0
Saturday 8 Jun 2024 21:20

بی جی پی کی تیسری کامیابی، اثرات و امکانات

بی جی پی کی تیسری کامیابی، اثرات و امکانات
تحریر: سید اسد عباس

وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں پارٹیوں کے اتحاد نے حکومت بنانے کے لیے 543م میں سے درکار 272 سیٹیں پوری کر لی ہیں۔ یاد رہے یہ ان 400 سیٹوں کے ہدف سے بہت کم ہے جو انہوں نے انتخابی مہم کے دوران مقرر کیا تھا۔ حزبِ اختلاف کے اتحاد نے توقع سے کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور ملک بھر میں اب تک 193 نشستیں حاصل کی ہیں۔ کانگریس پارٹی کے راہول گاندھی، جنھیں بڑے پیمانے پر مودی کے اہم حریف کے طور پر دیکھا جاتا ہے، نے کہا ہے کہ یہ نتائج مودی کے آئین میں تبدیلی کے منصوبوں کو مسترد کرنے کا اشارہ ہیں۔حزب اختلاف کی جماعتوں نے انتخابات کے دوران لیول پلئینگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت کی ہے، کچھ رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا اور کچھ جماعتوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کر دیے گئے ہیں۔

حالیہ الیکشن میں بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی پارٹی پوزیشن حسب ذیل ہے: بی جے پی - 228، تلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) - 12، جنتا دل (متحدہ) - 12، لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) - 5، جنتا دل (سیکولر) - 12۔ دوسری جانبب اپوزیشن جماعتوں کی پوزیشن کچھ یوں تھی: کانگریس - 88، سماج وادی پارٹی - 36، ترنمول کانگریس - 29، دریویندا منیترا کزگم (ڈی ایم کے) - 15، شیو سینا (ادھو ٹھاکرے) - 7، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد پوار) - 5، یوواجنا سریکا ریتھو کانگریس پارٹی (YSRCP) - 4، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) - سی پی آئی (ایم) - 4۔ نریندر مودی مسلسل تیسری مدت کے لیے انڈیا کے وزیر اعظم بننے کے لیے تیار ہیں لیکن بی جے پی نے انڈیا کی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں لوک سبھا میں اپنی اکثریت کھو دی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ حکومت بنانے کے لیے اتحادیوں پر انحصار کر رہے ہیں۔

اپنے طویل سیاسی کیریئر میں نریندر مودی کو کبھی بھی مخلوط حکومت کی قیادت نہیں کرنا پڑی۔ بی جے پی نے 2019ء میں 303 سیٹوں میں سے 240 سیٹیں جیتی تھیں۔ حالیہ انتخابات میں کانگریس پارٹی کی قیادت میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے انڈیا (انڈین نیشنل ڈیویلپمنٹ انکلوسیو الائنس) نامی ایک گروپ کے طور پر مل کر انتخاب لڑا۔ بی جے پی اتحاد نے اس انتخاب میں  400 سیٹیں جیتنے کی کال دی تھی لیکن اس کا الٹا اثر ہوا۔ بی جے پی کے 400 سیٹوں کی کال کے بعد حزب اختلاف کے رہنماؤں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اگر بی جے پی 400 سے زائد نسشتوں کے ساتھ اقتدار میں آتی ہے تو وہ آئین کو بدل دے گی۔ یہ دلتوں اور اقلیتوں کے لیے تشویش ناک بات تھی کیونکہ آئین انھیں مناسب حقوق دیتا ہے۔ اگرچہ مودی نے اپنی انتخابی مہم میں  مبینہ طور پر فرقہ وارانہ مسائل کو اٹھایا تھا لیکن اپوزیشن اپنے مہم کے لیے اپنے نکات پر قائم رہی جیسے کہ 30 لاکھ نوکریوں کا وعدہ، غریبوں کو 10 کلو گرام مفت راشن دینے کا وعدہ اور غریب خاندانوں کو ہر سال ایک لاکھ روپیہ دینے کا وعدہ۔

مبصرین کے مطابق 2014ء کے انتخابات میں بی جے پی نے ترقی، تبدیلی اور انسداد بدعنوانی کے وعدوں پر الیکشن لڑا تھا جبکہ سنہ 2019ء میں پلوامہ حملے کا چرچا تھا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بار بی جے پی کی ووٹرز تک پیغام رسانی واضح نہیں تھی جیسے کے گذشتہ دو انتخابات میں ہوا۔ اگرچہ بی جے پی نے مقامی مسائل کی بنیاد پر اپوزیشن جماعتوں پر حملہ کیا لیکن یہ حربہ اتر پردیش، ہریانہ، مغربی بنگال اور مہاراشٹرا اور کچھ حد تک راجستھان جیسی ریاستوں میں کام نہ کر سکا۔ متعدد جماعتوں کے ساتھ کام کرنے والے سیاسی مشیر عبدالقادر کہتے ہیں کہ یہ ریاستیں سب سے زیادہ مذہبی طور پر منقسم ہیں جہاں لوگ بی جے پی کی سنتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ وزیراعظم نے تقسیم در تقسیم کی کوشش کی لیکن اس بار وہ کامیاب نہیں ہوئے۔

الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق تمام نتائج کا اعلان کر دیا گیا ہے اور حکمران بی جے پی 240 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، جو 2019ء کے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی جیتی گئی سیٹوں سے تقریباً 60 کم ہیں۔ دوسری جانب کانگریس کو 88 سیٹیں ملی ہیں جو کہ سنہ 2019ء کے انتخابات کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہیں۔ واضح رہے کہ انڈیا میں سیاسی جماعتوں یا ان کے اتحادیوں کو مرکز میں حکومت بنانے کے لیے کم از کم 272 نشستیں درکار ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس طرح کے غیر متوقع نتائج کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب رہیں گی لیکن انھیں ہمیشہ یہ خطرہ رہے گا کہ حزب اختلاف حکمراں اتحاد سے ناراض جماعتوں کو اپنی جانب راغب کرکے ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔

بی جے پی کے لیے کمزور مینڈیٹ کا مطلب یہ ہوگا کہ پچھلی حکومت کے برعکس پارٹی کو ممکنہ طور پر اپنے نامکمل ایجنڈے کو جاری رکھنے کے لیے علاقائی جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ آنے والے دنوں میں جو علاقائی پارٹیاں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں ان میں کانگریس کی حلیف سماج وادی پارٹی ہے، جو اتر پردیش کی 80 نشستوں میں سے 37 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے جبکہ ٹی ایم سی جو کہ بنگال میں برسر اقتدار ہے نے 20 نشستیں حاصل کی ہیں اور گذشتہ انتخابات کے مطابق میں ان کی نشستوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب مودی کی حلیف جنتا دل یونائٹیڈ نے بہار میں 12 اور ٹی ڈی پی نے آندھرا پردیش میں 16 نشستیں حاصل کی ہیں۔ بی جے پی نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، کشمیر میں دفعہ 370 کو ہٹانے اور تین طلاق روکنے کا قانون متعارف کرانے جیسے اپنے وعدوں کو پورا کیا ہے۔ لیکن نئی حکومت کے لیے نامکمل وعدے جیسا کہ ون نیشن ون الیکشن اور یکساں سول کوڈ (جس کے تحت اقلیتوں کے شادی اور وراثت کے قوانین کو ختم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا) کو پورا کرنا مشکل ہوگا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ انڈیا میں مخلوط حکومتیں مسابقتی مفادات کی کھینچا تانی کی وجہ سے عوام کے حقوق کے لیے بہتر ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر بی جے پی کی زیر قیادت گذشتہ این ڈی اے حکومت کے دوران اس کی کئی اہم اتحادی جماعتوں کے لیے اس کا ہندوتوا کا نظریہ ناقابل قبول تھا، جس کی وجہ سے اسے موڈیریٹ سیاست کرنے پر مجبور ہونا پڑا مثلا 1998ء میں جب بی جے پی پہلی بار مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آئی تھی تو لال کرشن اڈوانی پارٹی کے سربراہ تھے اور بابری مسجد کے انہدام کی تحریک کی قیادت میں سب سے آگے رہنے والے لوگوں میں سے تھے لیکن کئی جماعتوں نے ان کے نام پر اعتراض کیا اور اٹل بہاری واجپائی، جنھیں پارٹی کے اندر ایک معتدل چہرہ سمجھا جاتا تھا وہ متفقہ امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت بھی معتدل رویہ اپنانے پر مجبور ہوگی ۔
خبر کا کوڈ : 1140497
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش