1
Wednesday 23 May 2018 04:31
آئندہ انتخابات میں قبائلی نوجوان اپنا بھرپور کردار ادا کرنے جارہے ہیں

فاٹا سے لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے، حکومت کو اس مسئلہ پہ توجہ دینی ہوگی، شوکت عزیز

منظور پشتین کے مطالبات آئینی اور قانونی ہیں، ریاستی ادارے لچک کا مظاہرہ کریں
فاٹا سے لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے، حکومت کو اس مسئلہ پہ توجہ دینی ہوگی، شوکت عزیز
فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سابق مرکزی صدر شوکت عزیز کا تعلق فاٹا میں کرم ایجنسی کی تحصیل صدہ سے ہے۔ پشاور یونیورسٹی سے بی ایس پولیٹیکل سائنس کرچکے ہیں۔ فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں وجود رکھنے والی ایسی تنظیم ہے، جس میں پورے فاٹا کی مختلف ایجنسیز اور قبائل سے تعلق رکھنے والے طالب علم شامل ہیں۔ اس تنظیم کے ممبران کی تعداد ساڑھے چار ہزار سے زائد ہے۔ شوکت عزیز پچھلے کئی سال تک بطور مرکزی صدر فاٹا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے فاٹا میں فروغ تعلیم اور ایف سی آر کے کالے قانون کے خاتمے کیلئے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے فاٹا کی موجودہ صورتحال بالخصوص منظور پشتین کے معاملے پہ فاٹا کے یوتھ کی نمائندہ شخصیت سے گفتگو کا اہتمام کیا، جسکا احوال انٹرویو کیصورت پیش خدمت ہے۔(ادارہ)
 
اسلام ٹائمز: مسنگ پرسنز کی بازیابی کیلئے تحریک کا آغاز ہوا ہے، تحریک کیوں چلائی جا رہی ہے، کون چلا رہا ہے اور کتنے مسنگ پرسنز ہیں۔؟
شوکت عزیز:
آپ جس تحریک کی بات کر رہے ہیں، وہ صرف لاپتہ افراد کی بات نہیں کرتے بلکہ وہ فاٹا کے عوام سے جڑے تمام مسائل پہ بات کر رہے ہیں۔ پاکستان کے وسائل سے فاٹا کے قبائلی عوام کو اس قدر محروم رکھا گیا ہے کہ اب وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنے حقوق کا حصول چاہتے ہیں۔ آپریشن زدہ علاقے سے یہ تحریک محسود تحفظ موومنٹ کی نام سے چلی ہے۔ ویسے بھی فاٹا کے محسود سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، چاہے وہ جانی نقصان ہو یا مالی نقصان۔ فاٹا سے لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے جبکہ تحریک تحفظ محسود کی قیادت ایک 24 سالہ نوجوان منظور محسود کر رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ان ہزاروں مسنگ پرسنز کا تعلق کون سی ایجنسی سے ہے اور اس تحریک میں کس ایجنسی کے لوگ زیادہ شامل ہیں۔؟
شوکت عزیز:
مسنگ پرسنز میں زیادہ تر افراد کا تعلق وزیرستان سے ہے اور اس تحریک میں اکثریت بھی شمالی اور جنوبی وزیرستان کے باشندوں کی ہے۔ فاٹا کی ہر ایجنسی سے لوگ اس تحریک کی حمایت کر رہے ہیں۔ پہلے یہ تحریک صرف فاٹا تک ہی محدود تھی، مگر اب تو یہ فاٹا سے نکل کر تقریباً تمام پختون علاقوں تک پھیل چکی ہے بلکہ یہ تحریک اب بلوچوں کے حقوق پہ بھی بات بھی کر رہی ہے اور اس پہ کام بھی کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: منظور پشتین اور اسکے مطالبات کے بارے میں آپکی کیا رائے ہے۔؟
شوکت عزیز:
منظور پشتین آئین اور قانون سے تو ہٹ کر کوئی بات نہیں کر رہا ہے، اس کے مطالبات آئینی بھی ہیں اور قانونی بھی۔ ریاستی اداروں کو لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ اداروں کو چاہیئے کہ ان تمام مسائل کو حل کریں، جن کی وجہ سے عوام بالخصوص قبائلی عوام مشکلات کا شکار ہیں۔ ریاست کو منظور پشتین کے مطالبات پہ سنجیدگی سے غور کرنا چاہیئے اور ان پہ عملدرآمد کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات لینے چاہیئیں۔

اسلام ٹائمز: کالعدم ٹی ٹی پی وغیرہ منظور پشتین کی حمایت کر رہی ہیں، کیا اسکے بعد بھی منظور پشتین کو پاکستان کییساتھ مخلص قرار دیا جا سکتا ہے۔؟
شوکت عزیز:
منظور پشتین یہ واضح کرچکا ہے کہ جو ہمارے حمایتی ہیں، ضروری نہیں کہ ہم بھی ان کی حمایتی ہوں۔ یعنی وہ لوگ منظور پشتین کی حمایت کر رہے ہیں، مگر منظور پشتین نے تو ابھی تک ان کی حمایت نہیں کی۔ اس حوالے سے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔

اسلام ٹائمز: جو لوگ منظور کیساتھ ہیں، آپکے خیال میں کیا وہ پاکستانی ریاست کے غدار ہیں۔؟
شوکت عزیز:
جی نہیں! منظور پشتین کیساتھ زیادہ تر لوگ مظلوم و مجبور ہیں۔ اس کے ساتھ زیادہ تر وہ لوگ ہیں کہ جن کا نقصان ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، جو اپنے پیاروں کی تلاش میں ہیں، میرا نہیں خیال کہ اس کا ساتھ دینے والے ریاست سے غداری کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں فاٹا کے انضمام کا معاملہ کرنٹ ایشو ہے، کیا سمجھتے ہیں کہ کب تک قبائلی عوام کو صوبائی اسمبلی کیلئے ووٹ کا حق ملیگا۔؟
شوکت عزیز:
خیبر پختونخوا میں فاٹا کے انضمام کے حوالے سے رواں ہفتہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جلد ہی آئینی ترمیمی بل اسمبلی میں لا کر اس تبدیلی کی داغ بیل ڈالی جائیگی۔ وفاقی کابینہ اور قومی سلامتی کمیٹی نے اس انضمام کی توثیق کر دی ہے۔ جہاں تک صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کا تعلق ہے تو وہ اس الیکشن میں ممکن نہیں۔ ایک عمل سست روی سے ہی سہی مگر شروع تو ہو۔

اسلام ٹائمز: آئندہ انتخابات میں قبائلی نوجوانوں کا رجحان کس سیاسی پارٹی کیجانب ہے۔؟
شوکت عزیز:
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قبائلی نوجوان اپنے خیر خواہوں اور بد خواہوں کو اچھی طرح شناخت کرچکے ہیں، ان پہ واضح ہوچکا ہے کہ کون سی سیاسی جماعت ان کے ساتھ مخلص ہے اور کون سی جماعت یا افراد ان کے حقوق کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ فاٹا کے نوجوان آئندہ انتخابات میں اسی سیاسی پارٹی کا ساتھ دینے جا رہے ہیں، جس نے ان کے حقوق کی بات کی اور قبائلی عوام کے درد کو سمجھا۔ فاٹا کے نوجوان آئندہ انتخابات میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت سے فاٹا کو تسلی کے علاوہ اور کیا ملا ہے۔؟
شوکت عزیز:
موجودہ حکومت نے فاٹا کے اصلاحاتی عمل کو غیر ضروری تاخیر کا شکار کیا اور اس میں شدید پس و پیش سے کام لیا۔ حالانکہ یہ حکومت چاہتی تو یہ عمل بروقت اور احسن طریقے سے سرانجام دے سکتی تھی۔ اب حکومت کے پاس بھی زیادہ وقت نہیں ہے، چنانچہ اس لحاظ سے تو حکومت کے پاس یہ آخری موقع ہے کہ وہ یہ کام کر گزرے، کیونکہ اگر یہ موقع بھی ضائع ہوگیا تو فاٹا کے عوام کبھی معاف نہیں کرینگے۔

اسلام ٹائمز: کس ایجنسی نے خیبر پختونخوا میں انضمام کو مسترد کیا ہے۔؟
شوکت عزیز:
حقیقت تو یہ ہے کہ فاٹا کے نوے فیصد سے زیادہ عوام خیبر پختونخوا میں انضمام چاہتے ہیں۔ ہم نے ہر ایجنسی کا وزٹ کیا ہے۔ سیمینارز کئے ہیں۔ عوامی سطح پر تقاریب کا اہتمام کیا ہے۔ سب ایجنسیاں خیبر پختونخوا میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ اس کے علاوہ فاٹا اصلاحاتی کمیٹی نے ہر ایجنسی کا دورہ کیا تھا۔ ہمیں ہر ایجنسی میں یکساں مسائل دیکھنے کو ملے اور ہر ایجنسی کے باشندے ان مسائل کا حل چاہتے ہیں اور وہی حقوق مانگتے ہیں، جو عام پاکستانیوں کو حاصل ہیں۔

اسلام ٹائمز: کس سیاسی جماعت کے دور میں فاٹا پہ زیادہ توجہ دی گئی؟
شوکت عزیز:
اگر حقیقت بیانی سے کام لیا جائے تو پیپلزپارٹی نے فاٹا کے عوام کیلئے بہ نسبت دیگر پارٹیز کچھ نہ کچھ کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اپنے دور حکومت میں فاٹا کا دورہ کیا اور مختلف ایجنسیز میں ڈگری کالجز کی بنیاد رکھی، جو اس سے ہہلے فاٹا میں نہیں تھے۔ اس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں بھی ترقیاتی کام ہوئے۔ پھر آصف علی زرداری صاحب نے اپنے دور حکومت میں کچھ اصلاحات کیں، جس کیوجہ سے قبائلی عوام نے سیاسی آزادی حاصل کی اور آج الحمدللہ اپنے حقوق کے حصول کیلئے نکل پڑے ہیں۔ فوجی آپریشنز کے بعد فوج نے بھی بہت سے ترقیاتی کام اپنی نگرانی میں کرائے ہیں بالخصوص سڑکیں۔
خبر کا کوڈ : 726722
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش