0
Wednesday 15 May 2024 15:11

صیہونیوں کی نکبت، فلسطینیوں کی عزت

صیہونیوں کی نکبت، فلسطینیوں کی عزت
تحریر: علی احمدی
 
یوم نکبہ، دنیا اور بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ایک منحوس سانحے کی علامت ہے۔ یہ واقعہ 76 برس گزر جانے کے باوجود نہ صرف مسئلہ فلسطین کی فراموشی کا باعث نہیں بنا بلکہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران صیہونی حکمرانوں کی تمام تر کوششیں بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں اور آج "اسلامی مزاحمت" ہے جو فلسطین میں طاقت کے توازن کی تعریف پیش کر رہی ہے اور وہ ہر وقت سے بڑھ کر فلسطینی قوم کو اس کی آرزووں اور اہداف سے قریب کر سکتی ہے۔ لفظ "نکبت" فلسطینیوں اور عالمی رائے عامہ کے ذہن میں دو تلخ یادیں تازہ کر دیتا ہے: ایک 1948ء میں اسرائیل نامی جعلی ریاست کی تشکیل اور دوسرا 8 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال باہر کر کے جلاوطن کر دینا۔
 
یوم نکبہ نہ صرف اس سال فلسطینی سرزمین پر رونما ہونے والے سانحے کی علامت ہے بلکہ ان مصائب اور مشکلات کی بھی نشاندہی کرتا ہے جو گذشتہ چند عشروں کے دوران مظلوم فلسطینی قوم پر نازل ہوئی ہیں۔
تاریخ پر محیط ایک سانحہ
یوم نکبہ درحقیقت ایک ایسے انسانی سانحے کی روایت ہے جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور قانونی بنیادوں کا ایک بڑا حصہ صرف اس خاطر تباہ کر دیا گیا تاکہ ایک ناجائز ریاست کی تشکیل کا اعلان ممکن بنایا جا سکے۔ 675 سے زائد فلسطینی شہروں اور دیہاتوں کی مسماری، فلسطین نشین علاقوں پر غاصبانہ قبضہ اور انہیں یہودی بستیوں میں تبدیل کر دینا، فلسطینی شہریوں کو جلاوطن کر دینا، فلسطین کے قومی ورثے اور تشخص کو نابود کر دینا اور تمام مقامات کے نام عربی سے عبری میں بدل دینا، 1948ء کے بعد صیہونی رژیم کے اقدامات کا ایک حصہ ہیں۔
 
اس کے باوجود گذشتہ 17 برس میں غزہ کی پٹی میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کی کامیابی نے غاصب صیہونی رژیم کے خلاف جدوجہد میں ایک ایسے نئے باب کی بنیاد رکھی ہے جو 1948ء کے یوم نکبہ نیز غاصب صیہونی رژیم کی تشکیل کے بعد فلسطین قوم پر پیش آنے والی مصیبتوں کے تناظر میں ناقابل یقین تھا۔ حالیہ جنگ میں غزہ کی پٹی میں جس قدر وسیع تباہی اور بربادی ہوئی ہے وہ اگرچہ ناقابل تصور ہے لیکن یوم نکبہ اور جعلی اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے بعد گذشتہ 76 برس کے غاصبانہ قبضے کے منحوس اثرات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔
صیہونیوں کیلئے بھرپور بحران
گذشتہ دس برس کے دوران تقریباً ہر دو سال بعد غزہ کی پٹی پر صیہونی رژیم کی فوجی جارحیت دیکھنے میں آئی ہے جن میں مجموعی طور پر اب تک 50 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ لیکن اس دوران پہلی بار حماس نے جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے 7 اکتوبر 2023ء کے دن غاصب صیہونی رژیم کو طوفان الاقصی فوجی آپریشن کا نشانہ بنایا۔
 
طوفان الاقصی آپریشن انجام پانے کے بعد غاصب صیہونی رژیم کو غزہ پر حملہ ور ہونے کا ایک نیا بہانہ ہاتھا آ گیا لہذا اس نے 7 اکتوبر کی شکست کا بدلہ لینے کیلئے گذشتہ سات ماہ سے غزہ میں وسیع پیمانے پر تباہی اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ غزہ میں 62 فیصد رہائشی عمارات مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں جن کی تعداد لگ بھگ 2 لاکھ 90 ہزار گھروں تک جا پہنچتی ہے۔ اسی طرح دس لاکھ سے زائد فلسطینی اپنا گھر مسمار ہو جانے کے بعد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اسی طرح ورلڈ بینک نے بھی حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ غزہ میں تعمیر نو کیلئے کم از کم 18.5 ارب ڈالر درکار ہیں۔ یہ رقم فلسطین کی جی ڈی پی کا 97 فیصد حصہ ہے۔ یوم نکبہ کے منحوس دن کو 76 برس گزر جانے کے بعد آج بھی صیہونی حکمران اس سے کہیں زیادہ شدید اور وسیع نکبت غزہ میں انجام دے رہے ہیں۔ البتہ حالیہ نکبت نے عالمی ضمیر کو بیدار کر ڈالا ہے اور عالمی عدالتوں سے صیہونی حکمرانوں پر جنگی جرائم کی بابت مقدمہ چلائے جانے کی باتیں سنائی دے رہی ہیں۔
 
ایسی رژیم جو موت کی جانب گامزن ہے
غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کی شکست کی حقیقی وجہ نظریاتی اور نرم جنگ میں پوشیدہ ہے۔ اس میدان میں ہم ایسی بنیادی نوعیت کی گہری تبدیلیوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جن کے بہت اہم اثرات ظاہر ہوئے ہیں اور اس کی صرف ایک مثال صیہونیوں کی ناجائز حاکمیت کا سیٹ اپ متزلزل ہو جانا ہے۔ 7 اکتوبر کے دن انجام پانے والا طوفان الاقصی فوجی آپریشن غاصب صیہونی رژیم کے وجود کے خلاف فلسطین، خطے اور دنیا میں بیداری جنم لینے کا نقطہ آغاز ثابت ہوا ہے۔ اس عظیم اور تاریخ ساز بیداری کو تل ابیب میں جاری اندرونی سیاسی تنازعات تک محدود کر دینا دراصل وہ مقصد ہے جس کیلئے مغربی اور صیہونی ذرائع ابلاغ کوشاں ہیں تاکہ یوں اصل حقیقت پر پردہ ڈال دیا جائے۔ آج تل ابیب میں نیتن یاہو بنی گانتش یا حتی لبرل کنزرویٹو ڈائی پول بے معنی ہو چکا ہے۔ دوسری طرف عالمی رائے عامہ کا انتہائی سنجیدگی سے اور مسلسل غزہ جنگ پر مرکوز ہو جانے کے باعث حقائق کو چھپانا یا انہیں برعکس انداز میں ظاہر کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔
 
غزہ جنگ کی صورتحال، بین الاقوامی نظام میں عام اور خاص مخاطبین کیلئے واضح ہے۔ اول یہ کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم پینٹاگون اور سینٹکام  کی لاجسٹک اور فوجی مدد، حتی غزہ جنگ کی مدیریت کیلئے امریکہ کی براہ راست فوجی موجودگی کے ذریعے بھی حماس کو شکست دینے یا غزہ پر اپنا کنٹرول قائم کرنے میں ناکام رہی ہے اور صیہونی فوج کے خلاف فلسطین مجاہدین کی غیر برابر جنگ اپنے مطلوبہ راستے پر اسلامی مزاحمت کے حق میں جاری ہے۔ دوسرا یہ کہ غزہ جنگ کے نتیجے میں مقبوضہ فلسطین کا سکیورٹی، فوجی اور اقتصادی انفرااسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے۔ حماس نے نہ صرف طوفان الاقصی آپریشن کے بارے میں غاصب صیہونی رژیم کی انٹیلی جنس صلاحیتوں اور آئندہ رونما ہونے والے خطرناک واقعات کو پہلے سے بھانپ لینے کی توانائیوں کو چیلنج کیا ہے بلکہ گذشتہ سات ماہ سے جاری غزہ جنگ کے دوران بھی بے شمار ایسی کاروائیاں انجام دی ہیں جو صیہونی رژیم کی انٹیلی جنس اور فوجی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔   
خبر کا کوڈ : 1135227
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش