0
Monday 22 Nov 2010 15:19

نیٹو کا 2014ء تک افغانستان سے انخلاء کا اعلان اور امریکی نیت کا فتور

نیٹو کا 2014ء تک افغانستان سے انخلاء کا اعلان اور امریکی نیت کا فتور
خطہ میں اسلامک بلاک قائم کرنے کا یہی نادر وقت ہے...
نیٹو ممالک نے افغانستان میں 2014ء تک آپریشن مکمل کر کے وہاں سے فوجی انخلاء کی توثیق کر دی ہے اور انخلاء کے منصوبے پر دستخط کر دئیے ہیں۔اس سلسلہ میں لزبن (پرتگال) میں افغانستان کے مسئلہ پر منعقدہ نیٹو سربراہوں کے اجلاس میں افغانستان کے فرنٹ لائن محاذ سے 2011ء کے اوائل میں فوجی دستوں کے انخلاء کا آغاز کرنے کے منصوبہ کی بھی منظوری دی گئی۔اجلاس میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل فوگ راسموسن نے باور کرایا کہ طالبان افغانستان پر دوبارہ قبضے کا خواب بھُلا دیں۔ان کے بقول افغانستان میں اب القاعدہ کے محفوظ ٹھکانے نہیں رہے،تاہم نیٹو کے افغانستان سے انخلاء کے باوجود اس کا افغان فورسز کے ساتھ تعاون جاری رہے گا۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اجلاس میں خطاب کے دوران اعلان کیا کہ ایساف اور افغان حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھا جائے گا۔ 
دوسری جانب طالبان نے باور کرایا ہے کہ نیٹو کو افغانستان میں شکست نظر آ رہی ہے اور 9 سال سے جاری قبضے کے بعد نیٹو فورسز کو احساس ہو گیا ہے کہ ان کا بھی وہی حشر ہو گا جیسے افغان دھرتی پر پہلے حملہ آوروں کا ہوتا رہا ہے۔طالبان ترجمان کے بقول نیٹو فورسز کے پراپیگنڈے سمیت تمام ہتھیار ناکام ہو گئے ہیں۔دوسرے الفاظ میں نیٹو اور امریکہ بھی اب افغانستان بھلانے کی کوشش کریں۔
امریکہ کی بش انتظامیہ نے 9 سال قبل 11 ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر فضائی حملوں کے خودساختہ واقعہ کے بعد مسلم امہ کے خاتمہ کے صہیونی جنونی عزائم رکھنے والے اپنے اتحادی ممالک کو ساتھ ملا کر نیٹو کے پلیٹ فارم پر عراق اور افغانستان کی سرزمین پر جس وحشت و بربریت کا ارتکاب کیا اور لاکھوں بے گناہ مسلمانوں بشمول بچوں اور خواتین کو خون میں نہلایا اور ہنستی بستی انسانی دھرتی کو ’’تورا بورا‘‘ بنانے کی ضرب المثل قائم کی اس کے بارے میں بش اپنی خودنوشت میں بھی اور مختلف تقاریب میں خطاب کے دوران بھی خود اعتراف کر رہے ہیں کہ ان سے غلطی سرزد ہوئی تھی اور بالخصوص عراق میں جن کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کی اطلاع پر انہوں نے فوجی چڑھائی کی تھی وہ عراق کی سرزمین سے دستیاب ہی نہیں ہوئے۔
وہ یقیناً کسی موقع پر یہ اعتراف کرنے پر بھی مجبور ہوں گے کہ نائن الیون کے واقعہ سے افغانستان کی طالبان حکومت کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نیٹو کی عراق،افغان جنگ کے بارے میں مرتب ہونے والی تاریخ کے اوراق یقیناً اس حقیقت کی گواہی بھی دیں گے کہ نائن الیون کا واقعہ متعصب یہودیوں کا اپنا ساختہ تھا،جس کا مقصد مسلم امہ کے خلاف کروسیڈ جنگ شروع کرانے کا تھا۔بش تو اپنی زبان سے اس کروسیڈ کا اعتراف کر بھی چکے ہیں جبکہ نیٹو سربراہ اجلاس کے موقع پر افغانستان اور عراق میں نیٹو مظالم کے خلاف پرتگال میں مسلسل دو روز تک جاری رہنے والے ہزاروں افراد کے احتجاج کو بھی مورخ نظرانداز نہیں کر سکے گا۔یہ مظاہرین جن میں مسلمان ہی نہیں،دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل تھے،نیٹو کو آئینہ دکھا رہے تھے کہ افغانستان اور عراق میں فوجی کارروائی کر کے وہاں کے عوام کو جرم بے گناہی کی سزا دی گئی ہے۔مظاہرین ’’نیٹو نہیں،امن چاہئے‘‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے اور اسی تناظر میں اجلاس میں شریک نیٹو کے بیشتر رکن ممالک کی جانب سے افغانستان سے انخلاء کی ڈیڈ لائن کے بارے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نیت پر شک و شبہ اور اپنے اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا گیا۔
بے شک امریکی اوبامہ انتظامیہ نے پاکستان اور افغانستان کے بارے میں امریکی پالیسی پر نظرثانی کرتے وقت افغانستان سے انخلاء کے لئے 2014ء کی ڈیڈ لائن خود مقرر کی تھی اور 2011ء کے اوائل میں انخلاء کا آغاز کرنے کا اعلان کیا تھا مگر امریکی صدر اوبامہ نے اپنے ہفتہ وار ریڈیو انٹرویو میں یہ اعلان کر کے لزبن اجلاس کے توثیق شدہ انخلا کے منصوبے کو بے وقعت بنا دیا ہے کہ جب تک القاعدہ امریکہ کے لئے خطرہ بنی رہے گی،افغانستان میں امریکی افواج موجود رہیں گی۔ 2014ء میں امریکی فوج کے افغانستان سے انخلاء کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا انہوں نے یہ جواب دے کر بھی لزبن کانفرنس کی حقیقت واضح کر دی کہ جب 2014ء آئے گا تو پھر دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔
یقیناً اسی تناظر میں امریکی انتظامیہ کے ایک سینئر اہلکار نے لزبن کانفرنس کے موقع پر اخبار نویسوں کے روبرو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ انکشاف کیا کہ امریکہ 2014ء میں افغانستان میں اپنا فوجی مشن ختم نہیں کر رہا۔ان کے بقول 2014ء سے قبل یہ اندازہ لگانا قبل از وقت ہو گا کیونکہ سکیورٹی اور وسائل کا صحیح اندازہ وقت آنے پر ہی لگایا جا سکتا ہے۔اسی طرح اوبامہ انتظامیہ کے ایک دوسرے اہلکار نے بھی واضح کیا ہے کہ امریکہ 2014ء کے بعد افغانستان میں لڑاکا مشن بند کرنے کی کوئی کمٹمنٹ نہیں کر رہا جبکہ وائٹ ہائوس کا کہنا ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں ابھی شدید قسم کی جنگ کی توقع ہے۔دوسری جانب برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے لزبن میں 2014ء کے انخلاء کے منصوبے پر دستخط کرنے کے باوجود اعلان کیا ہے کہ برطانیہ 2015ء تک افغانستان سے تمام لڑاکا فوج واپس بلوا لے گا۔
امریکہ اور برطانیہ کی یہ منافقانہ پالیسی مسلم امہ کے خلاف شروع کی گئی کروسیڈ میں ان کے یکسو ہونے کا بین ثبوت ہے جبکہ افغانستان سے انخلاء کا اعلان وہ غیور افغان باشندوں کی جانب سے نیٹو فورسز کی مسلسل مزاحمت سے عاجز آ کر کر رہے ہیں،ورنہ ان کی نیت تو اس خطہ میں آخری مسلمان کو مارنے تک کروسیڈ جاری رکھنے کی ہے۔اس صورت حال میں مسلم ممالک بالخصوص پاکستان،ترکی،ایران اور افغانستان کے سربراہوں کو سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنا چاہئے کہ اگر اسلام دشمن طاغوتی طاقتیں ہنود و یہود و نصاریٰ گٹھ جوڑ کے تحت مسلم امہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے جنونی مشن پر کاربند ہیں تو اس خطہ میں اسلامک بلاک قائم کر کے ہی ان کا غرور توڑا جا سکتا ہے،ان کے فتور کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے اور مسلم امہ کے تحفظ و سلامتی کی ضمانت فراہم کی جا سکتی ہے۔
امریکی کٹھ پتلی افغان صدر حامد کرزئی نے لزبن کانفرنس سے ایک ہفتہ قبل تشویش بھرے لہجے میں پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت کی تھی اور امریکہ پر یہ حملے بند کرنے پر زور دیا تھا جبکہ لزبن کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ اعلان کیا کہ نیٹو فوج نے افغانستان میں اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اس لئے آئندہ سال جولائی میں پہلے صوبے کا کنٹرول افغان سکیورٹی فورسز کو دینے کے باوجود 2014ء تک افغانستان کے خطرناک علاقوں میں نیٹو فوجی موجود رہیں گے۔وہ لزبن کانفرنس میں شرکت کیلئے روانہ ہونے سے قبل تو اپنی اس خواہش کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ چاہتے ہیں،افغان دھرتی پر غیر ملکی افواج کا وجود ختم ہو جائے جبکہ وہ لزبن کانفرنس میں نیٹو ممالک سے افغانستان میں اپنی افواج موجود رکھنے کی بھیک مانگتے نظر آئے۔یقینا ان کے اس طرزعمل سے ہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغان دھرتی پر اپنے قدم جمانے اور افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سالمیت پر بھی ڈرون اور ہیلی کاپٹر حملوں کی صورت میں اوچھے وار کرنے کا موقع ملا ہے جبکہ اب وہ برادر اسلامی ملک ایران کی سالمیت کو بھی چیلنج کرتے نظر آ رہے ہیں۔
عسکریت پسند غیور افغان باشندوں نے تو اپنی ماضی کی عظیم روایات کو برقرار رکھتے ہوئے گذشتہ 9 سال کے دوران سخت مزاحمت کر کے افغان دھرتی پر نیٹو افواج کے پائوں ٹکنے نہیں دئیے اور انہیں واپس جانے کا سوچنے اور اس مقصد کے لئے حقانی نیٹ ورک سمیت طالبان کے مختلف گروپوں سے مذاکرات کی راہ اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے،مگر کرزئی جیسے میر جعفر اور میر صادق مسلم امہ کو محفوظ کرنے والی ان کی تمام کاوشوں کو غارت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اگر وہ اور دوسرے مسلم حکمران اس خطہ میں قیام امن کی خاطر امریکی کروسیڈ سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو یہی نادر وقت ہے کہ پاکستان افغانستان ایرانی اور ترکی پر مشتمل اسلامک بلاک قائم کر کے باہمی عسکری تعاون کے ذریعہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو گھٹنے ٹیکنے اور افغان دھرتی سے اپنی افواج نکال لے جانے پر مجبور کر دیا جائے۔اس وقت نیٹو فورسز کے حوصلے پست ہو چکے ہیں اور وہ خود بھی اپنی واپسی کے محفوظ راستے تلاش کر رہی ہیں،اس لئے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کر کے انہیں واپسی کے راستے پر لگا دیا جائے،چہ جائیکہ وہ اپنی نیت کے فتور کی بنیاد پر اس دھرتی پر اپنے ناپاک قدم مزید جمانے کا سوچتے نظر آئیں۔
خبر کا کوڈ : 44828
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش