0
Friday 20 Jul 2018 11:13

حلقہ این اے 46 پاراچنار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا(2)

حلقہ این اے 46 پاراچنار کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا(2)
تحریر: روح اللہ طوری

گذشتہ سے پیوستہ
ساجد حسین طوری:
ساجد حسین طوری کرم ایجنسی کے حلقہ این اے 37 (حالیہ 46) سے دو مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں۔ پچھلی مرتبہ 30 ہزار 500 ووٹ لیکر ممبر منتخب ہوئے تھے۔ دس سال تک ممبر رہ کر سیاست میں انکو کافی تجربہ حاصل ہوچکا ہے۔ عوام یعنی ووٹرز کے ساتھ ڈیل کرنے میں انکو یدطولیٰ حاصل ہے۔ پہلی مرتبہ یعنی 2008ء میں وہ اپنی محنت اور پالیسی نیز اپنی ٹیم کی کارکردگی کی بنیاد پر منتخب ہوئے، جبکہ دوسری مرتبہ یعنی 2013ء میں انہوں نے مرکز کارڈ استعمال کرکے الیکشن جیتا۔ اس مرتبہ کون سے عوامل ان کے حق میں اور کون سے ان کے خلاف جا سکتے ہیں۔ ذیل کی سطور میں انکا تذکرہ کر دیتے ہیں۔

مثبت عوامل:
1۔ اس مرتبہ ایک کریڈٹ ان کو یہ حاصل ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں، جبکہ کرم ایجنسی میں طوری بنگش قبائل میں سے اکثریت کو پیپلز پارٹی خصوصاً بے نظیر بھٹو کے ساتھ والہانہ لگاؤ اور محبت ہے۔ چنانچہ پیپلز پارٹی کی حمایت کیوجہ سے ان کو جیالوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کی حمایت حاصل ہوسکتی ہے، نیز اگر کسی قدآور شخصیت مثلاً آصف زرداری یا ان کے فرزند بلاول نے انکی انتخابی مہم کے دوران ان کے جلسے میں تقریر کی تو نتیجتاً ان کو لگ بھگ 2000 مزید ووٹ حاصل ہونے کی توقع ہے۔
2۔ مرکز کا نام استعمال کرکے وہ مرکزی ووٹرز کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں انہیں مرکز سے وابستہ نیز انجمن حسینیہ کے سابقہ کئی سربراہان جیسے حاجی نوروز علی، حاجی ضامن حسین، کیپٹن یوسف حسین اور دیگر رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔ جن کا اپنا حلقہ ہے، چنانچہ انہیں ان کی حمایت حاصل ہوچکی ہے۔

3۔ پچھلی مرتبہ کے برعکس اس مرتبہ وہ اپنی پالیسی میں کافی حد تک اعتدال لائے ہیں، نفرت اور فرقہ واریت و لسانیت کی باتیں ترک کرکے انہوں نے کافی حد تک اتحاد کی پالیسی اپنا لی ہے، جس کی وجہ سے نیوٹرل قوتوں کا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔
4۔ سرکاری فنڈز کے علاوہ اپنے ذاتی وسائل کو بروئے کار لاکر جگہ جگہ ٹیوب ویلز، بجلی سپلائی، ٹرانسفارمرز، سولر سسٹم وغیرہ جیسے ترقیاتی پراجیکٹ کا افتتاح کرکے یا کم از کم وعدہ کرکے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ ان اور ان جیسے دیگر عوامل کو ملا کر ساجد طوری اس مرتبہ بھی ایک مضبوط امیدوار ثابت ہوسکتے ہیں۔

منفی عوامل:
1۔ ساجد طوری کی گذشتہ جیت قوم کے ٹکڑوں نیز سابق پیش امام کی علاقہ بدری اور پھر شہادت کا باعث بن گئی۔ جسے ان کے مدمقابل امیدوار اچھال کر عوام کو ان سے متنفر کر رہے ہیں۔
2۔ بعض لوگوں کی حمایت کیوجہ سے اکثر لوگوں کی حمایت سے محروم ہوگئے ہیں، جیسے حاجی نوروز کی حمایت کے باعث بوڑکی کی اکثریت کی حمایت کھو بیٹھے ہیں۔
3۔ سوشل میڈیا خصوصاً امیدواروں کی جانب سے پیش نماز کے قتل کے پراپیگنڈے نے انہیں بہت کمزور کر دیا ہے۔ لوگوں کی اکثریت انہیں چھوڑ کر ابرار جان، محمد حسین اور عنایت حسین وغیرہ کی جانب جاچکی ہے۔
4۔ پچھلی مرتبہ الیکشن کے دوران لوگوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا نہ کرسکے، نیز ایک مخصوص ٹولے کے لئے کام کرنے کے باعث لوگوں کی اکثریت اس سے ناراض ہوچکی ہے۔
5۔ پچھلے دور میں کچھ لوگوں کی ذاتی دلچسپیوں اور دشمنیوں کو بنیاد پر انکے کہنے پر انکے مخالفین کی دشمنی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا، سرکاری ملازمین کی ناجائز ٹرانسفر سے لیکر لوگوں کے منظور شدہ پراجیکٹ کو منسوخ کرانے تک کئی امور میں لوگوں کو نقصان پہنچانے کے باعث وہ ایسے لوگوں اور انکے رشتہ داروں کی حمایت سے محروم ہوچکے ہیں۔ چنانچہ ان امور کے باعث کافی پیسہ خرچ کرنے کے باوجود ان کی پوزیشن کافی کمزور دکھائی دے رہی ہے۔

محترمہ علی بیگم:
سابقہ بیوروکریٹ محترمہ علی بیگم بھی حلقہ این اے 46 سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ محترمہ علی بیگم پورے علاقے میں ایک غیر متنازعہ شخصیت ہیں، انکا شمار علاقے کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے۔ ذیل میں ان کے مثبت اور منفی پوائنٹس کا تجزیہ و تحلیل کیا جا رہا ہے۔
مثبت پہلو:
1۔ محترمہ علاقے میں ایک غیر متنازعہ شخصیت ہیں۔ سادات، غیر سادات، مرکز اور تحریک، میاں مریدان اور درے ونڈی میں برابر مقبولیت رکھتی ہیں۔
2۔ الیکشن مہم کے دوران علاقائی سطح پر جہاں مردوں کے پروگرامات اٹینڈ کئے، وہاں انہوں نے خواتین سے بھی ملاقات کی۔ چنانچہ پاراچنار بلکہ پورے فاٹا میں یہ پہلا موقع تھا کہ خواتین کے ساتھ کسی امیدوار نے ڈائریکٹ رابطہ کیا ہو، چنانچہ خواتین کی ایک بڑی تعداد کی حمایت انہیں حاصل ہے۔
3۔ اپنی ملازمت کے دوران علاقے کے لئے ترقیاتی کام کرنے کے صلے میں ان علاقوں کے عوام کی ایک اچھی تعداد کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔

منفی پہلو:
1۔ ان کی ٹیم کی سستی کی وجہ سے انہیں جو حمایت شروع کے ایام میں حاصل تھی، اس سے وہ محروم ہوگئی ہیں۔ 
2۔ ساجد طوری کی جانب سے کئے گئے منفی پراپیگنڈے کے باعث ان کی پوزیشن کافی حد تک متاثر ہوئی ہے، تاہم اب بھی ان کی پوزیشن کافی مضبوط ہے۔

محمد حسین طوری:
سینیٹر سجاد حسین طوری کے بھائی محمد حسین طوری ایک سنجیدہ شخص ہیں۔ تنظیموں میں رہنے کیوجہ سے کافی حد تک تنظیمی تجربہ رکھتے ہیں۔ عوام میں بذات خود کوئی خاص حیثیت اور نفوذ نہیں رکھتے، تاہم اپنے سینیٹر بھائی سجاد طوری کی وجہ سے کافی مقامات میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اسکے علاوہ وہ تنظیمی تجربہ رکھنے کے علاوہ فن خطابت بھی رکھتے ہیں، دوران گفتگو نہایت سنجیدگی دکھاتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے الیکشن مہم کے دوران اپنی تنظیمی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنا طرفدار و دلدادہ بنایا ہے۔ الیکشن جیتے کی پوزیشن میں تو نہیں، تاہم اس مرتبہ اگر کسی کے حق میں دستبردار نہ ہوئے تو آئندہ صوبائی یا کسی بھی الیکشن میں مضبوط امیدواروں کے زمرے میں شامل ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 738818
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش