0
Tuesday 29 Apr 2014 21:40
نریندر مودی کی لہر بتاتی ہے کہ بھارت بھر میں مسلم دشمن ذہنیت کس قدر حاوی ہے

بھارت کشمیر میں اپنے قبضے کو طول بخشنے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے آزما رہا ہے، خرم پرویز

مذاکرات اسلئے ہونے چاہیئیں کہ بھارت کب اور کیسے کشمیر سے اپنا قبضہ ختم کرے
بھارت کشمیر میں اپنے قبضے کو طول بخشنے کیلئے طرح طرح کے ہتھکنڈے آزما رہا ہے، خرم پرویز
خرم پرویز کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سرینگر سے ہے، آپ جموں و کشمیر کولیشن آف سیول سوسائٹیز کے اہم و سینئر کارکن ہیں کہ جو ادارہ ہیومن رائٹس کی پاسداری کے لئے ایکٹیو ہے، کولیشن آف سول سوسائٹیز کے زیر نظارت ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈسپیئر پرسنز فعال ہے جو جموں و کشمیر میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کام کرتا ہے، اس کے علاوہ پبلک کمیشن آن ہیومن رائٹس بھی فعال ہے جو 1994ء سے ڈیلی بیسز ہیومن رایٹس وؤیلیشن ڈاکومنٹری پر کام کرتا ہے، مختلف اضلاع میں ریجنل گروپس کے علاوہ ایک ماہنامہ بھی نکلتا ہے جس میں گاہے بگاہے کشمیر کے حوالے سے مختلف رپورٹس منظر عام پر آتی ہیں، کولیشن آف سیول سوسائٹیز کا اہم کام جموں و کشمیر کے گمشدہ افراد، متاثرین اور گمنام قبروں کے حوالے سے کیسز مرتب کرنا اور انہیں پھر عدالت میں لڑنا، خرم پرویز اپنی ابتدائی حیات سے اس ہیومن رائٹس گروپ سے وابستہ ہیں، اسلام ٹائمز نے آپ سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کولیشن آف سیول سوسائٹیز کے زیراہتمام آپ کی فعالیت اور کارنامے کیا رہے ہیں اور کشمیر بھر میں آپ نے انسانی حقوق کی پائمالی کے حوالے سے کیا کچھ دیکھا اور سہا۔؟

خرم پرویز: ہیومن رائٹس وؤلیشن کے خلاف ہم جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ہم ہومن رائٹس کا اہم ایشو جموں و کشمیر کی حقِ خودارادیت کو مانتے ہیں، مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کشمیری عوام کی جو عام رائے ہے وہ قبول کی جائے، ہم نے گمنام قبروں کی نشاندہی پر کام کیا ہے اور مختلف رپورٹس منظر عام پر لائی ہیں، ہم نے بارہمولہ، کپواڑہ، بانڈی پورہ، پونچھ اور راجوری میں گمنام قبروں کے حوالے سے کام کیا ہے اور رپورٹس مرتب کرکے منظر عام پر لائیں ہیں، کیسز بھی درج کئے، ہم نے 7000 گمنام قبریں دریافت بھی کی ہیں، اور کیس اسٹیٹ کمیشن ہیومن رائٹس میں چل رہے ہیں، ہماری کاوشوں سے اسٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن نے 2000 گمنام قبروں کو تسلیم بھی کیا، حکومت اب تسلیم کرتی ہے کہ یہاں اجتماعی قبریں اور گمنام قبریں موجود ہیں، اسکے علاوہ ہم یہاں فرضی انکاؤنٹر کی تحقیقات پر بھی کام کرتے ہیں، ہم نے بارہا دنیا کے سامنے اپنی رپورٹس، ویڈیو اور تحریریں پیش کی ہیں۔

ہم نے دیکھا ہے کہ پچھلے 23 سال میں ہزاروں ہیومن رائٹس وؤلیشن کے کیسز سامنے آئے ہیں لیکن ایک بھی کیس میں ملزموں اور گناہگاروں کو سزا نہیں ملی، ہم نے حکومت کی تمام رپورٹس چھان ماریں کہ کسی کیس میں کسی کو سزا ملی ہو لیکن ہمیں ایسا دیکھنے کو نہیں ملا، کشمیر کی تاریخ میں کبھی بھی کسی قابض فوج و
فورسز کو سزا نہیں ملی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں جو بھی واقعہ پیش آتا ہے اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اس کی پشت پناہی و سرپرستی بھارت کر رہا ہے، اور بھارتی عدلیہ تمام مظالم میں برابر شریک ہے یہاں جو بھی ہوتا ہے اس کا ذمہ دار صرف ایک پولیس والا یا فورسز نہیں ہوتی ہیں بلکہ یہ تمام مظالم ہندوستان کی آئینی پالیسی کے مطابق ہوتے ہیں، بھارتی آئین کے تحت یہاں لوگوں کو مارا جا رہا ہے، خواتین کی عصمتیں لوٹی جاتی ہیں، لوگ لاپتہ ہوئے، جگہ جگہ پر گمنام قبریں موجود ہیں، یہی کچھ بھارتی آئین کی زندہ مثالیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: سیاسی میدان سے دور رہ کر آپ سیول سوسائٹی سے وابستہ ہیں، جموں و کشمیر میں کولیشن آف سیول سوسائٹیز کے قیام کا بنیادی مقصد کیا رہا ہے۔؟

خرم پرویز: یہاں سیول سوسائٹی کے قیام کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ایک طبقہ یہاں پر سیاست سے خود کو دور رکھنا چاہتا ہے اور سیاست سے مطمئن نظر نہیں آ رہا ہے، سیاسی پارٹیوں سے دور رہ کر کام کرنے والے اس طبقے کے لئے سیول سوسائٹی کا پلیٹ فارم عمل میں لایا گیا، اور کشمیر مسئلہ کے لئے فقط سیاسی پارٹیاں کام نہیں کرسکتی ہیں، اسلئے ہم نے تمام میدانی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے نوجوانوں کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا، سیول سوسائٹی کے تحت یہاں کے تمام نوجوان اپنا مثالی کردار ادا کر سکتے ہیں اور کشمیر کے لئے کام کرکے اپنے حصے کا تعاون دے سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بھارت کے ساتھ کشمیر مسئلہ کو لے کر مذاکرات و بات چیت پر آپ کا ردعمل کیا ہے۔؟
خرم پرویز: کشمیر قابض فورسز کے جبری قبضے میں ہے، یہاں کے بعض لوگ خاص کر صحافی و قلمکار حضرات کشمیر کو متنازعہ خطہ لکھتے ہیں لیکن ہم اس لفظ سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں، یہ متوسط و نِیوٹرل لفظ ہے جو بعض لوگ استعمال کرتے ہیں لیکن مشکل وقت میں نیوٹرل رہنا مجرمانہ حرکت ہوتی ہے، ہم سچ کے قائل ہیں اور نیوٹرل نہیں رہنا چاہتے ہیں، کشمیر متنازعہ نہیں، متنازعہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی چیز یا علاقہ دو فریقوں کے درمیان تنازعہ کا شکار ہے، ہمارا ماننا ہے کہ کشمیر پر بھارت قابض و مسلط ہے، اس مسئلہ پر بات چیت کیسی؟ بھارت کو کشمیر سے نکلنا ہے اس میں بات چیت کس لئے، بھارت ہمارے گھر میں، ہماری زمین پر قابض ہے اور اسے یہ قبضہ بنا طول دیئے، بنا بات چیت میں الجھائے چھوڑنا ہوگا، ہم چاہتے ہیں کہ اسی فکر کو ترویج ملے اور صحافی و قلمکار حضرات بھی یہی الفاظ استعمال کریں، کشمیر اس طرح کا متنازعہ نہیں ہے کہ بھارت کا ایک نظریہ ہے، پاکستان کا ایک نظریہ ہے اور خود کشمیر کا الگ نظریہ
بلکہ بھارت یہاں پر قابض ہے جس کو یہاں سے نکلنا ہی ہوگا، اب بات چیت اور مذاکرات کا مقصد ابھی تک جو رہا ہے کہ بھارت کو ہم اپنے مسائل اور اپنی بات انکے سامنے رکھیں اور وہ اپنی بات ہمیں بتائیں بلکہ مذاکرات کا ہدف صرف یہ ہونا چاہیئے اور مذاکرات اسلئے ہونے چاہیئے کہ بھارت کب اور کیسے کشمیر سے اپنا قبضہ ختم کرے، اس ہدف کو لیکر ابھی تک کسی لیڈر نے نہ بات چیت کی ہے اور نہ بھارت اس ہدف کو لیکر مذاکرات کو قبول کرنے والا ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلح جدوجہد کے دوران اور اس کے بعد بھارت کے کشمیریوں پر مظالم کو آپ کس طرح بیان کریں گے۔؟

خرم پرویز: جدوجہد آزادی کشمیر مسلح جدوجہد سے پہلے بھی زندہ تھی، جب مسلح جدوجہد میں نوجوان کود پڑے تو بھارت کے مظالم، ظلم و ستم بھی عروج پر تھا، بھارت نے وہ سب مظالم کشمیریوں پر ڈھائے جو ڈکشنری میں موجود ہی نہ تھے، ہمارے ملک میں بہت ساری چیزیں انجام پائیں جو دیگر کسی بھی ملک میں دیکھنے یا سننے کو نہیں ملیں، ظلم کی کوئی ایسی کہانی نہیں ہے جو یہاں انجام نہ دی گئی ہو، 7 ہزار خواتین کی عصمت دری کی گئی، 8 ہزار سے زائد افراد پچھلے 23 سالوں میں لاپتہ ہوئے، ہزاروں افراد کو فرضی انکاؤنٹر میں مارا گیا، 2 لاکھ سے زیادہ افراد کو ٹارچر کا شکار کیا گیا، ٹارچر کی یہاں پر بات ہوتی ہے نہ کہیں ٹارچر رپورٹ ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگ جنہیں صرف ٹارچر کرکے چھوڑا گیا وہ اپنے آپ کو خوش نصیب تصور کرتے ہیں کہ جان چھوٹی، ہزاروں گھر دھماکوں سے اڑائے گئے یا پھر آگ لگا دی گئی صرف اس وجہ سے کہ انکے بیٹے مسلح جدوجہد سے وابستہ تھے، ہمارے بزرگوں کی داڑھی نوچی گئی ان پر تھوکا گیا، کچھ ایسے مظالم بھارت نے ہم پر ڈھائے اور یہ سلسلہ 23 سال بعد بھی ابھی تک تھما نہیں ہے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے، آج بھی کوہ و بیابانوں میں لاشیں برآمد ہوتی ہیں، اور نامعلوم افراد کی لاش ملی کہہ کر بات کو ٹال دینے کی کوششیں کی جاتی ہیں لیکن آستین کا لہو بول اٹھتا ہے۔

کشمیری عوام بہت حساس ہیں اگر کوئی ہلاکت ہوتی ہے تو عام لوگ سڑکوں پر اتر آتے ہیں، 2008ء اور 2010ء میں لوگوں کی انقلابی لہر کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھارت اب کھلے عام یہاں قتل و غارت سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے، 2008ء اور 2010ء کی پرامن تحریک نے ہمیں بہت بڑی کامیابی دی ہے، کشمیری قوم کے سڑکوں پر آنے سے کسی حد تک قتل و غارت تھم سی گئی ہے، یہ بڑی کامیابی ہے، یہ کامیابی کب تک بھارتی مظالم کو روکے رکھے گی دیکھنا باقی ہے، لیکن ہلاکتوں کے سوا باقی سب کچھ ویسے کا ویسا باقی ہے، اب بھی ہزاروں نوجوان قیدیوں کے ساتھ زبردست مظالم جاری ہیں، اب بھی بھارت
کشمیریوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر ناکارہ کر دیتا ہے، اور اب بھی خواتین کی عصمت دری عام سی بات ہے، اب بھی کشمیریوں کو جیلوں میں رکھ کر انکی غذا ان کے جسموں کے اجزاء ہوا کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: صحافی و قلمکار شہید آسیہ جیلانی کہ جس کی ابھی دسویں برسی منائی گئی، کی روداد کیا تھی، آپ انکی شہادت کے عینی شاہد ہیں کس طرح یہ خونین واقعہ پیش آیا۔؟

خرم پرویز: آسیہ جیلانی ماس کام کی ڈگری یافتہ تھیں، ٹائمز آف انڈیا میں انہیں اچھی جاب مل سکتی تھی لیکن دہلی میں رہ کر وہ اپنی سوچ کی ترویج نہیں کرسکتی تھیں، کشمیر کاز کے لئے وہ کام کرنے میں دلچسپی رکھتی تھیں، دہلی سے گھر واپس آگئیں ہم اس وقت یہاں فعال تھے، وہ ہمارے ساتھ ملحق ہو گئیں اور بہت فعال کردار ادا کرتی رہیں، وہ اپنے ذاتی امور پر کشمیر کو ترجیح دیتی تھیں، بیمار ہوتی تھیں تو بھی کام پر آتی تھیں، کشمیر مسئلہ کو لیکر کبھی کوئی کمپرومائز نہیں کیا، انکی کوشش تھی کہ وائس لیس کشمیر کو آواز دی جائے اور دنیا تک کشمیریوں کی آواز کو پہنچایا جائے، انکا ایک رسالہ ’’وائس آف انہیڈ‘‘ یہاں سے نکلتا تھا جس میں وہ خواتین کے حقوق کے بارے میں لکھتی تھیں، مختلف کانفرنس میں بھی انہوں نے کشمیر کاز کی نمائندگی کی، کشمیر کے گاؤں گاؤں گئی، اور مختلف رپورٹس مرتب کیں، انکی اہم کوشش تھی کہ خواتین اپنے حقوق کے لئے خود لڑیں، 2000ء میں ہم نے ایک رپورٹ مرتب کی اور لکھا کہ بھارت نے اس الیکشن میں لوگوں سے زبردستی ووٹ حاصل کئے، ان الیکشنوں کو ہم نے کامیابی کے ساتھ بےنقاب کیا تھا، 2004ء میں پھر سے بھارت کے پارلیمانی الیکشن ہوئے ہماری ٹیم نے پھر سے مانیٹرنگ کرنا شروع کی، مانیٹرنگ کے دوران ہم کپواڑہ کے ایک چندی گاؤں لولاب میں رپورٹ کر رہے تھے، وہاں ایک اسکول تھا جہاں ایسے بچے ووٹ دے رہے تھے کہ جن کا ووٹ ہی نہ تھا، کچھ ووٹ دینے والے ہم سے کہتے تھے کہ فوج نے ان سے کہا کہ انگلی پر ووٹ ڈالنے کا نشان ہونا چاہیئے، نہیں تو ہم انگلی کاٹ دیں گے، یہ باتیں ہم نے سنیں تو آسیہ کا دل بہت دکھی ہوگیا، آسیہ جیلانی نے خواتین کو ووٹ ڈالتے ہوئے دیکھا تھا تو ان سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ آپ ووٹ ڈال کر اپنے ہی خلاف مظام ڈھا رہے ہو، اسکے بعد آسیہ جیلانی گاڑی میں آئیں، مجھ سے کہنے لگیں کہ میرا دل پریشان ہوگیا کہ یہ خواتین بھی ووٹ دے رہی ہیں جن پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹ گئے ہیں، کہنے لگیں کہ جشن کا سماں ہے اور یہ جشن ان خواتین کی تباہی کا جشن ہے، ہم گاڑی میں بیٹھے اور چل پڑے، چھے سے سات منٹ کی مصافت طے کرنے کے بعد ایک زوردار دھماکہ ہوا، جس میں گاڑی
کا ڈائیور موقعہ پر ہی جاں بحق ہوگیا، آسیہ جیلانی شدید زخمی ہوئیں اور مجھے بھی سخت چوٹیں آئیں، ہم جوں ہی گاڑی سے باہر نکالے گئے ہم نے اپنے آس پاس قابض فورسز کو پایا، ہسپتال پہنچتے پینچتے آسیہ جیلانی دم توڑ گئیں، ہمارے قافلے پر ہوئے اس حملے کو چھپانے کے لئے فوج نے مزید 5 لوگوں کو ہلاک کیا۔

اسلام ٹائمز: بھارتی پارلیمانی الیکشن کے ایام چل رہے ہیں، جموں و کشمیر میں الیکشن کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، کیا کشمیریوں کو ان الیکشنوں میں حصہ لینا چاہیئے، اور کیا فائدہ ہے ان انتخابات کا۔؟

خرم پرویز: الیکشن کے نام پر ہمیں دھوکہ دیا جاتا ہے، ترقی کے نام پر ہمارا استحصال کیا جاتا ہے، کشمیریوں کو ابھی تک ایک گلاس پینے کا صاف پانی تک مہیا نہیں کیا جا رہا ہے، ترقی و پیشرفت تو دور کی بات ہے، ہمیں کھلی فضا میں جینے کا حق نہیں دیا جا رہا ہے، یہ ہے بھارت کی جمہوریت اور برابری و مساوات، پچھلے 67 سالوں میں ہماری زمیںیں تنگ سے تنگ ہوتی جا رہی ہیں جو قابض فورسز کے زیر قبضہ ہیں، رہائشی علاقے فوج کے قبضے میں ہیں، بھارتی فوج کی موجودگی سے ہمارا سانس لینا مشکل ہو گیا ہے اور ہمارا جینا دشوار، مظالم تو اپنی جگہ صرف انکی یہاں موجودگی ہمارے لئے بڑی مصیبت، ہمارے جنگل بھی ختم کئے جا رہے ہیں اور ماحول بگاڑ میں بھارت بلاواسطہ ذمہ دار ہے۔ پچھلے 67 سالوں میں ایک بھی قانون یہاں کی اسمبلی پاس نہیں کرا پائی، ایک چھوٹے سے چھوٹا قانون بھی ہم اپنی اسملبی میں پاس نہیں کرا سکتے، یہ ہے ہماری عزت اور ہماری اسمبلی کا مقام اور الیکش میں حصہ لینے کا فائدہ، اس اسمبلی کا ایک بھی قانون ایک بھی قرارداد کشمیریوں کے حق میں نہیں ہے، افضل گورو کی شہادت پر بھی بات نہیں کرنے دی، پھانسی کو بھی اسمبلی روکنے سے رہی، بھارت کی زیر نظارت یہ اسمبلی ہمارے لئے کوئی وقعت، کوئی حیثیت، کوئی مقام ہرگز نہیں رکھتی، ہمیں اللہ تبارک تعالی پر مکمل بھروسہ رکھکر بھارتی الیکشن سے دور رہنا چاہیئے، اسی میں ہماری بھلائی ہے۔

اسلام ٹائمز: سیول سوسائٹی اور آپ کی دیگر کاوشوں کو کس حد تک بھارت میں سراہا جا رہا ہے۔؟

خرم پرویز: یو این او، ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاوہ دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ہمیں سراہا ہے اور ہماری معاونت کی ہے، بھارتی عوام میں بھی بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو ہماری آواز سے متفق ہیں، ہمارے دکھ درد کو سمجھتے ہیں میں تقریباً بھارت کے تمام شہروں میں گیا ہوں اور کوئی نہ کوئی سیمینار یا پروگرام اٹینڈ کیا ہے، میں نے بعض لوگوں میں مثبت رجحان کشمیر کے تئیں دیکھا لیکن بھارتی عوام
نریندر مودی کہ جس کے بارے میں صاف ظاہر ہے کہ وہ ایک قاتل ہے کو ووٹ دے رہی ہے، اور کہا جاتا ہے کہ بھارت بھر میں مودی کی لہر ہے اور شاید ہے بھی، اس مودی لہر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے عام لوگوں میں کس شخص کی پذیرائی ہو رہی ہے، بھارت بھر میں انتہا پسندی، تفرقہ بازی اور قتل و غارت کی پذیرائی ہو رہی ہے، ہندوستان انتہا پسند اب بھی یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ہندو بستیوں سے مسلمانوں کو الگ کیا جائے، کھلے عام کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری قرار دیا جائے، بھارت کی اکثریت مسلم دشمن ہے، بھارتی عوام کی ذہنیت وہی ہے جو مودی کی ذہنیت ہے، مودی اکیلا قاتل نہیں ہے، مودی کے ساتھ وہ سب ہیں جو مودی کو ووٹ دے رہے ہیں، مودی کی حمایت سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہندوستان میں کام کرنا کتنا مشکل ہے، ایسے بھارت میں کام کرنا بہت مشکل ہے اور کشمیر کے مسئلہ پر کام کرنا اور بھی سخت ہے، اکثریت کو چھوڑ کر بہت کم افراد ہماری سوچ، ہمارے مشن سے متفق ہیں، وہ بہت کم ہمارے پروگرامز میں آتے ہیں ہم انکے پروگرامز میں جاتے ہیں لیکن ہندوستان کی ایک بڑی آبادی میں وہ بہت کم تعداد گنتی میں شمار نہیں ہوتے، بھارت بھر میں مسلم دشمن ذہنیت حاوی ہے، وہ ذہینیت بہت گہری ہے اور اس سے گہری دشمنی پاکستان مخالف ہے اور اس سے بھی گہری دشمنی بھارتی عوام کی کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ہے، اب ہم کشمیری مسلمان ہیں جو آزادی کے لئے برسر جدوجہد ہیں تو بھارت میں ہماری پذیرائی کیسے ممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: مقبوضہ کشمیر میں مقامی و بیرونی عسکری تنظیموں کو کس قدر پذیرائی حاصل ہے۔؟

خرم پرویز: جبری تسلط کے لئے عوام میں خوف و ہراس کو برقرار رکھنا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح بھارت کشمیر میں اپنے قبضے کو طول بخشنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے آزما رہا ہے، جموں و کشمیر کی تحریک آزادی عوامی تحریک ہے اور عام لوگ اور ہر فرد اسکو جان و مال سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، مجاہدین کے لئے ہم جگہ دیتے ہیں، اپنا ٹھکانہ دیتے ہیں، اور عذاب و عتاب کے شکار بھی ہوتے ہیں لیکن مجاہدین کی معاونت سے باز نہیں رہتے، یہاں کی مقامی عسکری تنظیموں کو دن بہ دن تقویت ملتی رہی ہے لیکن مجھے نہیں لگتا ہے کہ بیرون ملک کی عسکری تنظیموں کو یہاں سراہا جائے گا، جب کوئی عسکری پسند شہید ہوتا ہے تو اسکی نماز جنازہ میں ہزاروں کی تعداد میں شرکت خود بتاتی ہے کہ یہاں کے لوگوں میں تحریک آزادی سے وابستگی کس حد تک گہری ہے، میرا ماننا ہے کہ کشمیر کی تحریک آزادی پرامن رہنی چاہیئے لیکن اگر طریقہ کار مختلف بھی ہوں ہم سب کا مقصد و منزل ایک ہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 376901
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش