0
Saturday 8 Jun 2024 16:26

نشان عبرت

نشان عبرت
تحریر: سید تنویر حیدر

طبس کے لق و دق صحرا میں جس طرح ایک بدمست ہاتھی کی سونڈ رگڑی گئی تھی، چاہیئے تو یہ تھا کی اس تاریخی ہزیمت سے کچھ سبق حاصل کیا جاتا اور اپنی اس زخم خوردہ ناک کو کسی اور سانحے سے بچا کر رکھا جاتا لیکن ابابیلوں کی منقار سے برسائے گئے کنکروں کی زد میں آکر اوندھے منہ گرنے کے بعد بھی اگر کسی کو اپنے اصلی ہاتھی ہونے کا واہمہ ہے تو اِسے اس کا دماغی عارضہ اور ذہنی انتشار ہی کہا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہمیں اسلامی جمہوری ایران کی دعوت پر تہران میں ہونے والی بین الاقوامی فلسطین کانفرس اور امام خمینی کی 35ویں برسی میں شرکت کا موقع ملا۔ ان دو تقریبات کے علاوہ ہمیں پاسداران انقلاب اسلامی کے ایک ادارے ”ھوا و فضای سپاہ مشکی“ کے ایک ایسے میوزیم کا دورہ کرایا گیا جہاں ایران کے شہرہ آفاق میزاٸل اور ڈرونز نماٸش کے لیے رکھے گئے ہیں۔

یہ میوزیم یا کمپلیکس ایک وسیع و عریض پارک  ”پارک ملی ھوا فضا“ میں واقع ہے۔ میوزیم میں داخلے سے پہلے اس ادارے کے ایک خوبصورت ہال میں پاسداران انقلاب اسلامی کی فضائیہ کے زیراہتمام ایک مختصر تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں پاسداران انقلاب کی مختلف میدانوں میں ان کی کارکردگی پر روشنی ڈالی گئی نیز میزاٸلز اور ڈرونز کے حوالے سے ایک نہایت معلوماتی فلم بھی دکھاٸی گئی۔ ہال میں جلی حروف سے ” ما ملت حسینیم، ما ملت شہادتیم“ لکھا ہوا تھا۔ یقیناً یہی وہ شعار ہے جسے پاسداران انقلاب اسلامی نے اپنا کر دنیا کے سامنے اپنی معجز نما طاقت کے کمالات دکھائے ہیں اور اپنی تیغ براں کی چمک سے اپنے دشمن کی راتوں کی نیند اس پر حرام کر رکھی ہے۔

اس تقریب کے بعد ہمیں اس میوزیم کے اندر لے جایا گیا۔ ہماری رہنماٸی کے لیے ہمارے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں کے ترجمان موجود تھے جو پاسداران کے ایک سینئر عہدیدار کی فارسی زبان میں بریفنگ کا انگریزی، عربی اور اردو زبانوں میں ترجمہ کر رہے تھے۔ ہمارے ایک پاکستانی دوست جو ایران میں مقیم ہیں انہوں نے اردو زبان میں ہمیں بریف کیا۔ تقریباً دو گھنٹے تک ہم نے اس میوزیم کو گھوم پھر کر دیکھا۔ 45 ڈگری کے زاویے پر نصب کیے گئے میزاٸلوں کے نیچے سے گزرنا ہمارے لیے کسی خوف کا سبب نہیں تھا بلکہ طمانیت کا باعث تھا کہ انقلاب اسلامی کی محافظ سپاہ اسلام کے بازو کتنے مضبوط ہیں۔

ہمارے ساتھ جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ اور جامعہ نعیمیہ کے مہتمم مفتی گلزار نعیمی بھی تھے۔ مفتی صاحب کے لیے اگرچہ اپنے پاؤں میں کچھ عارضہ ہونے کی وجہ سے زیادہ چلنا مشکل تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے بڑے انہماک سے میوزیم میں رکھی ہر شے کو دیکھا۔ ہم نے اس عجائب کدے میں جہاں ایران کے تیار کردہ مختلف میزاٸلز اور ڈرونز کا مشاہدہ کیا وہاں ہمیں اس میوزیم کے ایک ایسے شعبے میں بھی لے جایا گیا جسے ”پھپادہائ غنیمتی“ یعنی مال غنیمت میں لیے گئے ڈرونز، کا نام دیا گیا ہے۔

میوزیم کے اس حصے میں ہم نے ایرانی افواج کے ہاتھوں مال غنیمت میں لیے گئے اس سامان حرب کا بھی نظارہ کیا جو ایران نے مختلف مواقع پر اپنے دشمنوں سے ہتھیایا تھا جن میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے کئی ڈرون بھی شامل تھے۔ ان ہی ڈرونز میں امریکہ کا وہ خاص الخاص ڈرون بھی تھا جو اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس تھا اور امریکہ کو جس پر بڑا ناز تھا لیکن قوت ایمانی سے لیس اسلامی جمہوری ایران کے سپوت امریکہ بہادر کے اس شاہکار کو فضاء کی بلندیوں سے ہیک کرکے اپنے قدموں میں لے آئے تھے اور بعد میں ریورس انجینئرنگ کے ذریعے اس سے بہتر ڈرون خود بنا لیے۔ آج طاغوت کی ٹیکنالوجی کا یہ نمونہ نشان عبرت بن کر ہم جیسوں کی تفریح اور ضیافت کا سامان  لیے ایران کے ایک عجاٸب گھر میں محفوظ ہے۔

دیکھو مجھے جو دیدہء عبرت نگاہ ہو
خبر کا کوڈ : 1140452
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش