0
Sunday 9 Jun 2024 19:02

فلسطین، دو نہیں ایک ریاست

فلسطین، دو نہیں ایک ریاست
تحریر: سید منیر حسین گیلانی

جب سے کائنات بنی ہے اور انسان اس کرہ ئارض پر وارد ہوا ہے، اس وقت سے لے کر آج تک نسل آدم کی آپس کی جنگوں کی تاریخ تکلیف دہ واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ جنگ شر کیخلاف ابد سے ازل تک جاری رہے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے میں مظلوم طبقہ ظالم استعمار کی خواہشات پر قربان ہوتا رہا ہے۔ مجھے تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ اپنی شعوری زندگی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ شرپسند قوتیں اپنی طاقت کا لوہا منوانے، مخالفانہ آوازوں کو خاموش کروانے اور انسانوں کے سروں کو جھکانے کیلئے جنگوں کا آغاز کرتی رہی ہیں۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم، ویتنام، فاک لینڈز، افغانستان، ایران عراق، خلیج تنازعات پر مختلف جنگیں انسانیت کی تباہی کر چکی ہیں۔ ہماری زندگی اور اس دور میں روس اور یوکرائن کی لڑائی عالمی جنگ کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے، جبکہ 1948ء میں فلسطینیوں کی سرزمین عالمی سازش کنندہ برطانیہ نے فلسطینی عوام کی مرضی کے بغیر ان کی سرزمین کو اسرائیلی صیہونی مملکت بنانے کی سازش کی۔

اس دن سے اب تک صیہونی حکومت نے سامراجی قوتوں کے سہارے اپنی حکومت کو مضبوط اور علاقے کو وسیع کرنا شروع کر دیا تو فلسطین کے مظلوم عوام سے اپنی ہی سرزمین پر زندہ رہنے کا حق چھین لیا گیا۔ مختلف مواقع پر اس خطے میں جنگیں ہوئیں جن میں ارد گرد کے ممالک کے رقبے پر قبضہ کرکے اپنی صیہونی حکومت کو وسعت دی گئی۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق فلسطینی مجاہدین نے اپنی سرزمین سے اسرائیل کے ناپاک عزائم کو ختم کرنے کا تہیہ کر لیا، جس میں سب سے بڑا کردار حماس کے نوجوانوں کا ہے۔ غزہ کی پٹی کے مختصر نوجوانوں نے جانوں کی قربانی دیتے ہوئے اب تک جنگ جاری رکھی ہوئی ہے۔ اس جنگ کے پیچھے امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک، اسرائیلی حکومت کو تحفظ دینے کیلئے مالی وسائل اور اسلحہ لگا تار دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اسرائیل جو ناپاک خواہش کرتا تھا کہ اس خطے سے فلسطینیوں کو نکال دے گا یا ختم کر دے گا، لیکن غزہ کے شہداء کے ورثا آج بھی سرنگوں نہیں ہوئے۔ اپنا حق لینے کے لئے میدان میں کھڑے ہیں، بلکہ انہوں نے بین الاقوامی سامراج کو مجبور کر دیا ہے کہ جنگ بندی ہونی چاہئے، لیکن افسوس ہزاروں انسانوں کی جانوں اور املاک کو نقصان پہنچانے کے بعد جنگ بندی کی آواز امریکہ کی طرف سے اٹھائی گئی ہے۔

میں باشعور امریکی عوام اور حقوق انسانی کے پاسداران سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ ہزاروں بے گناہ عورتیں بچے خاندان اور آبادیاں تباہ کرنے کے بعد یہ بات کسی بھی صاحب عقل کو کیسے ہضم ہو سکتی ہے؟ البتہ یہ ناممکن نہیں۔ میں امریکہ کی نئی نسل سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ جیسے کہ بڑی بڑی امریکی یونیورسٹیوں اور یورپی ممالک کے بڑے بڑے شہروں میں فلسطینی عوام کے حق میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ امریکہ اور یورپی ممالک یورپی یونین کے ممبر ممالک میں ابھی انسانیت کے حق میں مظاہرے ہونا واضح کرتا ہے کہ آنیوالی نوجوان نسل حکومتی سامراج کی سوچ کی مخالف ہے۔ انہوں نے کھل کر اپنی اپنی حکومتوں کی مخالفت کرتے ہوئے سامراجی نظام کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ میں ان طلبہ و طالبات کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے فلسطین کے حق میں مظاہرے کیے اوراب بھی کر رہے ہیں، تاکہ وہ اپنی اپنی حکومتوں کویہ سوچنے پر مجبور کر دیں کہ انسانیت کا قتل اور لوگوں کے حقوق کو غصب کرنا اخلاقی اور معاشرتی جرم ہے۔

اب تک کی مقاومتی جدوجہد اور عالمی سطح پر ہونیوالی پیشرفت سے یہ واضح ہے کہ فلسطین کا مسئلہ امریکہ کے من پسند فارمولے پر حل نہیں ہو سکتا، کیونکہ یہ فارمولا تنازع کا پائیدار حل پیش نہیں کرتا، یہ تاخیری حربہ ہے۔ امریکہ بہادر نے اپنے فارمولے میں یہ تو نہیں بتایا کہ لبنان کے کچھ حصے، شام کی جولان پہاڑیوں اور اردن کے مغربی کنارے کہ جس میں بیت المقدس بھی ہے، غزہ کی پٹی کا حل پیش نہیں کیا گیا، جس سے مطمئن ہو کر فلسطین سے محبت یا فلسطینی عوام کے موقف اور ان کے جمہوری انسانی حقوق کی حمایت میں لڑنے والی حزب اللہ لبنان، شام یمن اور عراق کی جہادی تنظیمیں بھی مطمئن ہو کر جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں۔

 سرزمین فلسطین کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں آزادی دینے کا امریکی سامراج کا پیش کردہ انداز، قابل قبول نہیں۔ فلسطینی عوام چاہتے ہیں سب سے پہلے جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ ختم اور نئی اسرائیلی یہودی آبادیاں بنانے کے اقدامات کو روکا جائے۔ دوسرا دریائے اردن کے مغربی کنارے سے لیکر بیت المقدس جو کہ مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کی بھی متبرک جگہ ہے، اسے بحال کیا جائے اور غزہ کی پٹی اور اس کیساتھ کے علاقے کو فلسطینی مملکت کو تسلیم کرتے ہوئے اگر کوئی فارمولا پیش کیا جا سکتا ہے، تو انصار اللہ یمن، حزب اللہ لبنان، شام اور عراق کی جہادی قوتوں کو مطمئن کرنے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے، لیکن اس سے کم، اتنے بڑے مالی سماجی تعلیمی معاشی سیاسی نقصانات اور شہادتوں کے بعد جنگ بندی نا منظور ہے۔ آزاد فلسطینی ریاست بہترین حل ہے جس سے دنیا کے مسلمان اس قربانی کے صلے میں آزادی فلسطین اور آزادی بیت المقدس سے مطمئن ہو سکتے ہیں۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ مسیحیوں کے مذہبی رہنما پوپ فرانسس نے متحارب گروہوں کے درمیان جنگ بندی اور فلسطینیوں کے خون سے جو ہولی کھیلی جا رہی ہے اسے بند کرنے کی اپیل کی ہے، کیونکہ مسلمان مسیحی اور مذہبی یہودی بھی یہی چاہتے ہیں کہ فی الفور جنگ بندی ہو۔ انسانیت کا مزید خون نہ بہایا جائے۔ عالمی درندے اور دہشت گرد نیتن یاہو کی حکومت کو ختم کیا جائے۔ یہ غنڈہ انسانیت کا قاتل، غاصب اور عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے والا ہے، امریکہ اس دہشت گرد کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ امریکہ نے نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے پر عالمی عدالت انصاف پر پابندی کا بل منظور کر لیا ہے۔ یہ ہے انسانی حقوق کا نام نہاد عالمی چیمپئن امریکہ کا اصلی چہرہ۔

مسیحیت اور یہودیت کے مذہبی طبقات دو ریاستی حل کو ناجائز سمجھتے ہیں، جبکہ پاکستان اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کا فلسطین پر موقف بہت واضح اور ٹھوس ہے۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ اسرائیل ناجائز ریاست ہے۔ فلسطین پر قبضہ قبول نہیں کرتے۔ فلسطین کی 1948ء سے پہلے کی پوزیشن بحال کی جائے اورجن علاقوں پر اسرائیلی ریاست نے قبضے کیے ہیں، وہ واپس کیے جائیں، ورنہ آنے والے زمانے میں کشمیر کے مسئلے میں بھی اسی انداز کے کوشش کی جائے گی۔ اگر یہ دھونس دھاندلی اور طاقت کے استعمال سے دوسرے کی زمینوں پر قبضے کو فلسطین کے معاملے میں تسلیم کر لیا جائے تو ہندوستان بھی کشمیری مسلمانوں کے حقوق کو غصب کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اس کے رد عمل میں بھارت میں  بھی کچھ ہو سکتا ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ فلسطین، فلسطینیوں کا ہے۔ اسی طرح ہمارا موقف ہے کہ کشمیر، کشمیریوں کا ہے اور دونوں اقوام کو ان کی مرضی کے مطابق مقبوضہ خطوں کا حل ملنا چاہئے۔ ہندوستانی اور اسرائیلی فورسز علاقے خالی کر دیں، یہی ان کے فائدے میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 1140628
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش