1
1
Friday 7 Jun 2024 18:02

طوفان الاقصیٰ اور رہبر انقلاب کا موقف

طوفان الاقصیٰ اور رہبر انقلاب کا موقف
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امام خمینی (رہ) کی برسی کے موقع پر اپنے خطاب میں یوں تو کئی اہم موضوعات پر عالمانہ اور ماہرانہ روشنی ڈالی ہے، لیکن فلسطین بالخصوص طوفان الاقصی آپریشن کے بارے میں جو نقطہ نظر پیش کیا ہے، اس نے اس آپریشن کی افادیت کو ایک بار پھر عالمی تجزیوں کا موضوع بنا دیا ہے۔ رہبر انقلاب کے خطاب میں پہلا نکتہ مغربی ایشیائی خطے کے لیے طوفان الاقصیٰ طوفان آپریشن کی اہمیت تھا۔ اس سلسلے میں، انہوں نے زور دے کر کہا: "آپریشن طوفان الاقصیٰ بالکل وہی تھا، جس کی خطے کو ضرورت تھی۔ رہبر انقلاب کے بقول معجزے جیسے طوفان الاقصیٰ آپریشن نے خطے اور عالم اسلام پر تسلط کی دشمن کی بڑی سازش کو ناکام بناتے ہوئے صیہونی حکومت کو زوال کے راستے پر ڈال دیا ہے اور غزہ کے عوام کی ایمانی اور قابل تحسین مزاحمت کے سائے میں، صیہونی حکومت دنیا والوں کی نظروں کے سامنے پگھلتی جا رہی ہے۔

رہبر انقلاب کے نقطہ نظر سے خطے میں اس آپریشن کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کی بنیادی وجہ آیت اللہ خامنہ ای کے بیانات میں بھی بیان کی گئی اور وہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کا مغربی ایشیائی خطے اور عالم اسلام پر تسلط کا جو پیچیدہ منصوبہ بنایا گیا تھا اور اس پر تیزی سے عمل کیا جا رہا تھا، وہ اس آپریشن کے بعد رک گیا۔ یہ ایک وسیع اور جامع امریکی روڈ میپ تھا، جو صیہونی عناصر اور ان کے حواریوں اور بعض علاقائی حکومتوں نے تیار کیا تھا، اس جامع نقشے کی بنیاد پر خطے کے تعلقات اور مساوات کو بدلنا تھا۔ رہبر انقلاب نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی وجہ سے صیہونی حکومت کے میدان کے ایک گوشے میں پھنس جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ امریکا اور بہت سی مغربی حکومتیں بدستور اس حکومت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن وہ بھی جانتی ہیں کہ غاصب حکومت کی نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے خطے کی اہم ضرورت کی تکمیل اور مجرم حکومت پر کاری ضرب کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کی دو اہم خصوصیات بتایا اور کہا کہ امریکا، عالمی صیہونزم کے ایجنٹوں اور بعض علاقائی حکومتوں نے خطے کے حالات اور روابط کو بدلنے کے لیے ایک بڑی اور دقیق سازش تیار کر رکھی تھی، تاکہ صیہونی حکومت اور خطے کی حکومتوں کے درمیان اپنے مدنظر روابط قائم کروا کر مغربی ایشیا اور پورے عالم اسلام کی سیاست اور معیشت پر منحوس حکومت کے تسلط کی راہ ہموار کر دیں اور یہ منحوس چال عملی جامہ پہننے کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی کہ الاقصیٰ کا معجزاتی طوفان شروع ہوگیا اور اس نے امریکا، صیہونزم اور ان کے پٹھوؤں کے تمام تاروپود بکھیرے دیئے، اس طرح سے کہ پچھلے آٹھ مہینے کے واقعات کے بعد اس سازش کی بحالی کا کوئی امکان نہیں ہے۔

اس تناظر میں اس بات کا بھی ذکر کیا جا سکتا ہے کہ صیہونی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کے بہت قریب تھے۔ الاقصیٰ آپریشن نے ایک نازک لمحے میں اس منصوبے کو منسوخ کرنے کا باعث بنا اور اب اس بات کی زیادہ امید نہیں ہے کہ وہ اس منصوبے کو بحال کر سکیں گے۔" اہم نکتہ یہ تھا کہ  طوفان الاقصیٰ نے نہ صرف مغربی ایشیائی خطے پر صیہونی حکومت کے تسلط کو باطل کر دیا بلکہ یہ مغربی ایشیاء میں اس خطے کی شبیہ اور پوزیشن کے لیے ایک فیصلہ کن دھچکا بھی ثابت ہوا۔ اس آپریشن اور غزہ پٹی میں 8 ماہ کی جنگ نے نہ صرف صیہونی حکومت کی اندرونی کمزوریوں اور خطرات کو بے نقاب کیا بلکہ داخلی سیاسی تقسیم میں بھی اضافہ کیا، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ظاہر ہوا کہ صیہونی حکومت جیسا کہ وہ دعویٰ کرتی ہے، نہ فوجی قوت اور نہ ہی انٹیلی جنس صلاحیت میں ناقابل شکست ہے۔ اب خطے میں اس کا یہ رعب و دبدبہ ختم ہوگیا ہے۔

اسی بنا پر آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: یہ کارروائی صیہونی حکومت کے لیے ایک فیصلہ کن دھچکا تھا، یہ ایک ایسا دھچکا ہے، جس کا کوئی علاج نہیں ہے اور صیہونی حکومت اس ضربے کے نتیجے میں ایسی مصیبتوں میں مبتلا ہوئی ہے، جس سے وہ سنبھل نہیں سکے گی۔" ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ غزہ کے عوام کے خلاف صیہونی حکومت کی بربریت اور ان گنت جرائم کی مختلف وجوہات ہیں، لیکن بنیادی وجہ مغربی ایشیائی خطے پر تسلط قائم کرنے کے لیے صیہونی حکومت کا ماسٹر پلان  ہے، جو طوفان الاقصی کے بعد  قصہ پارینہ  لگتا ہے۔ رہبر انقلاب نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی دوسری خصوصیت یعنی صیہونی حکومت پر کاری اور ناقابل تلافی ضرب لگانے کی تشریح کرتے ہوئے امریکی و یورپی تجزیہ نگاروں اور ماہرین یہاں تک کہ خود منحوس حکومت کے پٹھوؤں کے اعترافات کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ غاصب حکومت اپنے بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود ایک مزاحمتی گروہ سے بری طرح شکست کھا چکی ہے اور آٹھ مہینے کے بعد بھی اپنے کسی کم ترین ہدف کو بھی حاصل نہیں کرسکی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اکیسویں صدی کو بدلنے کے لیے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی طاقت کے بارے میں ایک مغربی تجزیہ نگار کے تبصرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے تجزیہ نگاروں اور مؤرخین نے بھی صیہونی حکومت کی سراسیمگی اور بدحواسی، الٹی ہجرت کی لہر، مقبوضہ علاقوں میں رہنے والوں کی حفاظت میں ناتوانی اور صیہونیت کے پروجیکٹ کے آخری سانسیں لینے کی طرف اشارہ کیا ہے اور زور دے کر کہا کہ دنیا، صیہونی حکومت کے خاتمے کے شروعاتی مرحلے میں ہے۔ رہبر معظم نے مقبوضہ فلسطین سے الٹی ہجرت کی لہر کے سنجیدہ ہونے کے بارے میں ایک صیہونی سکیورٹی تجزیہ نگار کے تبصرے کی طرف اشارہ کرتے کہا کہ اس صیہونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیلی حکام کی بحثوں اور ان کے درمیان اختلافات کی باتیں میڈیا میں آجائیں تو چالیس لاکھ لوگ اسرائیل سے چلے جائیں گے۔

آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے مسئلۂ فلسطین کے دنیا کے پہلے مسئلے میں بدل جانے اور لندن، پیرس اور امریکی یونیورسٹیوں میں صیہونیت مخالف مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکی و صیہونی میڈیا اور پروپیگنڈہ مراکز نے برسوں تک مسئلۂ فلسطین کو بھلا دیئے جانے کے لیے کوشش کی، لیکن طوفان الاقصیٰ اور غزہ کے عوام کی مزاحمت کے سائے میں آج فلسطین، دنیا کا پہلا مسئلہ ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن کا ایک اہم ترین نتیجہ مسئلہ فلسطین کا دنیا کے پہلے مسئلے میں تبدیل ہونا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک صیہونی حکومت کے خلاف اور فلسطینی عوام کے دفاع میں ہم عوامی مظاہرے دیکھ رہے ہیں۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی کے الفاظ میں، "آج فلسطین کا مسئلہ دنیا کا پہلا مسئلہ ہے، لندن کی گلیوں، پیرس کے چوکوں، امریکی یونیورسٹیوں میں، اہل مغرب فلسطین کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔

فلسطینی عوام اور صیہونی حکومت کے خلاف امریکہ بھی پوری دنیا کے عالمی اجماع کے سامنے غیر فعال ہے اور اسے جلد ہی صیہونی حکومت کی پشت سے ہاتھ ہٹانا پڑیں گے۔ فلسطین کا مسئلہ ایسی صورت حال میں دنیا کا پہلا مسئلہ بن گیا ہے، جب امریکہ اور امیر صہیونی مراکز سے وابستہ میڈیا نے مسئلہ فلسطین کو دھندلا بنانے کی کوشش کی اور آہستہ آہستہ اسے بھلا دیا۔ طوفان اقصیٰ اور غزہ جنگ کے بارے میں رہبر معظم انقلاب کے بیانات کا ایک اور نکتہ یہ تھا کہ ’’فلسطینی قوم تمام تر مشکلات کے باوجود مزاحمت سے باز نہیں آئی۔‘‘ فلسطینی عوام کی مزاحمت کے لیے عوامی حمایت ایسی حالت میں ہے کہ رہبر انقلاب کے بقول، "صیہونی حکومت دنیا کے لوگوں کی نظروں کے سامنے بتدریج پگھل رہی ہے، اس کا خاتمہ ہو رہا ہے۔"

رہبر معظم انقلاب نے چالیس ہزار لوگوں کی شہادت اور پندرہ ہزار بچوں اور نومولود و شیر خوار بچوں کی شہادت سمیت غزہ کے لوگوں کے مصائب کو صیہونیوں کے چنگل سے نجات کی راہ میں فلسطینی قوم کے ذریعے ادا کی جانے والی بھاری قیمت بتایا اور کہا کہ غزہ کے لوگ، ایمان اسلامی اور قرآنی آیات پر عقیدے کی برکت سے بدستور مصائب برداشت کر رہے ہیں اور حیرت انگیز استقامت کے ساتھ مزاحمت کے مجاہدین کا دفاع کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1141090
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

حسن نواز
Pakistan
بہت خوب لکھا ہے۔
ہماری پیشکش