0
Wednesday 4 Jul 2018 16:31
متحدہ مجلس عمل کا اتحاد انتخابات کے بعد بھی قائم رہیگا

گریٹر اسرائیل کی راہ میں‌ رکاوٹ کو دور کرنے کیلئے شام میں فساد برپا کیا گیا، ملک سکندر خان ایڈووکیٹ

او آئی سی کے بعض ممالک آج بھی اسرائیل کیساتھ تعلقات رکھے ہوئے ہیں
گریٹر اسرائیل کی راہ میں‌ رکاوٹ کو دور کرنے کیلئے شام میں فساد برپا کیا گیا، ملک سکندر خان ایڈووکیٹ
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ جمعیت علماء اسلام (ف) بلوچستان کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ وہ بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ زمانہ طالبعلمی سے سیاست میں رہ چکے ہیں۔ 1990ء کے عام انتخابات میں پی بی 4 کوئٹہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں‌ کامیاب ہوئے۔ بعدازاں وہ 1990ء سے لیکر 1993ء تک بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر رہے۔ تقریباً 29 مہینے تک رہنے والی بلوچستان اسمبلی کو اسوقت کے صدر غلام اسحاق خان نے توڑ دیا اور نئے عام انتخابات کا اعلان کیا۔ بلوچستان میں جے یو آئی (ف) کی ماضی کی کارکردگی، متحدہ مجلس عمل کی فعالیت، پاکستان سمیت دنیا بھر میں جاری دہشتگردی کی لہر اور مسئلہ فلسطین سے متعلق ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان سے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: جے یو آئی (ف) صوبہ بلوچستان میں ہمیشہ حکومت کا حصہ رہی ہے یا اپوزیشن بینچوں پر بیٹھی ہے۔ تیس سالوں سے مسلسل اقتدار میں رہنے کے بعد اس مرتبہ جے یو آئی (ف) متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے عوام کیلئے کیا نئی چیز لیکر آئی ہے۔؟
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ:
ہم سب کا تعلق اس ملک کی فلاح و بہبود سے ہے۔ آج سے ساٹھ یا ستر سال قبل ہمارے اس معاشرے میں جو روایات و اخلاقی اقدار تھیں، وہ معاشرہ آج وجود نہیں رکھتا۔ معاشرہ ایک دن میں تنزلی کی جانب نہیں‌ جاتا، بلکہ آہستہ آہستہ زوال پذیر ہوتا جاتا ہے۔ ہماری روز اول سے کوشش تھی کہ پاکستان میں بسنے والی تمام اقوام کو برابر کے حقوق دلائے جائیں اور یہاں پر قرآن و سنت کی روح کے مطابق قانون سازی کی جائے۔ بدقسمتی سے ہمارے اوپر ایسے حکمران مسلط ہوئے کہ جس سے پاکستان کو بہت نقصان اٹھانا پڑا، لیکن ہم نے ابھی تک ہار نہیں مانی۔ ہماری جدوجہد ملک میں قرآن و سنت کی بالادستی کیلئے پہلے بھی جاری تھی اور آج بھی جاری ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کی عوام نے مذہبی جماعتوں، قوم پرستوں اور قومی جماعتوں سمیت معاشرے کے ہر طبقے کی طرز حکمرانی دیکھی، لیکن آج بھی صوبے کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ اس مرتبہ اگر آپ حکومت میں آئے، تو آپکی ترجیحات کیا ہونگی۔؟
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ:
ہماری پالیسی پاکستان کی عوام دیکھ چکی ہیں۔ جب 1970ء میں انتخابات ہوئے تو ہمیں خیبر پختونخوا میں وزارت اعلٰی ملی۔ اس دور کو آج بھی خیبر پختونخوا کے لوگ یاد کرتے ہیں۔ وہاں ہم نے اپنے دور حکمرانی میں بلاتفریق خدمت کی۔ جہاں تک بات بلوچستان کی ہے، تو اس صوبے میں ہمیں حکومت کبھی ملی نہیں، جس میں ہم اپنی کارکردگی کو ثابت کرسکتے۔ مولانا واسع صاحب کو بھی صرف ایک وزارت ملی، آپ اس ایک وزارت کے ذریعے صوبے کے پیچیدہ مسائل کو حل نہیں کرسکتے، بلکہ آپ کو اپنی مضبوط حکومت چاہیئے ہوتی ہے۔ 2013ء میں ہماری جماعت کے پانچ امیدوار کامیاب ہوئے، اب اس تعداد کیساتھ کوئی کیا کرسکتا ہے۔؟

اسلام ٹائمز: کیا بلوچستان اسمبلی میں ایسا بل منظور کروایا جاسکتا ہے کہ اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز استعمال کرنیکا کوئی حق نہ ہو، بلکہ وہ صرف قانون سازی کریں۔؟ کیا کوئی اتنی بڑی قربانی دینے کو تیار ہے۔؟
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ:
جب میں‌ اسپیکر بلوچستان اسمبلی تھا، اس وقت میں صدر غلام اسحاق خان کے پاس میں یہ درخواست لیکر گیا تھا کہ ہر آدمی کو اپنا کام کرنا چاہیئے۔ جو ادارہ، جس کام کیلئے مختص ہے، اسے وہی کام کرنا چاہیئے۔ ترقیاتی فنڈز ایم پی اے کو براہ راست نہیں ملنے چاہیئے، بلکہ اسے صرف اپنے علاقے کی ترقی کیلئے حکومت کو گزارش کرنی چاہیئے، تاکہ مختلف علاقے ترقی کرسکیں۔

اسلام ٹائمز: کیا متحدہ مجلس عمل کا مقصد مذہبی کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے اقتدار تک پہنچنا ہے یا جمہوریت کو اسلامی اصولوں کیمطابق پروان چڑھانا ہے۔؟ کیونکہ 2008ء میں تو متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم کو اتنی پذیرائی نہیں ملی۔؟
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ:
اگر ہم پاکستان کی اساس اور قائداعظم محمد علی جناح کی فرمودات کو سامنے رکھیں، تو جنوری 1948ء کو انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور میں کہا کہ پاکستان کے قیام کا مقصد ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ یہ ایک تجربہ گاہ ہوگا، جس میں عملاً اسلامی اصولوں کو آزمایا جاسکے گا۔ اسی طرح فروری 1948ء کو ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا دستور کیا ہوگا۔؟ انہوں نے کہا کہ یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ دستور کیا ہوگا، لیکن یہاں پر جمہوری دستور ہوگا، جو کہ اسلامی اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ اسی طرح کراچی میں جب انہوں نے اسٹیٹ بینک کا افتتاح کیا تو اس میں انہوں نے کہا کہ ہمارا معاشی نظام، مغربی معاشی نظام کی طرز پر نہیں ہوگا، کیونکہ اس میں تباہی اور بربادی کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔

آپ نے 2008ء کے انتخابات کی بات تو کی، لیکن 2002ء کی بات نہیں کی، 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کو بھرپور پذیرائی ملی۔ جس طرح میں نے پہلے بھی کہا کہ خیبر پختونخوا میں ایم ایم اے کی حکومت بنی۔ 2002ء کے ایم ایم اے میں جماعت اسلامی ہمارے ساتھ تھی، لیکن 2008ء میں جماعت اسلامی ایم ایم اے کیساتھ نہیں تھی۔ یعنی اصل بات یہ ہے کہ جو پیغام وحدت کے ذریعے قوم تک پہنچایا جاسکتا ہے، اسے تقسیم ہوکر پہنچانا ممکن نہیں۔ 2002ء میں ایک موثر حکمت عملی کیساتھ متحد ہوکر ہم انتخابی دنگل میں کھود پڑے تھے اور آج ایک مرتبہ پھر اسی عزم کیساتھ کھود پڑیں ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ اگر اس ملک میں صاف و شفاف انتخابات ہوئے تو 2018ء میں ایم ایم اے پاکستان کی تاریخ میں ایک مضبوط مذہبی سیاسی جماعت ابھر کر سامنے آئے گی۔

اسلام ٹائمز: ہر سیاسی جماعت یہی کہتی ہے کہ اگر وہ انتخابات جیتی تو الیکشن کو غیر جانبدار سمجھا جائیگا اور اگر ہار گئے تو اس الیکشن کو جانبدار سمجھا جائیگا۔ کیا آپکی جماعت بھی ایسی ہی ہے۔؟
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ:
2013ء کے انتخابات ہونے کے بعد میں نے یہ بات کہی تھی کہ جو الیکشن مقبوضہ کشمیر میں مظلوم مسلمانوں پر ظلم کے سائے میں اور جو الیکشن کابل میں نیٹو اور امریکی فورسز کے سائے میں ہوتا ہے، صوبہ بلوچستان میں گذشتہ انتخابات کی حالت اس سے بھی بدتر تھی۔ تمام بڑی جماعتوں نے الیکشن پر اعتراضات اٹھائے، کہ ان انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ اتحاد محض انتخابات کی حد تک ہے یا آئندہ بھی قومی مسائل پر اس اتحاد کو محفوظ رکھا جائیگا۔؟
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ:
چاہے جے یو آئی (ف) ہو یا جماعت اسلامی، متحدہ مجلس عمل میں شامل تمام جماعتیں اپنے پلیٹ فارم سے اپنی قوت کے مطابق کام کرتی ہیں۔ ہم نے یہ دیکھا ہے کہ مشترکات پر جب بھی دینی جماعتیں اکٹھی ہوئی ہیں اور ان مشترکات میں ہم نے مفادات کی بجائے، مسائل کو سامنے رکھا، تو اس کے نتیجے میں ہمیں عوام کی جانب سے بھی پذیرائی ملی اور اس مسئلے کے حل کیلئے یہ جماعتیں موثر حل بھی پیش کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ 2008ء میں ہمارے درمیان پرویز مشرف کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوگئے تھے، لیکن آج وہ حالات نہیں، ہمارا یہ اتحاد انتخابات کے بعد بھی قائم رہے گا۔

اسلام ٹائمز: الیکشن کمیشن کیجانب سے جاری کردہ نئے ضابطہ اخلاق کیمطابق انتخابی مہم میں عدلیہ اور فوج کی تضحیک کرنے کی اجازت نہیں، جبکہ سیاسی جماعتیں کا اصل ہدف اس مرتبہ فوج اور عدلیہ ہی ہے۔ کیا اس قانون سے پرجوش تقاریر کرنے میں مشکلات پیش آئینگی۔؟
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ:
اپنے ملک کی عدلیہ یا فوج کی تضحیک کرنے سے آئین بھی ہمیں روکتا ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں، عدالتوں میں بیٹھے ججز اور فوجی جنرلوں کو بھی آئین کی مخالفت سے اجتناب کرنا چاہیئے۔ ضابطہ اخلاق میں جو ہمیں یہ تنبہ کی گئی ہے یہ تو بنیادی آئینی تقاضہ ہے۔ یہ تقاضہ صرف سیاستدانوں کیلئے نہیں، بلکہ ہر ادارے میں بیٹھے صاحب اخیتار سے لیکر عام عوام تک سب کو آئین کی پاسداری کرنی چاہیئے۔ سیاسی لیڈرشپ کی بھی اپنی عزت ہوتی ہے، جو کہ کروڑوں ووٹ لیکر منتخب ہوتا ہے۔ آئین کے بنانے والے ہی پارلیمنٹ میں جانے والے سیاستدان ہوتے ہیں۔ لہذا ہمارے لئے تمام سیاستدانوں کا احترام بھی واجب ہے۔ 2013ء میں جب انتخابات ہوئے، تو ہمارے امیدوار آر او آفیسر سے ملاقات کرنا چاہتے تھے، لیکن انہیں وقت نہیں دیا جاتا تھا۔ بعدازاں ہمارے ووٹوں کی پرچی ہمیں کچرہ دانوں سے ملی۔ اگر دھاندلی کی روک تھام کیلئے کوئی ضابطہ اخلاق جاری ہو، تو ملک کیلئے مفید ثابت ہوگا۔

اسلام ٹائمز: فاٹا انضمام کا فیصلہ وہاں کے عوام کی امنگوں کیمطابق ہوا، آپکی جماعت اس تاریخی دن کا حصہ کیوں نہیں بنی۔؟
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ:
فاٹا انضمام کا فیصلہ فاٹا کے عوام کی تاریخ کا ایک سیاہ فیصلہ تھا۔ آج سے سو سال قبل فاٹا پر ایک ایسا قانون مسلط کیا گیا، جس میں فاٹا کے عوام کی مرضی شامل نہیں تھی۔ آج پھر اکثریت کے زور پر ایک ایسا مسلط کیا گیا کہ جس میں خود وہاں کے عوام کی رائے اس میں شامل نہیں۔ اس لئے میں کہتا ہو کہ گذشتہ سو سالہ ایف سی آر کا قانون بھی غیر منصفانہ تھا اور آج کا یہ فیصلہ بھی غیر منصفانہ ہے۔

اسلام ٹائمز: آئندہ عام انتخابات میں صوبہ بلوچستان کی سطح پر آپ اپنا حلیف کسے تصور کرتے ہیں۔؟
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ:
2018ء کے انتخابات دو نظریات کی جنگ ثابت ہوگا۔ مغربی ایجنڈے پر عمل پیرا قوتیں اسلامی تہذیب کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہونگی۔ قوم پرستوں نے اپنے دور اقتدار میں اربوں روپے کرپشن کی، یہ لوگ کرپشن کے بادشاہوں کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ اپنے دور اقتدار میں صرف قوم پرستوں نے اپنے خاندان والوں کو نوازا، چاہے پشتونخوامیپ ہو یا نیشنل پارٹی، دونوں سیاسی جماعتوں نے اپنی باریاں لی، لیکن بلوچستان کیلئے کوئی کام نہیں‌ کیا۔ بلوچستان کی عوام کی امیدیں اس مرتبہ جمعیت سے وابستہ ہے اور ووٹ کی طاقت سے ہم ایک سیاسی قوت بن کر سامنے آئیں گے۔

اسلام ٹائمز: پیغام پاکستان کے عنوان سے دہشتگردی کیخلاف جاری ہونیوالے فتویٰ کے کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ:
اتحاد و وحدت ہی امت مسلمہ کی طاقت بن سکتی ہے۔ ٹکڑوں میں بکھرے رہیں گے تو کمزور ہوں گے۔ پیغام پاکستان کے عنوان سے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دینی سیاسی قیادت کی قابل قدر کاوش ہے، جس سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا استفادہ کرکے امن قائم کرسکتی ہے۔ بے گناہ انسان کا خون چاہے جہاں کہی بھی بہے، اس کی اسلام میں سخت ممانعت کی گئی ہے۔ اس مکروہ عمل کے خلاف فتویٰ دینا مسئلے کے حل کی جانب پہلا قدم ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کو اس ناسور کیخلاف عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان سمیت مشرق وسطٰی کے دیگر ممالک میں امریکی مداخلت کو کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
ملک سکندر خان ایڈوکیٹ:
امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ یہ خطہ دہائیوں تک غیر مستحکم رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود امریکہ اس خطے کو غیر مستحکم رکھنے میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکہ نے دہشتگردی کے نام پر ہر ملک کو یرغمال بنائے رکھا ہے۔ اسی دہشتگردی کے نام پر عراق میں جنگ مسلط کی گئی، وہاں امن نہیں آیا، اسی طرح افغانستان، لیبیا اور شام سمیت دیگر کئی ممالک میں دہشتگردی کے نام پر کارروائیاں کیں، لیکن کہی بھی امن نہیں آیا۔ چند سال قبل امریکی خفیہ ادارے پینٹاگون کی رپورٹ آئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر امریکہ کو دنیا میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا ہے تو دنیا میں جنگ جاری رہنی چاہیئے۔ دوسری بات یہ کہی گئی تھی کہ ان ممالک کو تقسیم در تقسیم کرکے ان کی قوت کو زائل کیا جائے۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ امریکہ کیلئے امت مسلمہ کے بعد سب سے زیادہ خطرناک چین اور روس ہے، لہذا انہیں کاؤنٹر کرنے کیلئے اس خطے کو غیر مستحکم رکھا جائے گا۔ اس مکروہ عمل میں امریکہ سب سے آگے ہے اور وہ اپنے استعماری مفادات کے حصول کیلئے کشت و خون کو کبھی بھی ختم نہیں کرے گا۔

اسلام ٹائمز: افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ:
افغانستان کی وزارت دفاع کے ایک عہدیدار نے کہا تھا کہ جب طالبان اور داعش کے درمیان جنگ ہوتی ہے، تو امریکی ڈرون وہاں جاکر طالبان کو نشانہ بناتے ہیں، لیکن داعش پر بمباری نہیں کرتے۔ یعنی داعش امریکہ کیلئے ایک اسٹریٹیجک سرمایہ ہے۔ امریکہ داعش کے ذریعے افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: بیت المقدس میں امریکی سفارتخانے کی منتقلی کے پیچھے کونسے مقاصد کارفرما ہوسکتے ہیں۔؟
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ:
ایک جانب امریکہ و اسرائیلی جہاز مظلوم فلسطینیوں پر بمباری کر رہے ہیں تو دوسری جانب نہتے و مظلوم فلسطینی عوام پتھروں سے ان کا مقابلے کر رہے ہیں، جس کی بھرپور مذمت کی جانی چاہیئے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب امریکی صدر ٹرمپ نے سفارتخانے کی منتقلی کا اعلان کیا تو جنرل اسمبلی نے اس کے اعلان کو دو تہائی اکثریت سے مسترد کر دیا۔ اس حوالے سے نہ صرف مسلم ممالک بلکہ غیر مسلم ممالک بھی ٹرمپ کے اس اقدام کی پرزور مذمت کر رہے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کے افتتاح کے موقع پر 66 سے زائد ممالک کو دعوت دی گئی تھی، لیکن آدھے سے زائد ممالک نے شرکت نہ کرکے امریکہ کو واضح پیغام دیا۔

اسلام ٹائمز: او آئی سی کا کردار فلسطین کے حوالے سے محض مذمتی قراردادوں کو منظور کروانے تک رہا ہے، عملی طور پر او آئی سی یا عرب لیگ کو کیا کرنا چاہیئے۔؟
ملک سکندر خان ایڈووکیٹ:
فلسطین کا مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں، بلکہ دنیا میں بسنے والی پوری انسانیت کا ہے۔ او آئی سی اور عرب لیگ کو مذمتی قراردادیں پیش کرنے کی بجائے، اسرائیل سے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کرنا چاہیئے۔ او آئی سی میں جتنے بھی ممالک شامل ہیں، انہیں اپنے ان تمام دوستوں سے تعلقات ختم کرنے چاہیئے، جو اسرائیل کیساتھ دوستی رکھتے ہو۔ اسی طرح اسرائیلی مصنوعات کا مکمل طور پر بائیکاٹ کیا جانا چاہیئے۔ اسرائیل کو واقعی طور پر تنہا کرنا چاہیئے، لیکن بدقسمتی سے جو ممالک او آئی سی میں شامل ہیں، ان کے اسرائیل کیساتھ دفاعی، تجارتی اور سفارتی تعلقات اب تک بحال ہیں۔ ایسے اقدامات کا صرف ایک مقصد گریٹر اسرائیل بنانے کا ہے۔ گریٹر اسرائیل کی راہ میں اس سے پہلے مصر اور لیبیا رکاوٹ تھے، جنہیں قابو کیا گیا۔ اسی طرح آج شام بھی گریٹر اسرائیل کی راہ بھی بڑی رکاوٹ تھا، اسی وجہ سے وہاں پر بھی فساد برپا کیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 735647
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش