0
Monday 10 Jun 2024 20:28

خیبر پختونخوا میں گزشتہ سال عوامی بے چینی اور قتل و غارت باعثِ تشویش رہی، ایچ آر سی پی

خیبر پختونخوا میں گزشتہ سال عوامی بے چینی اور قتل و غارت باعثِ تشویش رہی، ایچ آر سی پی
اسلام ٹائمز۔ پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں گزشتہ سال عوامی بے چینی اور قتل و غارت گری سمیت دیگر واقعات باعثِ تشویش رہے۔ 2023ء میں انسانی حقوق کی صورت حال سے متعلق سالانہ رپورٹ میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے کہا کہ گزشتہ برس پریشان کن واقعات کا آغاز صوبائی اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل سے ہوا۔ اس کے بعد صوبائی انتخابات نہ ہونے کے باعث شہری سال بھر نمائندگی سے محروم رہے اور ایک بھی قانون منظور نہیں ہوا۔ رپورٹ کے مطابق صوبائی انتخابات کے انعقاد تک بلدیاتی اداروں کو معطل کرنے کے حکم کو خوش قسمتی سے پشاور ہائی کورٹ نے مسترد کر دیا، جس سے منتخب بلدیاتی نمائندوں کو اپنے ووٹرز کو خدمات کی فراہمی جاری رکھنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد اگست میں 21 اضلاع میں 72 اہم عہدوں کے لیے بلدیاتی انتخابات کرائے گئے۔

اسی طرح صوبے میں امن و امان کی صورتحال ابتر ہوگئی اور 160 سے زائد پولیس اہلکار، 70 سے زائد فوجی اہلکار، 60 سے زائد عام شہری اور 170 سے زائد مبینہ عسکریت پسند، عسکریت پسندوں کے درجنوں ٹارگٹڈ حملوں اور سکیورٹی آپریشنز میں مارے گئے، تاہم ان سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کی ایک گمراہ کن کوشش کی گئی، جب وفاقی نگراں حکومت کے ایک اعلان کے بعد تقریباً 212,000 افغان مہاجرین اور تارکین وطن کو صوبے سے زبردستی ملک بدر کر دیا گیا۔ سال بھر کے دوران صوبے میں وسیع پیمانے پر عدم اطمینان واضح رہا اور سیکڑوں اساتذہ، ڈاکٹروں، ہیلتھ ورکرز و سینیٹری ورکرز نے صوبے بھر میں الگ الگ مظاہروں میں تنخواہوں اور دیگر واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کے خلاف احتجاج کیا۔ سرحد کی بندش نے ہزاروں لوگوں کی نقل و حرکت کی آزادی کو محدود کر دیا اور 9 مئی کے احتجاج کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے سیکڑوں رہنماؤں و کارکنوں کو گرفتار کرنے کے ساتھ انجمن سازی کی آزادی پر پابندیاں بھی بڑھ گئیں۔

صحت عامہ اور ماحولیاتی بحرانوں نے شہریوں کو کافی نقصان پہنچایا، نیز کم از کم 11 فیصد آبادی منشیات کے استعمال کا شکار ہوئی۔کئی اضلاع میں بارشوں، سیلاب اور آندھی اور طوفان کے باعث تقریباً 40 اموات ہوئیں۔ عدالتی احکامات کے باوجود معذوری کا شکار افراد بھی زیادہ تر عمارتوں تک رسائی سے محروم رہے۔ مزید برآں، 47 لاکھ بچے، جن میں 66 فیصد لڑکیاں شامل تھیں، اسکول سے باہر رہے۔
خبر کا کوڈ : 1140902
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش