0
Thursday 29 Dec 2022 19:36

آل سعود اور جدید غلامی

آل سعود اور جدید غلامی
تحریر: سید رضی عمادی

انگریزی اخبار ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے انتباہ کے باوجود سعودی عرب میں جدید غلامی مسلسل پھیل رہی ہے۔ سعودی عرب کی آبادی تقریباً 36 ملین افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے تقریباً 10 ملین غیر ملکی کارکن ہیں۔ یہ کارکن مشرقی ایشیا، پاکستان اور افریقی ممالک سے سعودی عرب میں داخل ہوئے ہیں۔ غیر ملکی کارکنوں کے بارے میں سعودی عرب کا نظریہ توہین آمیز ہے۔ اگرچہ 1964ء سے سعودی عرب میں غلامی پر سرکاری طور پر پابندی عائد ہے، لیکن اس وقت ملک میں بہت سے غیر ملکی کارکن غلاموں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں اور ایسی دستاویزی رپورٹس شائع کی گئی ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں غیر ملکی ملازمین کو مقررہ وقت سے زیادہ کام جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں آرام کا موقع نہیں دیا جاتا، تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہاں تک کہ پانی اور خوراک سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔

سعودی عرب میں کفالت کا ایک ایسا نظام ہے، جس کی وجہ سے غیر ملکی ورکرز سعودی کفیل پر انحصار کرتے ہیں۔ اگرچہ سعودی حکومت کفالت کے نظام کو منسوخ کرنے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن اس پر عملاً عمل درآمد جاری ہے۔ سعودی آجر، جو خود کو غیر ملکی کارکنوں کا مالک سمجھتے ہیں، ان کی شناختی دستاویزات ضبط کر لیتے ہیں اور انہیں سعودی عرب چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتے۔ اقوام متحدہ کے مطابق کارکنوں کی شناختی دستاویزات رکھنا بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، جو جبری مشقت اور کارکنوں کے ساتھ بدسلوکی کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس کے علاوہ ان کارکنوں کو بدسلوکی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہاں تک کہ خواتین کو بھی جسمانی تشدد اور جنسی حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غیر ملکی کارکنوں کی اجرت بھی سعودی کارکنوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ سعودی عرب میں غیر ملکی ورکرز کے اوقات کار بھی طویل ہیں اور کچھ کفیل چوبیس گھنٹے کام لیتے ہیں۔

سعودی عرب میں غیر ملکی کارکنوں کی خرید و فروخت کا بازار اس قدر گرم ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے ایک ایپلی کیشن بھی تیار کر لی ہے۔ انگریزی اخبار "ٹائمز" نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا: "سعودی عرب میں سب سے مقبول ای کامرس ایپلی کیشن ہر روز بڑی تعداد میں غیر ملکی کارکنوں کی سمگلنگ کا مشاہدہ کر رہی ہے۔" اس انگریزی اخبار نے لکھا: "الحراج ایپلی کیشن، جو سعودی عرب کی سب سے بڑی آن لائن مارکیٹ سمجھی جاتی ہے، روزانہ سعودی شہریوں کی جانب سے گھریلو کام کی خدمات کے لئے غیر ملکیوں کی فروخت اور کرائے پر دئیے جانے والے درجنوں اشتہارات سے بھری ہوتی ہے، جن میں نوکرانیاں، نرسیں، ڈرائیور، مالی وغیرہ شامل ہیں۔ غیر ملکی کارکنوں کی خرید و فروخت کا سلسلہ ایسا ہے کہ اس حوالے سے ایک بلیک مارکیٹ بنا دی گئی ہے۔ کچھ سعودیوں نے بتایا کہ انہوں نے اضافی منافع کے لیے اپنی نوکرانیوں کو اس لیے نیلام کیا کہ وہ بچوں کے ساتھ برتاؤ سے ناواقف تھیں، یا عربی یا انگریزی نہیں بول سکتی تھیں۔

بعض بین الاقوامی اداروں کی جانب سے غیر ملکی کارکنوں کی صورتحال پر تنقید کی گئی ہے۔ کچھ عرصہ قبل انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی پر سعودی عرب کی حکومت کی مذمت کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس ملک میں غیر ملکی ملازمین کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے: "سعودی عرب میں غیر ملکی شہریوں کو من مانی حراست، غیر منصفانہ مقدمات اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔" اس ادارے نے سعودی حکومت پر واضح طور پر الزام لگایا تھا کہ وہ اس ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کی تحقیقات کو اقتصادی اور تیل کے وسائل پر انحصار کی وجہ سے روک رہی ہے۔ بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سعودیوں کے معاشی وسائل اس ملک میں جدید غلامی کی تشکیل کا سبب بنے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1032689
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش