی ڈھیر پر کھڑا ہے۔ ایران گذشتہ پنتیس سال سے اقتصادی پابندیوں کے حصار میں ناگردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے۔ بحرین میں جمہوریت نواز عوامی تحریک کا گلا وہاں کی شہنشاہی نے جوروجبر کے ہاتھوں دبا رکھا ہے۔ یمن میں الحوثی قبائل کا باغی گروہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مترادف ایک مرتبہ پھر سے مسلح بغاوت پر اتر آیا ہے۔ لیبیا اور تیونس میں مطلق العنان حکومتوں کا بیڑا غرق تو ہوا ہے، لیکن وہاں کے نظام حکومت کا سفینہ اب بھی ایک منزل شناس توانا اور پرسوز ناخدا کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ 

عالمِ اسلام کے مرکز سعودی عریبیہ میں ایک ہی خاندان سے وابسطہ افراد پوری مملکت کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ ملک کے تمام تر وسائل آلِ سعود کے شاہوں اور شہزادوں کی خرمستی اور عیش پرستی پر صرف ہو رہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اپنے عشرت کدوں کو محفوظ رکھنے کی خاطر یہ حکمران ٹولہ امریکہ کی غلامی اور اسرائیل نوازی میں کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ حتیٰ کہ صہیونی اور سامراجی منصوبوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے آل سعود حکومت نے مصر میں صدر ڈاکڑ محمد مرسی کی جمہوری حکومت کو ختم کرنے اور اپنے جیسا صہیونیت نواز ڈکٹیٹر عبدالفتاح السیسی کو برسر اقتدار لانے کے لئے بیس عرب ڈالر خرچ کئے۔ یہ دہشت و وحشت کو امن و سکون سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ عوامی سطح پر آزادانہ اظہارِ رائے کو الہی نظام کے خلاف بغاوت کا مقدمہ تصور کرسکتے ہیں۔ المختصر بطورِ مجموعی عالمِ اسلام علی الخصوص مشرق وسطیٰ کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔
 
بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ متذکرہ بالا مملکتوں میں حالات کی ابتری کے اسباب مختلف ہیں اور ان مختلف اسباب کے مابین کوئی واضع علاقہ بھی نہیں ہے۔ لیکن دقتِ نظری سے دیکھیئے تو ان تمام حالات کے مختلف دکھائی دینے والے عوامل کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ عالمی طاغوت کی خلق کردہ قتل و غارت گری اور انتشار و افتراق کا مدعا و مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اسرائیل تمام تر خطرات سے محفوظ رہے۔ مشرقی وسطیٰ میں امریکی طاغوت کی لوٹ کھسوٹ اور بالادستی برقرار رہے اور عرب ممالک میں موجود مطلق العنان نظام حکومت پھلتا پھولتا رہے۔ یہ سب جب ہی ممکن ہے کہ جب مسئلہ فلسطین جوں کا توں رہے۔ فلسطین کی محکومی نیز بیت المقدس پر صہیونیوں کا ناجائز قبضہ اصل میں عالم اسلام کی ناتوانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جس روز مسلم ممالک کی مشترکہ جدوجہد سے فلسطین اور بیت المقدس آزاد ہوگا، یقیناً وہ دن اسلام کیلئے باعثِ افتخار ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ امت مسلمہ کی کھوئی ہوئی عظمت اپنے آپ ہی لوٹ آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ سیاسی مثلث (اسرائیلی صہیونیت، امریکی سامراجیت اور عربی آمریت) نے مشترکہ طور پر امت مسلمہ میں ایسے خفیہ اور آشکار منصوبوں پر کام کیا کہ جسے بقولِ حکیم الامت 
حکمتِ مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی 
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کرتا ہے گاز


یہی وجہ ہے کہ مشترکہ اساس سے پہلو تہی کرتے ہوئے قوم پرستی(nationalism)، مسلکی اور دیگر فروعی اختلافات پر مسلمان آپس میں دست گریبان ہوکر ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ یا بیرونی حملہ آوروں کی وحشت ناک صفاکی کی زد میں ہیں۔ اس کربناک صورتِ حال کو وجود میں لانے کا اولین مقصد یہی ہے کہ ان کا (مسلمانانِ جہاں) کا مشترکہ دشمن بے فکر ہوکر چین کی نیند سو سکے۔ واضح الفاظ میں یوں کہاں جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اسرائیل نے اپنی بقا کے میدانِ جنگ بلکہ بقولِ خرم مراد توسیع پسندی کے میدانِ جنگ کو کافی وسعت دی ہے۔ شام و عراق میں’’فساد فی سبیل اللہ‘‘ کا اصل ہدف بشار الاسد اور نوری المالکی کو اقتدار سے بے دخل کرنا نہیں ہے بلکہ مسلکی منافرت کو ہوا دے کر خانہ جنگی کے ماحول کو فروغ دینا ہے۔ تاکہ مسلم امہ میں ابھرنے والی مختلف مزاحمتی قوتیں اسرائیل کے بجائے ایک دوسرے کو ٹھکانے لگانے میں ہی اپنی پوری توانائی کو استعمال میں لائیں۔ شام میں جو خون آشام ہنگامہ کھڑا کیا گیا، اسکا مقصود ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر جمہوری طرزِ حکومت کا قیام ہوتا تو بات کسی حد تک قابل فہم اور قابل قبول تھی۔ لیکن بشار الاسد کا اصل قصور اس کی تانا شاہی نہیں ہے بلکہ اس کی صہیونی مخالف پالیسی ہے جس پر وہ ابتدا ہی سے کاربند ہے۔ 

واضع رہے پورے عالم عرب میں شام ہی وہ واحد ملک ہے جو حکومتی سطح پر حزب اللہ اور حماس جیسی اسرائیل مخالف مزاحمتی تحریکوں کی ہر ممکن مدد کرتا آیا ہے اور اسرائیل کے صف اول کے دشمنوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 2006ء اور 2008ء میں حزب اللہ اور حماس کی بالترتیب مقاومت، عسکری قوت اور مردانہ جرات نے صہیونیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کوئی ایسا محاذ کھولا جائے، جہاں اسرائیل کو اپنی بقا کی جنگ میں شامل ہوئے بغیر ہی اپنے دشمن پر وار کرنے کا موقع ملے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، دنیا بھر سے شدت پسندوں کو امریکہ برطانیہ، فرانس اور دیگر عرب ممالک کی بھرپور معاونت سے شام لایا گیا۔ حکمتِ عملی اور مقصد کا تعین اسرائیل نے کیا۔ اس جہاد کی امریکہ نے دل کھول کر قدمے، سخنے، درہمے حمایت کی۔ استعمار کے غلام حکمرانوں علی الخصوص قطر اور سعودی عریبیہ نے بے دریغ اپنے خزانے صہیونیت کے برپا کردہ جہاد پر لٹائے۔ نتیجتاً نہ صرف اسرائیل کا دیرینہ دشمن شام داخلی طور عدمِ استحکام کا شکار ہوا۔ اسطرح اسرائیل نے اپنی مکارانہ پالیسی سے عالمِ عرب کے ایک اکیلے خطرے کا رخ کسی اور جانب موڑ دیا۔ ظاہر ہے کہ شام میں باغیوں کو کچھ ایسے اقدامات اٹھانے کی پہلے سے ہی ہدایت دی گئی تھی، جسے حزب اللہ کو بھی اس تنازعہ میں ایک متحرک فریق کے طور کودنے کی تحریک مل گئی۔

بالفرض امریکہ اینڈ کمپنی کو مشرق وسطیٰ اور دیگر عرب ممالک بشمول شام میں جمہوری اقدار کی آبیاری مقصود ہوتی تو کنگ عبداللہ اور بشار الاسد کے مابین اس لحاظ سے کوئی تفاوت نہیں تھا، یہ بات قابل غور ہے کہ اگر حسن مبارک اور دیگر عرب حکمرانوں کی طرح شام کو بھی اسرائیل اور امریکہ کی غلامی تسلیم ہوتی تو کیا ایسی صورت میں بھی امریکہ اور اس کے حواریوں کی پشت پناہی میں مسلح بغاوت سر ابھارتی؟ تو کیا ایسی صورت میں بھی ان باغیوں کو جدید ترین آلاتِ حرب و ضرب اور منظم عسکری تربیت سے نوازا جاتا؟ اس سے بڑھ کر عالمی رائے عامہ کے ساتھ سیاسی مذاق اور کیا ہوسکتا ہے کہ جن قوتوں نے مل کر مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی کی جمہوری حکومت کو تاخت و تاراج کیا اور راتوں رات ہی اپنی پسند کا ڈکٹیٹر عبدالفتاح السیسی (جسے بجا طور پر حسنِ مبارک ثانی کہا جاسکتا ہے) کو تختِ شاہی پر بٹھایا گیا۔ یہاں بھی وہی تین عناصر اس گیم پلان کو عملانے میں سرگرمِ عمل دکھائی دیتے ہیں۔ یعنی صہیونی منصوبہ، امریکی حمایت اور آل سعود اور دیگر عرب ریاستوں کی مالی معاونت۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ عراق و شام میں بزعمِ خود اسلامی خلافت قائم کرنے والے دہشت پسند حلب، موصل اور تکریت میں صہیونی مفادات کی تکمیل کے لئے کوشاں ہیں، کیونکہ ان کی تمام تر سرگرمیوں سے اسرائیل کی سلامتی اور حفاظت اور اسلامی ممالک میں انتشار و افتراق مقصود ہے۔ اس حوالے سے امریکی خفیہ ادارے FBI اور سی آئی اے اور اسرائیل کی انٹیلجنس موساد اور دیگر پالیسی ساز اداروں کا شاطرانہ طرز عمل قابلِ داد ہے کہ یہ ادارے اپنے دشمنوں (مسلمانوں) میں سے ہی اپنے حامیوں کا انتخاب کرکے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ جس کی زندہ مثال موصل ؑ عراق میں خود کو خلیفۃ المسلمین کہنے والا ابو بکر البغدادی ہے۔ واضع رہے کہ اس اسرائیل میڈ خلیفہ کے متعلق امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق اور باغی اہلکار ایڈورڈ اسنوڈن کا انکشاف چشم کشا ہے کہ دولت اسلامی شام و عراق کا سربراہ ابوبکر البغدادی امریکہ اور اسرائیل کا ایجنٹ ہے اور اسے اسرائیل میں تربیت فراہم کی گئی۔ ایسے خلیفۃ المسلمین سے سوائے مسلم دشمنی کے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے، جس کا ریموٹ کنٹرول نیتن یاہو کے ہاتھ میں ہو۔ بقول علامہ اقبال 
ہو اگر قوتِ فرعون کی درپردہ مرید 
قوم کے حق میں ہے لعنت وہ کلیم اللہی!


اس لحاظ سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ صہیونی حکومت ایک ہی تیر سے ایک نہیں دو نہیں بلکہ کئی ایک شکار کرنا جانتی ہے اور اس ساری اتھل پتھل کا مقصد مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ 
1۔ مسلمانوں کے مابین ذیلی اختلافات کو ہوا دے کر انہی کے ہاتھوں ایک دوسرے کے گلے کٹوانا
2۔ اس قتل و غارت کو بنیاد بنا کر اسلام کے متعلق یہ پروپگنڈا کرنا کہ اسلام دینِ وحشت و دہشت ہے اور مسلمان خطرناک ترین دہشت گرد ہیں
3۔ امتِ مسلمہ میں ابھرنے والی مزاحمتی تحریکوں کا اصل ہدف تبدیل کرکے ان کی تمام تر قوت و صلاحیت کو آپسی اختلافات کی نذر کر دینا 
4۔ جملہ اسلامی ممالک علی الخصوص مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی، معاشی، فکری، علمی عدم استحکام کو فروغ دینا کیونکہ اسرائیل کا استحکام مشرقِ وسطیٰ اور دیگر اسلامی ممالک کے عدمِ استحکام پر موقوف ہے۔
5۔ آپسی مسلح جنگ و جدل سے جدید سائنٹیفک علوم کے ماحول اور اجتہادی بصیرت کا مکمل خاتمہ۔
6۔ سیاسی فیکٹریوں میں تیار کردہ اور نت نئے خود غرض لیڈروں کو پروجیکٹ کرنا، تاکہ ہمدرد، بے لوث اور آگاہ قیادت مسلم دنیا میں پنپنے نہ پائے۔
7۔ اپنے مسلح اور تربیت یافتہ ایجنٹوں کے ذریعے اسلام کے تصور جہاد کو بگاڑ کر پیش کرنا۔

مشرقِ وسطیٰ میں مسلم ممالک کو درپیش ملکی یا قومی سطح پر مختلف مشکلات اور خطرات کا آپس میں مربوط ہونا اس بات کا غماض ہے کہ پیچ در پیچ مشکلات و مصائب کی الجھی ہوئی گھتی کو سلجھانے کیلئے کوئی ایسی بنیادی گرہ ضرور ہوگی جو اگر امتِ مسلمہ کے ہاتھ لگ جائے تو باقی گرہیں اپنے آپ ہی کھلتی چلی جائیں گی۔ یقیناً یہ کلیدی گرہ مسئلہ فلسطین ہے۔ اسی تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ مصر و لبنان اور عراق و شام میں جو کچھ ہو رہا ہے۔ نیز جو دیگر کئی ممالک میں حالات مسلسل بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کا آشکار یا مخفی تعلق فلسطین کی مزاحمتی تحریک سے ہے۔ گویا مسئلہ فلسطین تمام عالم اسلام کے مرتبط مسائل میں سے مرکزی حیثیت کا حامل ہے اور مشرق وسطیٰ پر بدامنی کے بادل تب تک منڈلاتے رہیں گے، جب تک فلسطینوں کو آزادی کی فضا میں سانس لینے کا بنیادی حق نہ دیا جائے۔ اسرائیل اور اس کے حوالی موالی بھی اس لحاظ سے حقائق کا ادارک رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں صیہونی کم و بیش پورے مشرق وسطیٰ میں اپنے ابلیسی منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں، وہاں تحریک فلسطین کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے تمام تر ظالمانہ حربے استعمال کرتے آرہے ہیں۔ 

انہوں نے بھی گریٹر اسرائیل کے قیام میں یروشلم کو ہی مرکزی حیثیت دے رکھی ہے۔ آج کل مصر، عراق، شام اور علی الخصوص غزہ میں جو درندگی اور بربریت کا مظاہرہ عروج پر ہے، یہ دراصل اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ غزہ ایک عرصے سے انسانی بحران سے دوچار ہے۔ ڈیڑھ ملین نفوس پر مشتمل ایک انسانی آبادی کھلی قید میں مقید ہے۔ بنیادی سہولیات مفقود ہیں۔ باقی دنیا سے ارتباطی راہیں مسدود ہیں۔ بے سروسامانی کے عالم میں اہلیانِ غزہ زندگی کا ایک ایک لمحہ گراں ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وقتاً فوقتاً ظالم اسرائیل غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر آتش و آہن کی بارش برساتا ہے۔ اس وقت ایک مرتبہ پھر اسرائیل غزہ پر حملہ آور ہے۔ اسرائیل بمباری سے جو دردناک مناظر ابھر کے سامنے آرہے ہیں، ان مناظر کو الفاظ کے ذریعے پیش کرنے سے ہر قلم قاصر ہے۔ کیمرے کی آنکھ تو ان مناظر کو محفوظ کرسکتی ہے لیکن ان مناظر کے پس منظر میں جو درد و کرب پنہاں ہے اس کو من و عن منتقل کرنا ہرگز ممکن نہیں۔ تادم تحریر ساڑھے سترہ سو سے زائد مظلوم فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ جن میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہیں۔
 
اگر واقعاً دنیا میں انسانی ہمدردی کا کہیں پر نام و نشاں ہوتا تو ننھے ننھے معصوم بچوں کے جلے بھنے جسموں کا محض ایک ہی منظر کافی تھا کہ جسے عالمِ انسانیت میں غم و غصے کی ایک لہر اٹھ کر طوفان برپا کر دیتی۔ لیکن انسانی ہمدردی کا جذبہ کب کا فوت ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے عالمِ انسانیت کے صاحبانِ حل و عقد لب بستہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ عالم عرب پر اس حوالے سے قبرستان کی سی خاموشی طاری ہے۔ عرب آمروں پر مشتمل ’’دزدانِ کفن‘‘ کی ایک ’’انجمن یعنی عرب لیگ‘‘ کا کردار کچھ زیادہ ہی افسوس ناک ہے۔ فرنگ کی طرح اس انجمن کی رگِ جاں بھی پنجہ یہود میں ہے۔ صیہونیت کو عرب لیگ کی خدمات حاصل ہیں۔ اپنے شیطانی منصوبوں کے عمل درآمد کے سلسلے میں جہاں کہیں بھی اسرائیل کے ہاتھ چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔ عرب آمروں کے لمبے اور موٹے تازے ہاتھ بڑھ کر اس کا کام انجام دیتے ہیں۔
 
2006ء میں حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کی ناک خاک پر رگڑی۔ نتیجتاً عالمی استکبار کے ساتھ ساتھ صیہونیت کا نشۂ قوت کافور ہوگیا۔ یہاں تک اسرائیلی آرمی چیف جنرل ڈین ہاٹز کو شکست کے اعتراف میں اپنے عہدے سے استعفٰی دینا پڑا۔ بعد اذاں حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے عرب رہنماوں سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ ہمیں یعنی حزب اللہ کو اپنی حمایت سے نواز نہیں سکتے تو کم از کم حزب اللہ کے ہدف کی راہ میں مزاحم بھی نہ ہوجائیں۔ اسرائیل اور اس کے تمام حواریوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے تنہا حزب اللہ کافی ہے۔ مگر صیہونی درندوں کے بجائے عالمی طاغوت کے ان غلاموں کی آنکھوں میں حزب اللہ اور حماس جیسی مزاحمتی تنظییں کھٹکتی ہیں۔ غزہ میں حالیہ کشت و خوں کے سلسلے میں عالمِ عرب کی خاموشی پر ہر ذی حس انسان نالاں ہے۔ اگر یہ خاموش ہوتے تو ان کی خاموشی بھی غنیمت تھی، لیکن یہ حزب اللہ اور حماس کی دشمنی میں اسرائیل کے متحرک حامی (active supporter) ہیں۔

بہرحال امریکی جائنٹ چیفس آف اسٹاف ایک خفیہ رپورٹ زیر نما 1948/11 مورخہ 31 مارچ 1948ءکے مطابق عظیم اسرائیل کا جو خاکہ تیار ہوا تھا اس پر اسرائیلی صیہونیت اور عالمی سامراجیت مرحلہ وار عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں عرب کی آمریت اپنے آقاوں کے مقاصد کی آبیاری میں مشغول ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جس شجرِ ملعونہ (گریٹر اسرائیل) کی عرب حکمران آبیاری کر رہے ہیں۔ اسکے مہیب سائے ان کے شاہی محلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیں گے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق گریٹر اسرائیل کے چند ایک درج ذیل اہداف مقرر ہوئے ہیں۔
1۔ ابتدا میں فلسطین کے ایک حصے پر یہودی اقتدار
2۔ پھر فلسطین میں یہودیوں کا غیر محدود داخلہ (جو اب تک جاری ہے)
3۔ پھر، پورے فلسطین پر یہودی اقتدار کی توسیع
4۔ اسکے بعد اردن، لبنان، شام (بلکہ اس کے آگے) ارضِ اسرائیل کی توسیع
5۔ پھر، پورے شرقِ اوسط پر اسرائیل کو فوجی، سیاسی اور معاشی تسلط۔ (بحوالہ مغرب اور عالم اسلام۔۔۔ ایک مطالعہ۔۔ از خرم مراد)

1948ء میں قیام اسرائیل سے بیشتر جو اہداف متذکرہ بالا رپورٹ کے مطابق صیہونیوں کے پیش نظر تھے، ان میں سے بیشتر اہداف کی حصولیابی میں اسرائیل کامیاب ہوا ہے، اور دیگر اہداف کی جانب بڑی سرعت کے ساتھ گامزن ہے۔ اس کی توسیع پسندانہ عزائم کسی خاص منزل پر پہنچ کر اطمینان کی سانس نہیں لیتے، بلکہ مقررہ ہدف کے بعد ایک نیا ہدف طے پاتا ہے۔ اس تناظر میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ قبلہ اول پر قابض اسرائیل کی نظر میں مسلمانوں کے موجودہ قبلہ پر ہیں اور وہ اسی فراق میں ہے کہ کب اس کے پنجہ ناپاک حرم پاک کی غلاف تک پہنچیں۔ اے کاش خادمین حرمینِ شریفین کو اسرائیل کے آئندہ منصوبوں کا ادراک ہو تو انہیں غزہ میں حماس اور جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے جیالے حرم کعبہ کے محافظ نظر آئیں گے۔ اس لحاظ سے غزہ کے معصوم بچے حضرت اسماعیل کی رسمِ نبھاتے ہوئے حرمِ کعبہ پر قربان ہو رہے ہیں اور وہاں کے والدین حضرت ابراہیم و حاجرہ پر عمل پیرا ہوکر تقدیسِ بیت المقدس اور حرمتِ کعبہ کیلئے لاڈلوں کو بہ رضا و رغبت قربان گاہ میں پیش کر رہے ہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اسرائیل کی میلی آنکھ اگر حرم پاک پر ہے تو عالمِ اسلام کو اپنے تمام مسائل کے حل کی خاطر آزادی قدس کو اپنی توجہ کا مرکز بنانا ہوگا اور ان تمام سازشوں سے آگاہ رہنا ہوگا، جن سے صیہونیت نے عالمِ اسلام کو قوم پرستی، نسل پرستی اور مسلکی منافرت کے مختلف سرد خانوں میں جامد اشیاء کی طرح رکھا ہے۔
خبر کا کوڈ : 403277
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش