0
Thursday 17 May 2018 19:07

اصحاب امام علی (ع) کا احتجاج

اصحاب امام علی (ع) کا احتجاج
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

شیعیت کی سیاسی اور اجتماعی تاریخ کی ابتداء پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی رحلت کے بعد سے شروع ہوئی، جو امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت تک جاری رہی اور اس عرصے کی ابتداء میں ہی امامت و خلافت کا مسئلہ ایک اہم سیاسی اور دینی مسئلے کے طور پر جہان اسلام میں پیش ہوا اور اس سلسلے میں بہت سارے اختلافات رونما ہوئے، جن میں سے شیعہ امامت کے مسئلے میں نص اور نصب نبی کا عقیدہ رکھتا تھا، جبکہ دوسری طرف انصار و مہاجرین میں سے بعض افراد جانشین پیغمبر اور امت اسلامی کے رہبر کے انتخاب کے لئے سقیفہ بن ساعدہ میں جمع ہو گئے تھے۔ طویل گفت و شنید کے بعد ان کی اکثریت نے ابو بکر کے ہاتھوں پر بیعت کی اور یوں ابوبکر نے زمام امور سنبھال لیا اور تقریبا دو سال سات مہینے بر سر اقتدار رہے۔ اس عرصے کی ابتداء میں حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے پیروکاروں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور مختلف اور مناسب مقامات پر اپنے عقیدے کی وضاحت کی۔

ابن قتیبہ کی روایت  کے مطابق جب ابوبکر کے حکم سے حضرت علی علیہ السلام کو لایا گیا اور انہیں بیعت کرنے کا حکم دیا گیا تو آپنے فرمایا: (انا احق بهذا الامر منکم، لا ابایعکم و انتم اولی بالبیعة لی) ۔1 میں تم سے زیادہ خلافت و امامت کے لئے شایسۃ اور حقدار ہوں، میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا، تم لوگ میری بیعت کرنے کے لئے زیادہ سزاوار ہو۔ عمر اور ابو عبیدۃ بن جراح نے حضرت علی علیہ السلام سے مخاطب ہو کر کچھ کہنے کے بعد اور آپ ؑکو ابو بکر کی بیعت کرنے کو کہا لیکن آپ ؑنے دوبارہ اسی بات کی تکرار کی اور فرمایا: (فو الله یا معشر المهاجرین، لنحن احق الناس به، لانا اهل البیت و نحن احق بهذا الامر منکم ما کان فینا القاری لکتاب الله، الفقیه فی دین الله، العالم بسنن رسول الله، المضطلع بامر الرعیة، المدافع عنهم الامور السئیة، القاسم بینهم بالسویة، والله انه یفینا فلا تتبعوا الهوی فتضلوا من سبیل الله، فتزدادوا من الحق بعدا)۔2 اے مہاجرین خدا کی قسم ہم اہل بیت امت اسلامی کی رہبری اور خلافت کے لئے لوگوں میں اس وقت تک سب سے زیادہ حقدار اور سزاوار ہیں جب تک ہمارے درمیان قاری قرآن، فقیہ، سنت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگاہ، لوگوں کی رہبری کے لئے قدرتمند، برے کاموں سے دفاع کرنے والا اور بیت المال کو مساوات سے تقسیم کرنے والا موجود ہے اور خدا کی قسم ایسا صرف خاندان رسالت میں موجود ہے۔ لہذٰا تم خواہشات نفسانی کی پیروی چھوڑ دو کیونکہ اس سے تم گمراہ اور حق سے دور ہو جاو گے۔

حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں نے بھی ابوبکر کے سامنے صاف و شفاف الفاظ میں حضرت علی علیہ السلام کی امامت بلافصل پر اپنے عقائد بیان کئے تھے۔ شیخ صدوق نے انصار و مہاجرین میں سے ان بارہ افراد (مہاجرین سے خالد بن سعید بن عاص، مقداد بن اسود، عمار بن یاسر، ابوذر غفاری، سلمان فارسی، عبداللہ بن مسعود، بریدہ اسلمی جبکہ انصار سے خزیمۃ بن ثابت، سہل بن حنیف، ابو ایوب انصاری، ابو الہیثم بن تیہان اور زید بن وہب تھے) کا نام ذکر کیا ہے جنہوں نے دلائل و برہان کے ذریعے ابوبکر کے سامنے احتجاج کیا، البتہ ان کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ احتجاج کرنے والے افراد اس سے بھی زیادہ تھے چونکہ مذکورہ افراد کے ذکر کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں: (و غیرهم) اور آخر میں زید بن وہب کی تقریر کی طرف اشارہ کرتے ہیں، (فقام جماعة بعده فتکلموا بنحوها هذا) اس کے بعد ایک گروہ نے بھی انہیں مطالب کی طرح گفتگو کیا۔ البتہ اس گروہ نے پہلے آپس میں مشورہ کیا اور ان میں سے بعض کا خیال تھا کہ ابوبکر کو منبر سے نیچے اتارا جائے لیکن بعض نے اس روش کو پسند نہیں کیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ امیر المومنین علیہ السلام سے مشورہ کیا جائے چنانچہ آپؑ نے لڑائی جھگڑے سے انہیں روکا اور فرمایا، اس کام میں مصلحت نہیں ہے اس بنا پر آپ ؑنے انہیں صبر و تحمل سے پیش آنے اور مسجد میں جا کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سنانے کا حکم دیا تاکہ لوگوں پر خدا کی طرف سے حجت تمام ہو۔ یہ لوگ آپ ؑ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مسجد میں داخل ہوئے اور یکے بعد دیگرے کھڑے ہو کر ابوبکر کے سامنے احتجاج کرنا شروع کیا، چونکہ یہاں تفصیل سے ان دلائل کو بیان نہیں کر سکتے، لہذٰا اختصار کے ساتھ کچھ نکات بیان کرتے ہیں:

1۔ خالد بن سعید نے کہا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ان علیا امیرکم من بعدی و خلیفتی فیکم ان اهل بیتی هم الوارثون امری و القائلون (القائمون) بامر امتی) بےشک علی علیہ السلام میرے بعد تمہارے درمیان امیر اور خلیفہ ہے اور میرے اہل بیت میرے امور کے وارث اور میری امت کے امور کو بتانے والے ہیں۔
2۔ ابوذر غفاری نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (الامرلعلی بعدی ثم الحسن و الحسین ثم فی اهل البیتی من ولد الحسین) خلافت و امامت میرے بعد علی، انکے بعد حسن و حسین اور ان کے بعد حسین کی نسل سے میرے اہل بیت کا حق ہے۔
3۔ سلمان فارسی نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ترکتم امر النبی (ص) و تناسیتم وصیته، فعما قلیل یصفوا الیکم الامر حین تزور واالقبور...) تم لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش پر عمل نہیں کیا اور ان کے فرامین کو فراموش کر دیا لیکن جلد ہی تمہارے کاموں کا حساب لیا جائے گا، جب قبروں میں جاو گے۔
4۔ مقداد بن اسود نے کہا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (قد علمت ان هذا الامر لعلی علیه السلام و هو صاحبه بعد رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم) (اے ابوبکر) تم خود جانتے ہو کہ خلافت علی علیہ السلام کے لئے ہے اور وہی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلیفہ و امام ہیں۔

5۔ بریدۃ اسلمی نے کہا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (یا ابا بکر اما تذکر اذا امرنا رسول الله ص و سلمنا علی علی علیه السلام بامرة المومنین) اے ابوبکر کیا تمہیں یاد نہیں جب پیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے علی علیہ السلام کو امیر المومنین کی حیثیت سے سلام کیا تھا۔
6۔ عبد اللہ بن مسعود نے کہا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (علی ابن ابی طالب (ع) صاحب هذا الامر بعد نبیکم فاعطوه ما جعله الله له و لا ترتدوا علی اعقابکم فتنقلبوا خاسرین)۔ تمہارے نبی کے بعد علی ابن ابی طالب علیہ السلام خلافت کا حقدار ہے، لہذٰا جس چیز کو خدا نے اس کے لئے قرار دیا ہے اسے اس کے سپرد کر دینا اور اپنے سابقہ آئین کی طرف پلٹ نہ جانا کہ بہت نقصان اٹھاوٴ گے۔
7۔ عمار بن یاسر نے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے  فرمایا: (یا ابا بکر لا تجعل لنفسک حقا، جعل الله عزوجل لغیرک) اے ابو بکر؛ جس حق کو خداوند متعال نے کسی دوسرے سے مخصوص کیا ہے اسے اپنے سے مخصوص نہ کرو۔
8۔ خزیمہ بن ثابت نے کہا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:(انی سمعت رسول الله یقول اهلبیتی یفرقون بین الحق و الباطل و هم الائمة الذین یقتدی بهم) میرے اہل بیت حق و باطل کو جدا کرنے والے ہیں اور یہی پیشوا و رہبر ہیں جن کی اقتداء واجب ہے۔

9۔ ابو الیثم  نے کہا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (قال النبیﷺ اعلموا ان اهل البیت نجوم اهل الارض فقدموهم ولا تقدموهم) جان لو؛ میرے اہل بیت اہل زمین کے لئے روشن ستارے کی مانند ہیں، ان کی اطاعت و پیروی کرنا اور ان سے آگے نہ بڑھ جانا۔
10۔ سل بن حنیف نے کہا: (انی سمعت رسول الله قال؛ امامکم من بعدی علی ابن ابی طالب و هو انصح الناس لامتی) میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا میرے بعد علی ابن ابی طالب علیہ السلام تمہارا امام ہے جو میری امت کے لئے سب سے زیادہ خیر خواہ ہے۔
11۔ ابو ایوب انصاری نے کہا: (قد سمعتکم کما سمعنا فی مقام بعد مقام من نبی الله ﷺ انه علی اول به منکم) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےکئی بار سن چکے ہو جس طرح ہم نے سنا ہے کہ وہ (حضرت علی علیہ السلام) خلافت کے لئے تم سے زیادہ حقدار ہیں۔
12۔ زید بن وہب کی گفتگو کے بعد ایک گروہ نے بھی اسی طرح کی گفتگو کی۔۳

امیر المومنین علیہ السلام کے پیروکاروں نے جب دیکھا کہ خلافت و امامت کے راستے میں بہت بڑے بڑے انحرافات آ رہے ہیں، جن کے آثار یکے بعد دیگرے معاشرے میں نمایاں ہو رہے تھے تو موقع سے فائدۃ اٹھاتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کی امامت و رہبری کی تبلیغ شروع کردی، مثلا  ایک دن ابوذر مسجد میں اہل بیت کے فضائل اس طرح سے بیان کر رہے تھے؛ "علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی اور ان کے علم کے وارث ہیں، اے پیغمبر کی امت جو ان کے بعد حیران و سرگردان ہو چکی ہےاگر تم اس فرد کو مقدم کرتے جس کو خداوند متعال نے مقدم کیا تھا اور اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولایت و وراثت کا اقرار کرتے تو یقینا مادی اور معنوی حالات بہت بہتر ہوتے لیکن چونکہ تم لوگوں نے حکم خدا کے خلاف عمل کیا ہے اس لئے اپنے کئے کا مزہ چکھو"۔۴

امیر المومنین علیہ السلام کے پیروکاروں نے جب سے عثمان نے خلافت سنبھالی اسی وقت سے انہیں انحرافات کا احساس ہونے لگا اسی لئے یعقوبی لکھتا ہے، عثمان کی خلافت کے ابتدائی ایام میں ہی مقداد بن اسود کو مسجد میں دیکھا جو نہایت غم و اندوہ کی حالت میں  کہہ رہے تھے، "مجھے قریش پر بڑا تعجب ہوا جنہوں نے اہل بیت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رہبری اور خلافت کو چھین لیا حالانکہ دین خدا سے سب سے زیادہ آگاہ، سب سے پہلے ایمان لانے والے یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ان کے درمیان تھے انہوں نے اس کام میں امت کی بھلائی اور بہتری کو نہیں دیکھا بلکہ دنیا  کو اپنی آخرت پر مقدم کر دیا"۔۵ عثمان کے بعد مسلمانوں نے امیر المومنین علی علیہ السلام کے ہاتھوں پر امت اسلامی کے رہبر کی حیثیت سے بیعت کی اور حضرت علی علیہ السلام کو جو خدا کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ذریعے  مقام امامت و خلافت پر فائز ہوئے تھے، پچیس سال کے بعد یہ منصب سپرد کیا گیا۔

بعض افراد کی بےتوجہی سے اتنے عرصے تک مسلمانوں کی رہبری کو آپ ؑسے سلب کیا گیا اور آپ ؑنے بھی اسلام و مسلمین کے مصالح کی خاطر طاقت سے کام نہیں لیا لیکن افسوس اب بہت دیر ہو چکی تھی اور اتنے عرصے میں حکومت و خلافت بہت سارے انحرافات کا شکار ہو چکی تھی اور بہت سارے امکانات مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل چکے تھے اور یوں معاشرے کو قرآن و سنت کے مطابق ہماہنگ بنانا بہت مشکل کام  ہو گیا تھا، لیکن حضرت علی علیہ السلام جو رضایت خدا اور اسلام و مسلمین کے مصالح کے بارے میں ہمیشہ فکر مند رہتے لوگوں کی بیعت قبول کرنے پر مجبور تھے جیسا کہ آپ نے فرمایا، (لو لا حضور الحاضر و قیام الجة بوجود الناصر و ما اخذ الله علی العلماء الا یقاروا علی کظة ظالم و لا سغب مظلوم لالقیت حبلها علی غاربها و اخرها بکاس اولها و لالفیتم دنیاکم هذه ازهد عندی من عفطة عنز) ۔۶ اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کو اول نے سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابل اعتنا پاتے ۔۷ لیکن  کچھ جاہل، نادان اور پست فطرت افراد نے کچھ چیزوں کے ذریعے عصمت و طہارت کے اس پھلدار تناور درخت کو پھلنے، پھولنے اور امت اسلامی کی رہبری کرنے نہیں دی ۔

1۔ امت اسلامی پر مسلسل کئی جنگیں تحمیل کی گئیں ۔2۔ حضرت علی علیہ السلام کو شہید کر کےجامعہ اسلامی کو ایک بے بدیل رہبر سے محروم کر دیا گیا جیسا کہ آپ ؑ اس سلسلے میں فرماتے ہیں؛ (فلما نهضت بالامر نکثت طائفة و مرقت اخری و قسط آخرون) جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت تور ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا، یہاں ناکثین سے مراد اصحاب جمل اور مارقین سے مراد خوارج نہروان اور قاسطین سے مراد معاویہ اور اس کے پیروکار ہیں۔ حضرت علی علیہ السلام اس مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ دنیا طلبی کے باعث اتنے فتنے برپا ہوئے فرماتے ہیں، گویا انہوں نے کلام خدا کو نہیں سنا تھا جیساکہ ارشاد ہوتا ہے، (تلْكَ الدَّارُ الاَخِرَةُ نجَعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فىِ الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِين)۔۹ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لئے بنا دیتے ہیں جو زمین میں بالا دستی اور فساد پھیلانا نہیں چاہتے اور عافیت تو تقوی والوں کے لئے ہے۔ اس کے بعد آپ ؑفرماتے ہیں، "خدا کی قسم ان لوگوں نے اس آیت کو سنا تھا اور یاد کیا تھا لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔ (ولکنهم حلیت الدنیا فی اعینهم و راقهم زبرجها)۔۱اس عرصے میں اگرچہ شیعیان اپنے عقیدے کے اظہار میں آزاد تھے اور اس سلسلے میں حکومتی افراد اور دوسرے لوگوں  سے تقیہ نہیں کرتے تھے، لیکن مذکورہ حوادث و وقایع کی وجہ سے وہ اپنے عقائد کی نشرواشاعت اور اپنے افکار پر مکمل طور پر عمل نہ کرسکے لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے معصومانہ رفتار و کردار کے ذریعے حقیقی اسلام کو لوگوں تک پہنچایا اور اس کے علاوہ آپ ؑنے بہت سارے علوم اور معارف عالیہ بیان فرمائے، جو آج بھی دین اسلام کے گرانقدر علمی و دینی سرمایہ اور میراث شمار ہوتے ہیں، بلکہ بشریت و انسانیت کے لئے ایک فرہنگ و تمدن ہیں۔

حوالہ جات:
1۔ الامامۃ و السیاسۃ ،ج1 ،ص 18۔
 ۲۔ ایضا۔
۳۔ شیخ الصدوق ،الخصال ،باب12 ،حدیث 4۔
۴۔ تاریخ یعقوبی ،ج 12،ص 67 – 68 ۔
۵۔ تاریخ یعقوبی ،ج 12،ص 57۔
۶۔نہج البلاغۃخطبہ شقشقیہ ۔
 ۷۔ ترجمہ نہج البلاغہ :علامہ مفتی جعفر حسین ۔
۸۔ قصص،83۔
۹۔ نہج البلاغہ ،خطبہ شقشقیہ
خبر کا کوڈ : 725204
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش