0
Wednesday 5 Jun 2024 10:47

ایران کا اسلامی انقلاب ایک کامیاب سیاسی تجربہ

ایران کا اسلامی انقلاب ایک کامیاب سیاسی تجربہ
تحریر: محمد کاظم انبارلوی

مغرب کے قدیم سیاسی فلسفیوں کا عقیدہ تھا کہ "کس کو حکومت کرنی چاہیئے" اہم ہے۔ انہوں نے حکمران کے لیے خوبیاں درج کیں، تاکہ حکمران میں ان خوبیوں کی وجہ سے لوگ انسانی عمل کے ذریعے یوٹوپیا تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن اس نظریہ کو عملی طور پر کبھی عملی نافذ نہیں کیا گیا اور مغرب میں ایسی حکومت کبھی قائم نہیں ہوئی۔ مغرب کے نئے سیاسی فلسفی جنہوں نے جدیدیت کے ڈھانچے مرتب کیے ہیں، ان کا خیال ہے کہ "حکومت کیسے کی جائے" اہم ہے۔ اس طریقہ کار کا تعین کرتے ہوئے، انہوں نے طاقت اور دولت پیدا کرنے اور اسے تقسیم کرنے کے طریقہ کار کے لیے گویا ایک نظریہ تشکیل دیا۔ اس سیاسی ڈھانچے کا خاتمہ آج مغرب میں دیکھا جا سکتا ہے اور مغربی سیاسی فلسفی اس کے زوال کے آخری مراحل بتاتے نظر آتے ہیں۔

امام خمینی (رح) نے ایک سیاسی نظریہ پرداز کے طور پر، اسلامی فکر، شیعہ فقہ کی تعلیمات اور قرآنی بنیادوں پر بھروسہ کرتے ہوئے، دونوں شکلوں کے امتزاج کو بہترین طریقہ کے طور پر متعارف کرایا، "کسے حکومت کرنی چاہیئے" اور "وہ کیسے حکومت کرے" کو الہیٰ حکمرانی کے ڈیزائن کے اندر مکمل کرکے پیش کیا۔ مغرب کے پرانے اور نئے سیاسی فلسفیوں نے اپنے نظریات کے مطابق حکومت قائم کرنے کی نہ کوشش کی اور نہ ہی دعویٰ کیا اور وہ صرف رائے کی دنیا اور گفتار کے غازی تھے۔ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ امام (رح) اسلامی دنیا میں اور بنیادی طور پر سیاسی فلسفے کی دنیا کے پہلے سیاسی فلسفی ہیں، جنہوں نے اپنے نظریہ کو نظریہ سازی اور عملی شکل دینے کے ساتھ ساتھ اس نظام کے ایک بانی بن کر سامنے ائے اور اس تجربے کو کامیابی کے مرحلے تک پہنچایا۔

امام خمینی (رح) کے سیاسی نظریہ سازی میں "فقہ" کا مقام بہت بلند ہے، جیسا کہ آپ نے فرمایا: "فقہ گہوارہ سے قبر تک انسانی نظم و نسق کا حقیقی اور مکمل نظریہ ہے۔" حکمرانی کی تھیوری اور عمل میں، امام (رح) نے پالیسی سازی اور حکمت عملی، ضابطے اور سہولت کاری دونوں میں فقہ کے مقام پر خصوصی توجہ دی۔ ان کے نقطہ نظر سے ’’فقہ‘‘ پر مبنی نظام کے انتظام میں کوئی تعطل نہیں ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں حکمرانی میں سیکولر علوم کی ضرورت ہے، وہ انقلاب اور نظام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اپنے بہت سے پیغامات اور تقاریر میں، خاص طور پر اپنے حکیمانہ وصیت نامے میں، امام نے فقہ اور احکام الٰہی سے آگے بڑھنے اور مغربی فلسفیانہ ماخذ کے ساتھ حکمرانی کے نمونوں کا سہارا لینے کے خطرے سے خبر دار کیا ہے۔

ماہرین کی اسمبلی کے چھٹے اجلاس کے افتتاح کے موقع پر اپنے پیغام میں رہبر معظم نے فرمایا: "اسلامی نظام میں حکمرانی انسانی ہے اور اہداف الہیٰ ہیں۔" کچھ لوگوں نے اس "انسان" کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ ہمیں معاشرے کے انتظام میں مغربی سوچ کے نظام میں پیدا ہونے والے سیکولر علوم پر انحصار کرنا چاہیئے۔ ایک "انسان" جو خدائی حکومت میں حاکم ہے، اسے مختلف شعبوں میں علم کی بنیاد پر کام کرنا چاہیئے۔ لیکن سب سے پہلے، علم کی تعریف کی جانی چاہیئے اور اس کے اصلی اور نقلی ہونے کے فرق کی وضاحت کی جانی چاہیئے۔ آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق ہمارے پاس اسلامی یا غیر اسلامی علوم نہیں ہیں۔ علم، علم ہے، یہ نہ اسلامی ہے، نہ غیر اسلامی، اگر علم نہیں تو یہ جہالت ہے، جسے علم نہیں کہا جا سکتا۔

19ویں صدی میں ایک مغربی سیاسی فلسفی نے مارکسزم کے نام سے ایک فلسفہ پیش کیا، جس کے علمی ہونے کا دعویٰ کیا گیا، جبکہ اس فکر کے حریف فاشزم اور لبرل ازم، دونوں نے بھی "علمی" ہونے کا دعویٰ کیا۔ 20ویں صدی کے آخر میں اور سائنس کے ان دعویداروں نے انسانیت پر جو بہت سی آفات ڈھائی ہیں، ان کے بعد مغرب کے عظیم سیاسی فلسفیوں نے اعلان کیا کہ تینوں مکاتب فکر نے بنی نوع انسان کو جہالت کے صحرا میں گمراہ کر دیا ہے اور اس لیے ان کے کارنامے نہیں ہوسکتے۔ اسے تصور شدہ علم پر مبنی ایک انسانی اصول کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔

20ویں صدی کے آخر میں امام خمینی کی طرف سے الہیٰ نظام کی تجویز پیش کی گئی تھی، جس کا ایران کے عوام نے بہادری سے خیرمقدم کیا اور اس کی حمایت کی۔ دینی جمہوریت کا مطلب ہے علم اور پرعزم علماء اور دانشمندوں کی موجودگی اور مختلف مہارت کے حامل افراد کی حکمرانی کی مختلف پرتوں میں عوام کے ووٹ اور عوام کے انتخاب سے معاشرے کو الہیٰ مقاصد اور اسلامی عدل کے حصول کی طرف لے جانا۔ مذہبی جمہوریت کا مطلب ہے صالح حکمرانوں کا صالح طرز حکمرانی کے ماڈل کے ساتھ انضمام۔

گذشتہ 45 سالوں میں ایران میں انتخابات اتار چڑھاؤ سے گزرے ہیں اور مختلف سیاسی اور مذہبی شخصیات عوام کے ووٹ کے ساتھ اقتدار میں آئیں اور ان کے عمل کا ریکارڈ ایرانی قوم کی یاد اور حافظہ میں محفوظ ہے۔ ہم جتنا آگے بڑھے گے، اتنا ہی زیادہ تجربہ ہوگا، معلومات کے ذخائر میں اضافہ ہوگا اور یہ تجربات اگلے اقدامات کا واضح حصہ ہونے چاہیئے۔ آنے والے انتخابات اسلامی نظام میں ایک نیا موقع اور ایک نیا امتحان ہے، جس میں ایسے قابل اور تجربہ کار حکام و منتظمین کا انتخاب ہونا چاہیئے، جو اسلام اور نظام کے وفادار ہوں اور انقلاب کے نظریات پر کاربند ہوں، خدمت کے شاندار ریکارڈ کے حامل حکام و منتظمین اگلے چار سالوں میں خدا کی مدد سے صحیح اقدامات اور عوام کی حمایت سے، ایک پرامید مستقبل کی طرف ترقی و پیشرفت کی ایک بڑی چھلانگ لگانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1139923
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش