0
Thursday 21 Jun 2018 20:51

مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر گورنر راج نافذ

مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر گورنر راج نافذ
رپورٹ: جے اے رضوی

مقبوضہ کشمر میں بدھ کو آٹھویں مرتبہ گورنر راج باضابط طور پر نافذ ہوگیا ہے۔ بھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے کشمیر کے انتظامی امور فوری طور پر گورنر این این ووہرا کو سونپنے کے لئے گورنر راج قائم کرنے کی منظوری دے دی۔ جموں و کشمیر کے آئین کی دفعہ 1992ء کے تحت گورنر این این ووہرا نے گذشتہ دس برسوں میں چوتھی مرتبہ ریاست کی انتظامی بھاگ ڈور سنبھالی، جس دوران انہوں نے فوری طور پر سول سیکریٹریٹ سرینگر میں ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی جبکہ ریاستی اسمبلی کو انہوں نے معلق بھی رکھا۔ ایسے مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر گورنر راج نافذ کیا گیا، یہ آٹھویں مرتبہ ہے کہ جب کشمیر کو گورنر راج کے دائرے میں لایا گیا۔ اگرچہ کشمیر کے آئین میں گورنر راج کے نفاذ کے لئے گنجایش رکھی گئی، لیکن عام طور پر اس کے نفاذ کو پسند نہیں کیا جا رہا ہے۔ جب کسی ریاست میں اقتصادی بحران ہوتا ہے یا سیاسی سطح پر انتشار کی سی کیفیت پائی جاتی ہے تو گورنر راج نافذ کیا جاتا ہے اور کشمیر میں اس وقت گورنر راج قائم کیا گیا، جب بی جے پی نے پی ڈی پی کی حمایت سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا۔ پی ڈی پی سے اپنی حمایت واپس لینے کی جو وجوہات بیان کی گئیں، وہ مضحکہ خیز ہیں کیونکہ مقبوضہ کشمیر کی حکومت نے ان تین برسوں میں جو کچھ کیا، اس میں بی جے پی برابر کی شریک ہے اور وہ اس سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتی ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر رام مادھو نے پریس کانفرنس میں ان وجوہات کو بیان کیا، جن کی بناء پر حمایت واپس لی گئی، ان میں ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ جموں اور لداخ کے ساتھ امتیاز برتا گیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جموں اور لداخ کے مقابلے میں وادی کشمیر کے ساتھ ہر معاملے میں امتیاز برتا گیا۔ روزگار کی فراہمی کا مسئلہ ہو یا تعمیر و ترقی کے کاموں کے لئے فنڈز کی فراہمی کا معاملہ ہو، جموں اور لداخ کو ہر معاملے پر ترجیح دے کر کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔ اسی طرح بی جے پی کا رویہ اس وقت تبدیل ہونے لگا، جب پی ڈی پی نے پاکستان اور مزاحتمی قیادت کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا تو بی جے پی نے بھی اگرچہ مذاکرات کو قیام امن کے لئے لازمی قرار دیا، لیکن کہا کہ کشمیری عوام کے ساتھ بات چیت شروع کی جائے گی اور وہ بھی بھارتی آئین کے دائرے کے تحت، اس طرح اس عمل کو بھی مذاق بنا دیا گیا۔

اسی طرح رمضان میں سیز فائر کے معاملے میں بھی بی جے پی کی ٹاپ لیڈرشپ نے بھی اس بارے میں کذب بیانی سے کام لیا۔ جب آل پارٹی میٹنگ میں مشترکہ طور پر ایک قرارداد پاس کی گئی، جس میں ماہ رمضان میں سیز فائر کی بات کہی گئی تو محبوبہ مفتی یہ تجویز لے کر نئی دہلی گئیں اور بھارتی وزیراعظم اور وزیر داخلہ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا، جس پر بھارت نے رمضان میں سیز فائر کا اعلان کیا، اس کے بعد ماہ صیام کے آخری ایام میں بھارتی وزیر داخلہ کشمیر آئے تو واپس دہلی روانگی سے قبل ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کیا کہ سیز فائر میں توسیع کرنے کے بارے میں بھارتی حکومت سنجیدہ ہے، جس پر لوگوں نے یہ تاثر لیا کہ سیز فائر میں توسیع کی جائے گی، لیکن لوگ اس وقت حیران رہ گئے، جب عید سے ایک روز قبل سیز فائر ختم کرنے کا اعلان کیا گیا اور پھر اس کے ساتھ ہی پی ڈی پی کی حمایت ختم کر دی گئی۔

چنانچہ اب مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج قائم کیا گیا، جس پر عوامی حلقوں نے اگرچہ کوئی خاص ردعمل کا اظہار نہیں کیا، لیکن اتنا ضرور ہے کہ قابض فورسز کی طرف سے جو جبر و تشدد کیا جا رہا ہے، وہ سلسلہ مختصر ہونا چاہئے اور قیام امن کو یقینی بنانے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کئے جانے چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں پہلی مرتبہ 6 مارچ 1977ء کو اُس وقت گورنر راج نافذ ہوا، جب کانگریس نے مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی قیادت والی نیشنل کانفرنس سے اپنی حمایت واپس لی تھی۔ کشمیر میں 19 جنوری 1990ء سے 9 اکتوبر 1996ء تک 6 برس اور 264 دنوں کے طویل عرصے تک گورنر راج نافذ رہا۔ اس کی وجہ کشمیر میں مسلح شورش کی شروعات بن گئی تھی۔ 19 جون 2018ء کو پی ڈی پی کی اتحادی جماعت بی جے پی نے علٰیحدگی کا راستہ اختیار کرکے پی ڈی پی بھاجپا حکومت گرا دی اور اس طرح سے کشمیر میں آٹھویں مرتبہ گورنر راج نافذ ہوا۔ این این ووہرا 2008ء سے کشمیر کے گورنر ہیں۔ این این ووہرا جموں و کشمیر کے بارہویں جبکہ جگموہن کے بعد کشمیر کے پہلے سویلین گورنر ہیں۔ بعض تجزیہ نگار اور آزاد خیال افراد ’’بھارتی گورنر‘‘ کو ’’بھارتی مخبر‘‘ کا نام بھی دیتے آئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 732683
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش