0
Tuesday 26 Jan 2021 22:39

آہ! سرمایہ ملت ڈاکٹر ریحان اعظمی

آہ! سرمایہ ملت ڈاکٹر ریحان اعظمی
تحریر: ارشاد حسین ناصر

دنیا کے سب سے معروف اور اس دور کے سب سے بلند مرتبہ شاعر، جس نے تسلسل سے کئی برسوں سے اپنے قلم کی طاقت، نظریات و احساسات، حب اہلبیت (ع)، کربلا سے تمسک، امام حسین اور ان کے جاں نثار ساتھیوں سے والہانہ عشق کا مظاہرہ اپنے کلام، نوحہ، مرثیہ، منقبت اور نعت و نثر کی صورت میں کیا، آج اس فانی دنیا سے ابدی مقام کی طرف رخصت ہوگئے۔ جناب ڈاکٹر ریحان اعظمی کا نام کسی سے پوشیدہ نہیں، نہ ہی انہیں کسی تعارف کی ضرورت تھی، وہ آپ اپنا تعارف تھے۔ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ باب العلم کے ماننے والوں نے ہر دور میں والیء نجف کے در سے علم و شعور کی خیرات حاصل کی اور عام و خاص کو اس سے مستفید کیا، مگر گذشتہ چار دہائیوں سے ڈاکٹر ریحان اعظمی کو اس در سے جو ملا اور انہوں نے اسے جس طرح تقسیم کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انہیں جو کربلا اور کربلا والوں سے عشق تھا، اس کی شدت کا اندازہ لگانا بہت آساں ہے۔

باقی سب چھوڑ دیں کہ انہوں نے کتنا لکھا، کتنا پڑھا اور کہاں کہاں کیا پڑھا، فقط اس بات کی عظمت کا اندازہ لگا لیں کہ کیسٹوں کے زمانے میں جب ہر محرم میں سینکڑوں نوحہ خواں نوحوں کی کیسٹس ریلیز کرتے تھے اور سب کی خواہش ہوتی تھی کہ جناب ریحان اعظمی انہیں کلام دیں، تاکہ ان کے کلام کو پڑھ کے انہیں عوامی پذیرائی حاصل ہو۔ یہ بات شائد کوئی تسلیم نہ کرے، مگر یہ ایک کھلی حقیقت ہے، جس کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو میں بھی کیا تھا کہ سوال کیا گیا آپ کا کلام پڑھ کر لوگوں نے دولت کے انبار اور پذیرائی کے ریکارڈ توڑ ڈالے، آپ کو کبھی کسی نے کچھ دیا تو انہوں نے چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی نوحہ خواں مجھے بتائے کہ اس نے کبھی کسی کلام کیلئے ریحان اعظمی کو ایک پائی بھی دی ہے، جبکہ یہ بات بہت تلخ ہے کہ یہی نوحہ خواں دنیا بھر میں گھومتے، پروگرام کرتے اور واہ واہ حاصل کرتے ہوئے دولت کے انبار بھی جمع کرتے آئے ہیں۔

ریحان اعظمی کئی ایک بار سخت علیل ہو کر اسپتالوں میں داخل رہے اور اس سے قبل بھی ان کی موت کی خبریں نشر ہوئیں، مگر موت کا جو دن معین تھا، وہ بالآخر آگیا، ان کو جہاں دیگر بہت سے صدمے سہنے پڑے اور زندگی کے ایام میں سختی دیکھی، وہاں ان کیلئے جواں سال فرزند سلمان اعظمی کی بے وقت موت کا صدمہ بہت ہی بھاری اور گراں گذرا۔ ایک باپ کیلئے اس سے بڑھ کر کیا صدمہ ہوسکتا ہے کہ اس کا جواں سال فرزند اس کے ہاتھوں میں جاں دے دے۔ جناب ریحان اعظمی کو اس صدمے نے شائد اندر سے خالی کر دیا تھا، جس کے باعث وہ اسپتالوں کے بستروں پر نظر آنے لگے۔ وہ عظیم عاشق کرب و بلا، محب اہلبیت (ع) خادم ملت، ایک نابغہ، ایک سرمایہ آج ہمیں مغموم کرکے اپنے حقیقی وارثوں کے پاس پہنچ گیا۔ انہوں نے کیا خوب کہا تھا کہ
دفن کر دیں گے مجھے جب لوگ پاکستان میں
دو فرشتے آئیں گے کرب و بلا لے جائیں گے


کربلا سے ان کا عشق چھلک رہا ہے، وہ کربلا جانے کیلئے اور مشی کرنے کیلئے بہت بے تاب تھے، تب ہی کہتے ہیں۔
کریم کرب و بلا معجزا دکھا دیجئے
کربلا یاد بہت آتی ہے بلا لیجئے
صدا ریحان عزا کی ہے بر زبان ِرضا
میں اربعین پہ مشی کرونگا اے مولا
پھر ایک بار مجھے پائوں پر چلا دیجئے
کربلا یاد بہت آتی ہے بلا لیجئے

ملت کے ہر دکھ اور مسئلہ پر اس حساس دل کے مالک نے اپنے دکھ اور کیفیت کا اظہار کیا، حالیہ سانحہ مچھ کوئٹہ کے حوالے سے بھی انہوں نے جو کہا، اس کے دو شعر نظر قارئین ہیں:
خونِ ناحق نہ چھپا تھا نہ چھپا پا ئوگے
خون تو عرشِ معلی کو ہلا دیتا ہے
حکمِ رب ہے کسی ظالم کی حمایت نہ کرو
وقت مظلوم کے قاتل کو سزا دیتا ہے


ڈاکٹر ریحان اعظمی نے اپنے شہر کراچی کی حالت زار اور قتل و غارت نیز امن و امان کی بدترین صورتحال پر خاموش نہیں رہے:
اب تو بس ایک کام شہر میں ہے
طے شدہ قتل عام شہر میں ہے
بہہ رہا ہے گلی گلی میں لہو
بے خطا انتقام شہر میں ہے
اٹھ رہے ہیں گلی گلی تابوت
بس یہی صبح و شام شہر میں ہے

اور
پانی مہنگا ہے خون سستا ہے
پھر بھی زندہ عوام شہر میں ہے


امام رضا کا دسترخوان اور مہمان سرائے پوری دنیا میں معروف ہے۔ مشہد مقدس میں امام ہشتم امام رضا کا روضہء انوار جس طرح عشاق اہلبیت کے قلوب کو منور کرتا ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ڈاکٹر ریحان اعظمی نے امام رضا اور ان کے مرقد منور سے اپنی والہانہ عقیدت کاا ظہار یوں کرتے نظر آتے ہیں۔
حب رضا حب علی حب نبی ہے
رکھ کر اسے ایمان کی میزان میں دیکھو
مہمان نوازی میرے مولا کی ہے مشہور
زائر بنو جائو کبھی ایران میں دیکھو


نامور عالم دین اور خطیب جناب طالب جوہری مرحوم کی رحلت پہ ریحان اعظمی کا قلم یوں گویا ہوا:
صدائے کربلا ہے اور میں ہوں
مسلسل رابطہ ہے اور میں ہوں
فرشتو آئو بیٹھو سن کے جانا
حسینی تذکرہ ہے اور میں ہوں
 لحد میں تم مجھے تنہا نہ سمجھو
میرا مشکل کشا ہے اور میں ہوں
لحد میں  نے عزاخانہ بنا لی
کفن فرشِ عزا ہے اور میں ہوں
 مثالِ حر میں گہری نیند میں ہوں
یہ زانو شاہ کا ہے اور میں ہوں
میری محنت سوارت ہوگئی ہے
درِ جنت کھلا ہے اور میں ہوں
کتب خانہ بنایا تھا جو میں نے
وہی مدفن میرا ہے اور میں ہوں
دعا ریحان مجھ کو دینے والا
وہ عالم جا رہا ہے اور میں ہوں


عالمی شہرت یافتہ شاعرِ اہلبیت معروف نوحہ و مرثیہ نگار ڈاکٹر ریحان اعظمی صاحب کی مناقب کی دو کتب "نوائے نجف" اور "تہذیبِ منقبت" اور ایک مراثی کا مجموعہ ریحانِ رثا شائع ہوچکے ہیں۔ ڈاکٹر ریحان اعظمی کی اتنی بلند قامت شخصیت کو محدود صفحات میں سمونا یقیناً ممکن نہیں۔ ان کی شاعری، ان کی قومی و ملی خدمات، ان کے خلوص، ان کی زندگی کے تلخ و شیریں پہلوئوں اور ان سے فیضیاب ہونے والوں پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہوگا، خدا کرے کہ ہماری قوم ان کا حق ادا کر سکے۔
خبر کا کوڈ : 912569
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش