0
Thursday 16 May 2024 18:56

جنگلات اور گیسٹ ہاؤسز معاملے پر پہلے اتمام حجت، پھر عوام میں جائیں گے، کاظم میثم

جنگلات اور گیسٹ ہاؤسز معاملے پر پہلے اتمام حجت، پھر عوام میں جائیں گے، کاظم میثم
اسلام ٹائمز۔ اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی و پارلیمانی لیڈر ایم ڈبلیو ایم جی بی کاظم میثم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیراعلٰی گلگت بلتستان کس آئینی مسودے کی بات کر رہے ہیں قوم کو آگاہ کریں۔ انہوں نے جس انداز سے آئینی مسودے کا ذکر کیا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی سیٹ اپ قابل قبول نہیں ہوگا۔ پورے گلگت بلتستان کا مستقبل کوئی مذاق نہیں ہے۔ اس ایشو پر پوری قوم کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھنا ہوگا۔ دو ارب کی بجٹ کٹوتی اتحادی جماعتوں سے جنکی وفاق میں حکومت ہے بحال نہیں ہو رہی وہ کس طرح کے آئینی حقوق اور سیٹ اپ کی بات کر رہے ہیں۔ حفیظ الرحمان اور امجد ایڈووکیٹ پہلے ہمارے حصے کے بجٹ کو بحال کریں اس کے بعد جی بی کو سوئٹزرلینڈ بنانے کی بات کریں۔
 
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ جنگلات اور گیسٹ ہاوسز کے معاملے پر وزیراعلٰی کو اتمام حجت کریں گے اس کے بعد حکومت کو سمجھ نہ آئی تو عوام میں جائیں گے۔ جنگلات اور گیسٹ ہاوسز کو لیز آوٹ کرنے کے حوالے سے ہم نے مقتدر حلقوں کو بھی تحفظات سے آگاہ کیا تھا اور مقتدر حلقوں کا واضح موقف تھا کہ سرمایہ کاری کروانے کے تمام تر اختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہے، کس شعبے کو ایس آئی ایف سی میں شامل کرنا ہے کس کو نہیں یہ صوبائی حکومت طے کرے گی۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ اسمبلی کو اور تمام سٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی اقدام نہیں اٹھایا جائے گا لیکن صوبائی حکومت نے جس انداز میں واردات کی ہے وہ قابل مذمت ہے۔ 
 
کاظم میثم نے کہا کہ ہم نے یہ بھی بتایا تھا کہ صوبائی حکومت اداروں کو صحیح نقشہ پیش کرنے کی بجائے گمراہ کر رہی ہے اور زمینوں کے معاملے میں انتہائی حساسیت ہوتی ہے انکے غلط فیصلے کی وجہ سے ادارے اور عوام کا آمنا سامنا ہوگا۔ حساس اور متنازعہ خطے کی زمینوں کو کیسے کسی باہر کی کمپنی کو دی جاسکتی ہے۔ یہاں کی متنازعہ حیثیت کے سبب کوئی نیشنل اسمبلی نہیں جاسکتا، سینٹ نہیں جاسکتا کوئی آرمی چیف نہیں بن سکتا، کوئی وزیراعظم نہیں بن سکتا تو کیسے یہاں کی زمینوں کو تیس تیس سالوں کے لیے لیز پہ دیا جا سکتا ہے۔ عوام کی زمینوں پر جنگلات کے فوائد بیان کرکے ہتھیا لینا اور ان زمینوں کو ہوٹل بنوا لینا ماحولیات کو تباہ کرنے کی مانند ہے۔
 
 اُنہوں نے کہا کہ ضرورت تو بنجر زمینوں پہ درخت لگا کر ماحولیات کو بچانا تھا لیکن یہ تماشہ ہو رہا ہے۔ عوامی جنگلات کو ریزورٹ بنا کر چند پیسے دے کر بہلانے کی کوشش کرنے والوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان 30 سالوں کے لیے جنگلات عوام کے ہی حوالے کرو تو زیادہ کمائی بکریاں چرا کر اور جڑی بوٹیاں بیچ کر ہوگی۔ اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ بعض افلاطون یہ فلسفہ بیان کر رہے ہیں کہ گورنمنٹ گیسٹ ہاوسز کی انکم کیا تھی اور نقصان ہی نقصان تھا۔ ان کو یہ بتادوں کہ گورنمنٹ ہاوسز بزنس کے لیے نہیں ہوتے۔ نہ پی ڈبلیو ڈی، جنگلات اور زراعت کا کام کاروبار کرنا ہے۔ ان کا ڈومین بزنس کرنا نہیں بلکہ سروس دینا ہے۔ گیسٹ ہاوسز ان اداروں کی ضروریات ہوتے ہیں۔
 
ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو جرائم روکنے اور قانون کی عملداری کے لیے رکھی جاتی ہے، ہم جرائم میں اضافے کو وجہ قرار دیکر پولیس کو ختم کرنا نہیں ہوتا بلکہ انکو مزید بہتر کرنا ہوتا ہے۔ محکمہ جنگلات، زراعت، ماہی پروری کے لیے ہزاروں کنال عوام نے زمینیں اس لیے نہیں دیں کہ کسی شہری سرمایہ کار کو بخش دیں۔ علاقے میں سرمایہ کاروں کو لانے کے اس سے بہتر طریقے موجود ہیں۔ عرب امارت کی سرمایہ کاری کے ماڈل کو ہی دیکھ تو اندازہ ہوجائے گا کہ اس وقت گلگت بلتستان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے مزید کہا کہ خدا کا خوف کھائیں اور جنگلات کو جنگلات ہی رہنے دیں۔ اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی بجائے اداروں کا قتل نہ کریں۔ 
 
چھتری سے اترے ہوئے لوگوں کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ ان گیسٹ ہاوسز کو لینے کے کریٹیریا پہ نہیں اترتے، آپ نے پالیسی ہی ایسی بنائی ہے کہ مقامی لوگ ہمیشہ غلام ہی رہیں ورنہ جو کرایہ طے ہو رہا ہے وہ جی بی کا ایک چرواہا بھی پورا کر سکتا ہے۔ حکومتی ذمہ داروں سے میں گزارش کرتا ہوں اپنی آئندہ نسل کی فکر کریں، چند دن کی کرسی کے لیے ایسے فیصلے نہ کریں جس کے بعد رسوائی ہی ہو۔ امجد ایڈووکیٹ اور حفیظ الرحمان بھی لب کھولیں اور عوام کے ساتھ کھڑے ہوجائیں۔ صرف اس خطے میں حکومت کے لیے جان جوکھوں کی بازی نہ لگائیں اس خطے کے مستقبل پہ بھی تھوڑی سی جدوجہد کریں۔
خبر کا کوڈ : 1135534
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش