3
0
Sunday 9 Jun 2024 20:56
جنات کی طرح یہ صرف چیلہ کشوں کو دکھائی دیتے ہیں

کرم میں طالبان کی موجودگی، حقیقت یا سرکاری ڈرامہ؟

جب ضرورت نہ تھی تو فوج آگئی، ضرورت پڑی تو ندارد
کرم میں طالبان کی موجودگی، حقیقت یا سرکاری ڈرامہ؟
تحریر: عدنان حیدر

گزشتہ ایک ہفتے سے سوشل میڈیا پر ایک خبر بہت تیزی سے گردش کر رہی ہے کہ ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں ٹی ٹی پی کے لوگ داخل ہوگئے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق اب تک ٹی ٹی پی کے چار کمانڈر کرم میں داخل ہوکر مختلف علاقوں میں براجمان ہوچکے ہیں۔ تاہم یہاں ہر ذی شعور کے ذہن میں کچھ سوالات گردش کررہے ہیں، کہ طالبان کو کس نے اور کہاں دیکھا اور انکے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟

لمحہ فکریہ 
سرکاری ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی کے لوگ ساتین (لوئر کرم) کے مضافات تک آچکے ہیں اور انکی نقل و حرکت ابھی جاری ہے۔ اب سرکار بشمول عسکری قیادت عوام الناس کو بار بار متنبہ کر رہی ہے کہ وہ احتیاط کریں۔ بالخصوص اہل تشیع اپنا خاص خیال رکھیں۔ مبینہ طور پر ساتین میں سرکاری گاڑیوں کو باقاعدہ روک کر کہا گیا ہے کہ رات 10 بجے کے بعد یہاں کسی کی آمد و رفت برداشت نہیں ہوگی۔ خیال رہے کہ یہ سب اطلاعات سرکاری اہلکاروں کی زبانی موصول ہورہی ہیں۔

چنانچہ ایک اور سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ جب سرکاری گاڑیوں کو روکا گیا اور ساتھ یہ دھمکی بھی ملی کہ وہاں مزید نقل و حرکت بند کریں تو اس پر سرکار ذی وقار نے موقع پر یا فرصت پانے کے بعد کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا اور یہ کہ کیا طالبان کوئی جنات و پری زاد ہیں، جو صرف سرکاری (پری زادوں) ہی کو دکھائی دے رہے ہیں یا کہیں کبھی عام لوگوں کو بھی کوئی جھلک نظر آگئی ہے؟ 

پلانٹڈ منصوبہ
ایک اہم سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ ضلع کرم میں یہ لوگ داخل کیسے ہوئے۔ انہیں کس نے اجازت دے کر جانے دیا؟  راستے میں سینکڑوں کی تعداد میں چیک پوسٹیں کس مرض کی دوا ہیں؟ وسطی کرم کے لوگ ابتداء سے یہ مطالبہ کرتے آرہے ہیں کہ انکی حفاظت پاک آرمی کی ذمہ داری ہے کیونکہ اس علاقے میں انکی موثر موجودگی اور اجاری داری قائم ہے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے امن واک بھی کیا۔ اس کے باوجود دیکھتے ہیں کہ رات کے وقت ایک ڈرامہ دیکھنے کو ملتا ہے، راستے میں موجود ایک Excavator کو آگ لگائی جاتی ہے۔ اور مشہوری کیا جاتا ہے کہ طالبان نے کاروائی کی۔

ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رات کے وقت یہ مشینری وہاں راستے میں کیا کر رہی تھی۔ ممکن ہے موجود ہو۔ تاہم اس میڈیا کے اس جدید دور میں حادثے کی کوئی مصدقہ خبر آزاد ذرائع سے کیوں نہیں آتی۔ کس نے کیا، کیا ہوا اور کس وقت آگ لگائی؟ کچھ بھی پتا نہیں چلتا۔ بس مشہور کرایا گیا کہ اسے طالبان نے آگ لگا دی۔ اس کے بعد ایک نیا ڈرامہ یوں شروع ہوجاتا ہے کہ چیک پوسٹوں کو خالی کرایا جاتا ہے اور فورسز کی پوری نفری کو یہاں سے کسی اور نامعلوم مقام کی طرف شفٹ کرایا جاتا ہے۔

سینٹرل کرم میں آرمی کی تعیناتی
سوچنے کی قابل بات یہ ہے کہ جب سینٹرل کرم کے عوام کو فورسز کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور وہ آرمی کو اپنے ہاں چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے، تو انکے گھروں اور انکے سروں پر ایسے مقامات پر زبردستی چیک پوسٹ بنائے گئے جہاں سے انہیں اپنی عزت اور پردہ کرنا ناممکن ہے۔ مگر جب ان لوگوں کو فورسز کی ضرورت پڑی تو چیک پوسٹوں کو چھوڑ کر یہ لوگ خود چلے جاتے ہیں اور عوام کو خود ہی درندوں اور چڑیلوں کے سپرد کرجاتے ہیں۔

ایک بات اور سوچنے کی قابل ہے کہ طالبان کی افواہ پورے زور شور سے چل رہی ہے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی عام بندے کو کچھ نظر نہیں آیا۔ پتہ نہیں دیو، جن اور پری زاد ہیں جو صرف سرکار دولت مدار ہی کو انکی شکلیں نظر آتی ہیں۔ خیال رہے کہ ٹی ٹی پی کے داخلے اور آمد کے حوالے سے جب کوئی صحافی وغیرہ سوال کرتا ہے، تو جواب ملتا ہے کہ مین روڈ اور متعدد دیگر مقامات پر آئے ہیں۔

کیا واقعی ٹی ٹی پی اہلکار داخل ہوچکے ہیں؟
اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینے، سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مولا علی علیہ السلام کے مبارک قول کے مطابق: کان سے سن کر ٹال دیں، اور جسے آنکھوں سے دیکھیں اسے حقیقت مانیں اور تسلیم کریں۔ مگر یہاں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سنی سنائی باتوں پر مبنی ہیں۔ آنکھوں سے کسی نے ایسا کچھ نہیں دیکھا ہے۔ اگر کہیں کچھ دیکھا بھی ہے تو اس پر کسی کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ وجہ کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ اسکا علم عوام کو نہیں۔ صرف اللہ اور انکی مخصوص مخلوق، نیز کچھ چہلہ کشوں ہی کو حاصل ہوگی۔ 

ڈرامہ بھی تو ہوسکتا ہے؟
پاکستان کی طول تاریخ میں یہ بات ثابت ہے کہ مخصوص طبقے نے اپنی مفادات کے لئے قربانی کا بکرا خیبر پختونخوا کے لوگوں ہی کو بنایا ہے۔ دہشتگردی کا آغاز ہمیشہ یہاں ہی سے ہوتا آرہا ہے۔ سوات، مالاکنڈ، باجوڑ، مہمند، وزیرستان، خیبر، اورکزئی اور کرم  وغیرہ ان تمام علاقوں کو دیکھیں، جن کی اینٹ سے اینٹ بجا کر مکمل طور پر ملیا میٹ کرایا گیا۔ اپنے مفاد اور ڈالرز کی خاطر بچوں، بوڑھوں اور خواتین تک کو نہیں چھوڑا گیا۔ خیال رہے ضلع کرم میں یہ کوئی نئی بات نہیں، اس سے قبل بھی اپنی ذاتی مفادات کیلئے اسے نشانہ بناکر بری طرح نقصان پہنچایا جاچکا ہے۔ فاٹا کا انضمام جب ہو رہا تھا تو وعدے معاہدے اور اصول کے مطابق انضمام کے 5 سال بعد تمام تر اختیارات آرمی سے لے کر سول انتظامیہ اور پولیس کو سونپ دیئے جانے تھے۔

فاٹا انضمام کو 5 سال سے زیادہ ہوکر معاہدہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ چنانچہ عین ممکن ہے کہ یہاں مزید براجماں ہونے کی خاطر ایسے حالات پیدا کئے جارہے ہوں۔ کیونکہ یہاں سے روزانہ کے حساب سے انہیں کروڑوں روپے کا فائدہ ہو رہا ہے۔ اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے اہم تمام مقامات پر فوجی قلعے موجود ہیں۔ تاہم وہ مقامات جہاں خطرہ زیادہ ہو، وہاں ایف سی کو تعینات کیا ہے۔ خیال رہے، کرم کی مثال سونے کی مرغی کی سی ہے۔ یہاں لیتھیم، آئرن، کوئلہ، سوپ سٹونز، پلوٹونیم، بلور اور دیگر مختلف قیمتیں معدنیات کے ذخائر عام ہیں۔ چنانچہ انکے حصول اور اپنے نفع کو برقرار رکھنے کیلئے بھی یہ ڈرامہ ہوسکتا ہے۔

اگلا گیم کیا ہوسکتا ہے؟
سال گزشتہ کی طرح اس سال بھی حالات اسی مہینے میں خراب ہوئے، پچھلے سال عین عید الاضحی کے دن وزیر اعظم صاحب اور انکے ساتھ آرمی چیف صاحب نے یہاں کا ہنگامی دورہ کیا۔ اس دوران انہوں نے خرلاچی بارڈر اور مختلف اہم اقتصادی زون اور مقامات کا وزٹ کیا تھا۔ انکے دورے کے فورا بعد علاقے میں حالات خراب ہوئے اور جولائی کے مہینے یعنی محرم سے پہلے شیعہ سنی جنگ چھڑ گئی۔ جس میں فریقین کا کافی اور ناقابل تلافی نقصان ہوا تھا۔

آج بھی اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومتی کے آلہ کار وقتاً فوقتاً مختلف تقاریر اور شرانگیز بیانات دے رہے ہیں تاکہ شیعہ سنی جنگ پھر سے چھڑ جائے۔ قوی امکان ہے کہ مستقبل قریب میں ایک بار پھر شیعہ سنی جنگ چھڑ جائے۔ عین ممکن ہے کہ علاقے میں طالبان فزیکلی موجود ہوں۔ تو انکے خلاف انہی مقامی لوگوں استعمال کیا جائے گا۔ جبکہ اصل اور اسی کام کام کیلئے تنخواہ پر مختص اور بھرتی لوگ مکمل طور پر بچ نکلنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

طالبان شیعہ سنی اتحاد کا باعث بھی بن سکتے ہیں
اگر طالبان واقعا اور حقیقتا وادی کرم میں داخل ہوچکے ہیں تو اس سے شیعہ سنی اتحاد بھی مضبوط ہوسکتا ہے۔ شیعہ سنی اقوام اگر ملکر انکے خلاف قیام کریں تو انکے نیز سرکار کے خطرناک تمام منصوبے دم توڑ دیں گے کیونکہ جب انکا اتحاد اور رابطہ مضبوط ہو، طالبان تو کیا، کوئی بھی طاقت انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی کیونکہ اس سے پہلے بھی یہاں کے عوام شیعہ سنی دونوں فریق جانی و مالی نقصانات اٹھا چکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1140663
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عاشق حسین
Qatar
مجھے حیرت نہیں ہو رہی کہ انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی ہے بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی یہ بھوک کب مٹے گی، کب تک پختونخواہ کے عوام کے خون پر ڈالر لیتے رہینگے۔ کیا پختونوں کا خون کوئی قیمت نہیں رکھتا، انضمام میں جو 100 ارب کے وعدے کئے گئے تھے، وہ وعدے ہی رہ گئے۔
نمبر 1، صرف اپنے عوام کو مارنے میں نمبر 1 ہے، کبھی نہیں سنا کہ دشمن کو مار دیا، بس اپنے ہی عوام کو مارے جا رہے ہیں۔ کوئی طالبان نہیں ہے بلکہ معدنیات اور پاور کی جنگ ہے۔
جان جان
Pakistan
برائے مہربانی افسردہ مت ہوں
جان جان
Pakistan
اوہ! بہت برا ہوا
ہماری پیشکش