0
Tuesday 11 Jun 2024 15:11

فکر امام خمینی اور تابندگی (پہلا حصہ)

فکر امام خمینی اور تابندگی (پہلا حصہ)
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ابھی چند دن قبل ہی امام راحل امام خمینی رح کی 35ویں برسی تھی، اس موقع پر مجھے سوشل میڈیا پہ امام خمینی رح کی ذات پہ کیچڑ اچھالتے بدنسل لوگ بھی دیکھنے کو ملے اور ان سے بے پناہ محبت، عقیدت اور ان کے افکار و نظریات کے پرچارک بھی بڑی تعداد میں نظر آئے۔ امام خمینی گزشتہ صدی کی ایسی شخصیت تھے جن کو ان کی زندگی میں بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا تھا وہ بہ یک وقت اپنوں و غیروں کی پسندیدہ ترین اور ناپسند شخصیت کے طور پہ موجود تھے۔

اس کی زندہ مثال کہ جب وہ موجود تھے تو بہت سے ممالک کے کرپٹ، لٹیرے حکمرانوں سے ستائے عوام و خواص ہمیشہ ایک ہی جملہ کہتے کہ اب اس ملک کو اگر کسی نے ٹھیک کرنا ہے تو وہ خمینی جیسا ہوگا تو کر سکے گا ورنہ نہیں۔ بذات خود ہمارے ملک کے عام و خاص بھی یہی جملہ کہتے تھے کہ اس ملک کو ایک خمینی کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ان کے مخالفین جو ان سے تعصب رکھتے تھے، جو انہیں ایک منفی کردار کے طور پہ پیش کرتے تھے۔

ان کے پاس اگر کوئی قیادت تھی تو وہ صدام کی قیادت تھی، کرنل قذافی تھا، حسنی مبارک تھا، شاہ فہد تھا جو خود ظالم ترین، سفاک اور غیر جمہوری تھے، جن کے عوام ان کے مظالم کو کئی کئی برس سے سہہ رہے تھے، یہ لوگ آج بھی انہی بادشاہوں، انہی آمروں، انہی جابروں کے پیروکار اور چاہنے والے ہیں، انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ان لوگوں نے اپنے ممالک کے عوام کیساتھ کیا سلوک روا رکھا اور انہیں اس سے بھی غرض نہیں کہ یہ لوگ کیسے استعمار جہان باالخصوص امریکہ کی نمک حلالی کرتے رہے اور مسلمانوں کے مصائب میں کیسے کیسے اضافہ کا سبب بنے۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے داعش، القائدہ، طالبان جیسے نام نہاد جہادی گروہوں نے بہ ظاہر اسلام و جہاد کا پرچم بلند کیا، مگر اسلام کے ضعف و کمزوری نیز امت کی تقسیم و تفریق بلکہ تخریب کا باعث بنے مگر چونکہ یہ اسلام و جہاد کے علمبردار کے طور پر اٹھے تھے لہذا یہ ان کے ہیروز ہیں، جبکہ امام خمینی مولائے کائنات امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ کے اصول و ضابطے کہ حق بہ وسیلہ حق کے پیرو تھے، ان کی طرف سے کبھی حق کے حصول کیلئے کسی ظلم کے پروردہ یا ایجنٹ کا سہارا نہیں لیا گیا، کبھی انہوں اپنے مقصد کے حصول کیلئے کسی باطل کیساتھ کاندھا نہیں ملایا جبکہ یہ نام نہاد قیادتیں ہمیشہ استعمار کی مخالفت کے نام پہ استعمار کی کشتی میں سواری کو ترجیح دی۔

یہ غازی، يہ تيرے پر اسرار بندے
جنہيں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
دو نيم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دريا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہيبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بيگانہ دل کو
عجب چيز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنيمت نہ کشور کشائی


کہاں امام خمینی اور ان کی انقلابی، الہٰی و روحانی قیادت اور کہاں امریکہ کا تیار کردہ مصنوعی عرب ہیرو صدام، جس نے امریکہ کے کہنے پہ پہلے ایران پہ حملہ کیا، آٹھ برس تک مسلسل دنیا بھر کے استعماری ممالک اور عرب بادشاہ صدام کو پالتے رہے اور بعد ازاں اسی عرب ہیرو صدام نے کویت پہ حملہ کیا اور قابض ہوا، حکمران خاندان کو بھاگنا پڑا، تب سعودیہ پہ بھی کئی میزائیل چلائے، مگر پھر بھی متعصب، فرقہ پرست اور جاہل ملاؤں کا پسندیدہ رہا، وجہ کیا تھی کہ صدام امریکہ کی آنکھ کا تارہ تھا جو ایک شیعہ مجتہد کی انقلابی و استعمار دشمن فکر نیز جمہوری حکومت کی داغ بیل قبول نہیں کر سکتے تھے، لہذا صدام کی مدد جاری رہی تاوقتیکہ صدام کو روایتی طور پہ استعمال کرنے کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینکنے کا وقت نہیں آ گیا۔

ایران جو عرب بادشاہتوں کے درمیان ایک قدیم ترین قوم فارس کا ملک ہے۔ اس میں ایک شیعہ مجتہد کی رہبری میں آنے والے اسلامی انقلاب نے گہرے اثرات مرتب کرکے خطے کی بادشاہتوں کے مظالم اور جبر کے شکار لوگوں میں حریت فکر پیدا کرکے انہیں مزاحمت و مقامومت کا میدان سجانے پہ آمادہ کر سکتے تھے، اسی خطرہ کے پیش نظر سادہ لوح عوام کو دھوکہ دیتے ہوئے، صیہونی ایجنٹوں نے پراپیگنڈا کیا کہ اس سے سنیت کو خطرہ ہے، اس انقلاب اور بانی انقلاب کے نظریات و افکار سے عرب بادشاہتوں کو شدید خطرات لاحق دکھائے گئے۔

ان کا زور تھا کہ جمہوری اسلامی ایران کے قیام سے مسلمانوں کے ایک مخصوص فرقے کو نمایاں ہونے کا موقع ملا ہے۔ ان کی فتح مندی سے دیگر اسلامی فرقے نہ صرف خسارہ میں رہیں گے بلکہ انہیں مستقبل میں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا۔ افسوسناک واقعہ ہے کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ اسلامی فرقوں کے باہمی اختلافات، کشمکش اور دار و گیر کی داستان سے لبریز رہی ہے۔ اسلیے عام ذہنوں کو پروپیگنڈے سے گمراہ کیا جاتا رہا ہے اور کیا جارہا ہے۔

سعودی عرب، مصر، عراق، اردن، مراکش کے زرخرید، جن میں بعض عمامہ و دستار سے بھی مزین ہیں، تمام ذرائع ابلاغ استعمال کرکے مسلمانوں کو باور کرانے کی جدوجہد میں مصروف تھے اور ہیں کہ جمہوری اسلامی ایران کا قیام اسلامی سواد اعظم کے مفاد کے خلاف ہے جس سے مستقبل میں زبردست نقصانات کے امکانات ہیں۔ اس لیے عراقی فوجی حملہ نہ صرف یہ کہ صحیح گردانا گیا بلکہ اسے وقت کی سب سے بڑی خدمت قرار دیا گیا۔

عام مسلمانوں کو متحد ہوکر عراق سے تعاون کرنے کی اپیل کی گئی۔ امام خمینی رح نے ایسے ماحول میں وحدت المسلمین کا شعار بلند کیا جب ان پہ فرقہ واریت مسلط کی جانے کا گھناؤنا ایجنڈا کارفرما تھا، انہوں ہفتہ وحدت اور عالمی یوم القدس جیسے پیغامات سے امت کی شیرازہ بندی کا درس دیا، جسے عوام نے تو قبول کیا، مگر سازشی حکمرانوں کو اسے قبول کرنا موت دکھائی دیتا تھا

(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 1141066
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش