1
Saturday 8 Jun 2024 20:08

انسانی حقوق سے محروم غزہ

انسانی حقوق سے محروم غزہ
تحریر: محمد علی زادہ
 
غزہ کی پٹی پر غاصب صیہونی رژیم کی وحشیانہ جارحیت جاری ہے۔ آئے دن رفح سمیت غزہ کے مختلف علاقوں میں اسکول، پناہ گاہیں اور فلسطینی مہاجرین کی خیمہ بستیاں اسرائیلی بربریت کا نشانہ بن رہی ہیں جبکہ بظاہر بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں دہشت گردی اور نسل کشی کے اس واضح مصداق پر چپ سادھے بیٹھے ہیں اور کوئی موثر اقدام انجام نہیں دے رہے۔ انسانی حقوق کے شعبے میں سرگرم اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے شہری مراکز اور مہاجرین کی پناہ گاہوں پر حملوں کی اصلی ترین وجہ تل ابیب کا یہ اطمینان ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین کی حمایت کے سائے تلے عالمی اداروں اور تنظیموں کی جانب سے کوئی واضح موقف اور ردعمل سامنے نہیں آئے گا۔ یورپی ممالک اس بارے میں جو ظاہری بیان جاری کرتے رہتے ہیں وہ بھی انتہائی بے اثر اور غیر معتبر ہوتے ہیں۔
 
دو یورپی ملک، جرمنی اور فرانس، غزہ جنگ میں بالواسطہ جبکہ بعض مواقع پر براہ راست مداخلت میں مصروف ہیں اور اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو انٹیلی جنس مدد فراہم کرنے کے علاوہ فوجی میدان میں ہتھیار فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ فوجی مشاورت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ اسی طرح وہ تل ابیب میں عام شہریوں کو دبانے میں بھی تل ابیب کی مدد کرنے میں مصروف ہیں۔ غاصب صیہونی رژیم کے جنگی طیاروں نے حال ہی میں غزہ میں السردی بوائز ہائی اسکول پر شدید بمباری کی جہاں بڑی تعداد میں فلسطینی مہاجرین نے پناہ حاصل کر رکھی تھی۔ اس وحشیانہ حملے میں کم از کم 50 فلسطینی شہید اور دسیوں دیگر زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ اسکول النصیرات مہاجرین کیمپ میں واقع تھا جو غزہ کے مرکز میں ہے۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے کل علی الصبح اس اسکول کو بمباری کا نشانہ بنایا ہے۔
 
فلسطینی ذرائع ابلاغ نے اس حملے کی جو تصاویر اور ویڈیوز جاری کی ہیں ان میں دسیوں زخمی فلسطینیوں کو شہدائے الاقصی اسپتال میں نیچے فرش پر لیٹے دیکھا جا سکتا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ اسپتال میں جگہ اور وسائل کی شدید کمی کے باعث شہداء کی تعداد بڑھنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ شہدائے الاقصی اسپتال غزہ کے علاقے دیر البلح میں واقع ہے۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں دسیوں فلسطینی زخمیوں کی اس اسپتال میں منتقلی ایسے وقت انجام پائی ہے جب شہدائے الاقصی اسپتال کی انتظامیہ گذشتہ ہفتے اس بات کا اعلان کر چکی تھی کہ ایندھن کی کمی کے باعث اسپتال کے دو جنریٹر بند ہو چکے ہیں۔ اس وقت بھی شہدائے الاقصی اسپتال میں 700 سے زائد زخمی اور مریض زیر علاج تھے۔
 
غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء کی مکمل ناکہ بندی
غاصب صیہونی رژیم کے وسیع اور خوفناک مجرمانہ اقدامات کے مقابلے میں عالمی تنظیموں کی بے حسی کے منفی اثرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایک طرف صیہونی رژیم نے غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء اور ادویہ جات کی مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے جبکہ دوسری طرف اقوام متحدہ کے ادارے فاو نے غزہ میں قحط کے بارے میں شدید وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا ہے: "تحقیقات ظاہر کرتی ہیں کہ غزہ میں دس لاکھ سے زیادہ افراد جولائی کے مہینے تک حقیقی قحط اور موت کے خطرے سے روبرو ہوں گے۔" فاو تنظیم کے بیانیے میں مزید کہا گیا ہے: "غزہ کے 22 لاکھ شہری ایسے ہیں جو سو فیصد غذائی قلت کا شکار ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کی جارحیت وہاں غذائی بحران کی شدت میں مزید اضافہ کر رہی ہے جبکہ اس وقت بھی فلسطینی شہری قحط اور جلاوطنی کے نتیجے میں موت کے خطرے سے روبرو ہیں۔"
 
بھوک کے باعث شہید ہونے والے فلسطینی بچوں کی تعداد میں اضافہ
بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں پانچ سال سے کم عمر کے ایسے ہزاروں بچے پائے جاتے ہیں جو شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور اس وجہ سے ان کی جانوں کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ان رپورٹس کی روشنی میں اگرچہ غزہ میں مقیم تمام فلسطینی شہری بھوک کے بحران سے روبرو ہیں لیکن بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور گذشتہ کچھ عرصے میں بھوک کی وجہ سے فوت ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے نہ صرف غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی پر پابندی عائد کر رکھی ہے بلکہ خاص طور پر رفح کراسنگ پر قبضہ کرنے کے بعد غزہ میں ایندھن فراہمی بھی مکمل طور پر بند کر دی ہے جبکہ میڈیکل کا سامان پہلے سے غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ یوں غزہ کے اسپتال اور صحت کے مراکز مفلوج ہو کر رہ گئے ہیں۔
 
غزہ میں موجود پانچ سال سے کم عمر کے بچے بہت سخت حالات سے روبرو ہیں اور غاصب صیہونی رژیم نے گذشتہ تقریباً چار ہفتے سے غزہ میں داخل ہونے والی انسانی امداد مکمل طور پر بند کر رکھی ہے۔ فلسطین کی وزارت صحت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق غزہ پر صیہونی جارحیت کے آغاز سے اب تک 40 بچے بھوک کی وجہ سے فوت ہو چکے ہیں۔ یہ وہ اعداد ہیں جو سرکاری طور پر رجسٹر شدہ ہیں جبکہ بھوک سے فوت ہونے والے بہت سے بچے ایسے ہیں جن کا نام رجسٹر نہیں ہو پایا کیونکہ ان کے اہلخانہ شدید بمباری اور محاصرے کے باعث اپنے بچوں کو اسپتال منتقل نہیں کر پائے۔ بھوک کے باعث فوت ہونے والے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد غزہ کے شمالی حصے میں ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز میں صیہونی رژیم نے غزہ کے جنوبی حصوں کو پرامن قرار دیا تھا جبکہ گذشتہ کچھ عرصے سے اب وہاں بھی بربریت کا نشانہ بنا رہی ہے
خبر کا کوڈ : 1140473
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش