2
0
Wednesday 23 May 2018 20:50

متحدہ مجلس عمل، امت مسلمہ کی وحدت اور اتحاد کیطرف اپنے زمانے میں بہت بڑا قدم

متحدہ مجلس عمل، امت مسلمہ کی وحدت اور اتحاد کیطرف اپنے زمانے میں بہت بڑا قدم
تحریر: محمد اشرف ملک
malikashraf110@gmail.com
   
 
مسلمانوں کے درمیان پایاجانے والا انتشار
بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور باقی ادیان عالم کے لئے بھی یہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ امریکہ کی سرپرستی میں اسرائیل اس پر قابض ہو رہا ہے، امریکہ نے اسرئیل کے دارالحکومت سے اپنا سفارتخانہ بیت القدس میں منتقل کرکے یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ اس کے نزدیک بیت المقدس فلسطین کا حصہ نہیں بلکہ اسرائیل کا حصہ ہے۔ امریکہ کے ظلم اور خصوصاً اس اقدام کو روکنے کے لئے فلسطینی عوام نے احتجاج کیا تو اسرائیلی درندوں نے ان کے اس احتجاج کو کچلتے ہوئے دسیوں افراد کو شہید کر دیا۔ امریکہ اور اسرائیل کے اس ظلم پر اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے، اقوام متحدہ کیا، اسلامی ممالک میں بھی استعماری طاقتوں کے خلاف واقعاً جو ردعمل آنا چاہیے تھا، وہ نہیں آیا، حتی چالیس ممالک کے فوجی اتحاد کو بھی تماشائی بننے کے علاوہ کوئی اور توفیق نہیں ہوئی۔ اگر سب مسلمان ایک ہوتے، ان کا آپس میں اتحاد ہوتا، اپنی بعض کمزوریوں کو نظرانداز کرتے اور مشترکات و بلند اہداف کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کرتے تو آج عالم اسلام کا یہ حشر نہ ہوتا جو  ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان جو اختلاف موجود ہیں، ان میں کچھ تو طبیعی ہیں اور انسانی استعدادوں اور صلاحیتوں کی بنیاد پر ہیں۔ کچھ اختلاف بعض انسانوں کی پستی اور گھٹیا پن کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ یہ افراد ایسے پست اور گھٹیا ہوتے ہیں کہ نہ اعلٰی قسم کے افراد کو درک کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کے اہداف اور منصوبوں کو سمجھنے کی ان میں صلاحیت ہوتی ہے۔ بعض افراد صرف اپنے مفادات کے پیچھے ہوتے ہیں۔ یہ دونوں قسم کے طبقات اور افراد ممکن ہے سیاست کے میدان میں ہوں، ممکن ہے بڑی سطح پر ملکی اور دینی شخصیات ہوں اور ممکن ہے بالکل نچلی سطح پر، یعنی ایک محلہ، ایک شہر یا ایک قوم کی حد تک ہوں، ان سے کبھی خیر کی امید نہیں ہونی چاہئے۔

پست اور گھٹیا افراد، دشمن کے آلہ کار
 ان کی سوچ ہمیشہ کج ہوتی ہے، ایسے افراد مثبت چیزوں کو منفی بنا کر اور اعلٰی و عظیم کاموں کو چھوٹا بنا کر یا برعکس بنا کر پیش کرنا اپنی طبیعت ثانویہ بنا چکے ہوتے ہیں۔ معصومین اور علماء کرام کے سامنے جن لوگوں نے مشکلات ایجاد کی ہیں، ان میں بہت سارے ایسے ہی افراد ہیں۔ ممکن ہے ایسے افراد مقدس ترین مقامات جیسے مکہ و مدینہ میں رہتے ہوں اور مقدس ترین کام میں مشغول ہوں، لیکن ان کا خبث باطنی ظاہر ہو کر رہے گا۔ دشمن ہمیشہ ایسے افراد کے ذریعے امت مسلمہ میں پہلے اختلاف ایجاد کرتا ہے، پھر تسلط اور قبضہ کرتا ہے۔ ان حالات میں امام زمان کے ایک سپاہی ایک طالبعم، عالم دین، مدارس، مساجد اور حوزہ ہای علمیہ میں رہنے والے بابصیرت انسانوں کو وحدت و اتحاد کی کوشش کرنی چاہئے۔ جب بعض افراد جو چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑ کر افتراق و انتشار کی فضا بناتے ہیں، انہیں دیکھ کر واقعا افسوس ہوتا ہے۔

اللہ کے دین کو تھامو، اکیلے نہیں بلکہ سب ملکر
آج اس دور میں کہ جب انتشار ہی انتشار ہے اور یہ زبان کے نام پر، علاقہ کے نام پر، مذہب و مسلک کے نام پر روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ہر کوئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی فکر میں ہے، مدرسہ بنانے کی فکر میں ہے، جبکہ مدرسوں کی کیفیت کو بہتر بنانے اور مساجد کو آباد کرنے کے بارے میں بیشتر فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ فرد کی بجائے جماعت بننے، تنہا کام کرنے کی بجائے جماعت کی صورت میں کام کرنے، اکیلا نماز پڑھنے کی بجائے باجماعت نماز پڑھنے، اکیلے تحریک چلانے کی بجائے جماعت کی صورت میں تحریک چلانے، ان تمام حالتوں میں جماعت کی صورتیں وہ ہیں، جو زیادہ سے زیادہ مثمر ثمر بھی بن سکتی ہیں اور کم خرچ و کم وقت میں نتیجہ تک بھی پہنچا سکتی ہیں۔ یہی وہ چیز ہے کہ جس کا اللہ نے قرآن مجید میں حکم دیا ہے کہ:"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" خدا کی رسی یعنی دین خدا کو مضبوطی سے تھامو اور مضبوطی سے تھامنا اس وقت صدق کرے گا، جب ہر کوئی اکیلا اکیلا مضبوطی سے دین کو تھامے گا، لیکن اتنا کافی نہیں ہے یعنی اللہ صرف یہ حکم نہیں دے رہا کہ اکیلے اکیلے اللہ کی رسی کو تھامو بلکہ جَمِيعًا، یعنی سب ملکر جماعت کی صورت میں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو۔ اس کا لازمہ یہ ہے کہ وَلَا تَفَرَّقُوا، یعنی اپنی ایک ایک اینٹ کی مسجد نہ بناو اور ایک دوسرے سے متفرق اور جدا نہ ہو، بلکہ جماعت بن کر، متحد ہو کر، اکٹھے ہو کر اللہ کے دین کی رسی کا اعتصام کرو۔ آج کے  نازک ترین حالات میں جب دشمن قبلہ اول کو اپنے قبضہ میں کرنے کا پورا  پروگرام بنا چکا ہے، ان حالات میں اپنی مسجد، اپنا مدرسہ، اپنی جماعت، اپنی شخصیت، اپنا مکتب، اپنا اپنا اپنا کہنا اور باقی سب اہل علم کو، اہل فضل کو، باقی مسلمین کو اور خصوصاً باقی مومنین کو غیر سمجھنا، یہ ایسی حقیقت ہے، جو کسی فرد، کسی ملت اور خصوصاً امت کو بیدار کرنا تو کیا، امت کو ذبح کرنے کے مترادف بن سکتا ہے۔

امت مسلمہ کی  وحدت کیلئے اپنی طرف سے اتمام حجت
مینار پاکستان کے گراونڈ میں "پانچ بڑی دینی، سیاسی" جماعتوں کے تاریخی جلسہ کا اہتمام اور پھر اس کی کامیابی اور ملکی سیاست سے لیبرل اور سیکولار قوتوں کے خلاف ملکر سیاست کے میدان میں دوبارہ آنا، امریکہ، اسرائیل اور استعماری قوتوں اور غربی ثقافت کے خلاف واقعاً ایک بے مثال اور بینظیر اقدام ہے۔ موجودہ دور میں متحدہ مجلس عمل کی افادیت سے کوئی متدین اور بابصیرت انسان انکار نہیں کرسکتا۔ قائد ملت جعفریہ کے راہنما اصولوں کے پیش نظر 13 مئی مینار پاکستان لاہور میں، کلمہ گویان اسلام کے تاریخی جلسہ سے، حجت الاسلام والمسلمین علامہ عارف حسین واحدی کا اعلان پاکستان کے ہر ذمہ دار فرد کے لئے ملت تشیع کی طرف سے اتمام حجت تھا۔ کس بات پر؟ اس بات پر کہ امت مسلمہ کی وحدت و اتحاد میں مشکل، شیعیان حیدرکرار کی طرف سے نہیں ہے بلکہ استعماری طاقتوں، ان کے اتحادیوں اور عالم اسلام کے بعض نافہم افراد کی وجہ سے ہے۔ جو بھی اس وحدت و اتحاد کے خلاف بات کرتا ہے یا تو وہ فکری اور سیاسی حوالے سے ابھی سن بلوغ تک نہیں پہنچا ہے یا سن بلوغ تک تو پہنچا ہے یا کسی کا آلہ کار اور ایجنٹ ہے یا واقعاً حقائق سے آشنا نہیں ہے۔ ان افراد کو حقائق سمجھنے اور پاکستان میں واقعاً دین کے لئے کام کرنے والی شخصیات کی شناخت اور ان کی قدر کرنی چاہئے۔

پاکستان میں صرف شیعہ ہونے کی بنیاد پر کتنے لوگوں کو شہید کیا گیا ہے۔ آج اگر پاکستان میں ملت تشیع کا ایک وقار ہے، ایک عزت ہے تو اس میں جہاں موجودہ قائد محترم کی بصیرت اور حکمت عملی ہے، وہیں پر قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کا خون بھی ہے، ڈاکٹر نقوی کی شہادت بھی ہے۔ کتنے ڈاکٹر، کتنے وکیل، کتنے پروفیسر و استاد، کتنے علماء کتنے اسٹوڈنٹس، کتنے مومن و عزادار ایسے ہیں، جنکے خون شہادت کی وجہ سے آج تشیع کا یہ وقار ہے۔ کتنے علماء کی محنتیں اور کتنے مخلص افراد کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ امت مسلمہ وحدت و اتحاد کی طرف قدم بڑھا رہی ہے۔ تمدن غرب کے مقابلہ میں تمدن اسلام کو پیش کرنے کا مقام معظم رہبری مدظلہ العالی کا جو خواب ہے، وہ باقی جگہوں پر تو اپنی جگہ پر، لیکن پاکستان میں قائد ملت علامہ سید ساجد علی نقوی زید عزہ کے ہاتھوں شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ان حالات میں دشمن کی پریشانی کی تو سمجھ آتی ہے کہ ان کی کئی سالوں اور کروڑوں ڈالروں کی محنت ضایع ہوتی نظر آرہی ہے، لیکن اپنے بعض مومنین اور انتہائی قلیل مقدار میں اہل علم کی پریشانی کی سمجھ نہیں آتی۔ بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ اللہ تعالٰی قائد محترم، ان کے رفقاء کار خصوصاً بالخصوص حجت الاسلام والمسلمیں عارف حسین واحدی، حجت الاسلام والمسلمیں علامہ شبیر میثمی، حجت الاسلام والمسلمیں سبطین سبزواری اور باقی تمام مومنین اور کارکناں کی توفیق میں اضافہ فرمائے۔آمین
خبر کا کوڈ : 726938
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

جمشید
Iran, Islamic Republic of
یہ تقریر ہے، مضمون ہے، کالم ہے، یا ہے کیا چیز۔ میں نے چند مرتبہ سمجھنے کی کوشش کی لیکن کچھ سمجھ نہیں آیا۔ اگر اسلام ٹائمز کے پیش نظر کوئی معیار ہے تو خدا را اس کا خیال رکھا جائے اور کم از کم یہ تو پتہ چلنا چاہیے کہ کیا چیز شائع ہو رہی ہے۔ آج کے دور میں اس طرح الفاظ کی پھکی بناکر شائع کر دینا کسی اچھے ادارے کو زیب نہیں دیتا۔ خدا سے آپ کی توفیقات میں اضافے کا طالب ہوں۔
Iran, Islamic Republic of
شاید کسی مجلس یا درس خارج کا اقتباس ہے۔ بہرحال درسی اقتباسات کو کہیں اور شائع ہونا چاہیے یہاں نہیں۔
ہماری پیشکش