0
Sunday 15 Jul 2018 20:37
نگران حکومت کو کیسے یقین ہے کہ کالعدم تنظیمیں شدت پسندی چھوڑ چکی ہیں

ہم دہشتگردی اور قبل از انتخابات ہونیوالی دھاندلی دونوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، اعتزاز احسن

نون لیگ اور دہشتگردوں کا ایک ہی بیانیہ ہے
ہم دہشتگردی اور قبل از انتخابات ہونیوالی دھاندلی دونوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، اعتزاز احسن
ماہر قانون، پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء چوہدری اعتزاز احسن 1945ء کو مری میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور کیمبرج سے لاء کی ڈگری مکمل کی۔ 1967ء میں سی ایس ایس کا امتحان اول پوزیشن کیساتھ پاس کیا، لیکن سرکاری ملازمت نہیں کی۔ ذولفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں 1975ء میں پنجاب کے صوبائی وزیر رہے، 1977ء میں گجرات سے صوبائی الیکشن لڑا۔ 1977ء میں پی پی پی کی صوبائی وزرات سے اس لیے استعفیٰ دیا کہ پنجاب حکومت نے دھاندلی کے خلاف مظاہرہ کرنیوالے وکلاء پر فائرنگ کی اور تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کر لی۔ مارشل لاء اور بھٹو کی پھانسی کے بعد دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور ضیاالحق مارشل لاء کیخلاف بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی کے سرگرم رہنماء رہے۔ 1988ء میں لاہور سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، بے نظیر حکومت میں 1990ء تک وفاقی وزیر داخلہ رہے۔ 1994ء میں سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔ 1997ء تک بے نظیر حکومت میں وفاقی وزیر برائے قانون، انصاف اور انسانی حقوق رہے۔ 2002ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2007ء سے 2008ء تک سپریم کورٹ بار کے صدر رہے۔ عدلیہ بحالی تحریک کی وجہ سے 2008ء کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ 2012ء میں سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔ 2014ء کے دھرنوں میں جمہوریت کی بقاء کیلئے نواز شریف حکومت کی حمایت کی۔ اب نواز شریف اور سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری دونوں کے مخالف ہیں۔ موجودہ ملکی حالات اور 2018ء کے قومی انتخابات کے متعلق پی پی پی رہنماء کیساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کے حالیہ واقعات میں انتخابی مہم کے دوران علاقائی سیاسی قیادت کو نشانہ بنایا گیا ہے، اسکے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں۔؟
اعتزاز احسن:
حالیہ الیکشن کے موقعہ پر دہشت گردی، انتخابی جلوسوں اور جلسوں میں حملوں اور سیاسی رہنمائوں پر قاتلانہ حملوں کا خطرہ تو موجود تھا اور اس سلسلے میں حکومت نے خفیہ ذرائع کی اطلاعات کی بنیاد پر صوبائی حکومتوں، الیکشن کمیشن اور سیاسی رہنمائوں کو آگاہ بھی کر دیا تھا، اس کے ساتھ انہیں احتیاطی اقدامات کا بھی مشورہ دیا گیا تھا، لیکن الیکشن کی گہماگہمی میں محتاط رہنا بہت مشکل ہے۔ سیاسی پارٹیاں بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں اور جلوس نکال رہی ہیں، اس ماحول میں دہشت گرد بڑی آسانی سے اپنی کارروائیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ 2013ء کے قومی انتخابات کے دوران بھی سیاسی رہنماؤں اور جمہوری سرگرمیوں کے لیے سلامتی کے خدشات موجود تھے اور اس وقت بھی بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان خدشات کا اظہار مسلسل کیا جاتا رہا کہ سکیورٹی کی صورتحال نے انہیں بھرپور سیاسی سرگرمیوں اور عوام سے رابطے کا موقع نہیں دیا، جس کے نتیجے میں انتخابات میں ان کی کارکردگی متاثر ہوئی۔ تاہم اس نصف دہائی کے دوران پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ گیا۔

ان واقعات کے پیچھے مخصوص عناصر ہیں، لیکن اسکا مقصد انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنا ہے اور چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی کو تقویت دینا ہے، ان مقاصد کو ناکام بنایا جا سکتا ہے، اگر بلوچستان جیسے صوبے کو پورے حقوق، وسائل، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں۔ ان حملوں کے پیچھے وہی قوتیں ہیں جو پاکستان کی ترقی کے دشمن ہیں، ہماری ترقی جمہوریت سے وابستہ ہے، دہشت گرد جمہوری عمل کو معطل کرنا چاہتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کو دہشت گردانہ حملوں میں نشانہ بنانے کے یہ واقعات نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان کے دشمن، جمہوری عمل کے خلاف بھیانک سازش تیار کئے بیٹھے ہیں۔ انتخابی سیاست کو نشانہ بنانے کا سوائے اس کے کوئی مقصد نہیں ہو سکتا کہ جمہوری عمل کا جو ارادہ تکمیل کے مراحل میں ہے، دشمن اسے سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر پاکستان کی بہادر سکیورٹی فورسز اور پُرعزم عوام اور زیرک سیاسی رہنماؤں کے عزائم و ارادے دشمنوں کی اس سازش کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس دوران زیادہ سے زیادہ محتاط رہا جائے۔

انتظامیہ کو جلسے، جلوسوں کے لیے فول پروف سکیورٹی پلان تشکیل دینا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو اپنے کارکنوں اور رضا کاروں کے ذریعے خود بھی سکیورٹی کو اطمینان بخش بنانے پر توجہ دینا ہوگی۔ یہ تمام سیاسی قوتوں کی ذمہ داری ہے کہ ان مذموم مقاصد کو ناکام بنائیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قوتوں کو نہ کوئی شعور ہے اور نہ انہیں احساس ہے، انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں، جو ان میں پائی جاتی ہو، بلاول نے تو سانحہ مستونگ پر انتخابی سرگرمیاں معطل کرنے اور مالا کنڈ کا جلسہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا کہ جب سیکڑوں شہادتیں ہو جائیں تو وہ کیسے پارٹی ترانے گائيں اور نعرے لگائيں، لیکن جب مستونگ انتخابی ریلی میں شریک بے گناہ لوگ خاک و خون میں لت پت پڑے دم توڑ رہے تھے اور لاہور میں شہباز شریف ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھے، لوگوں کو قانون شکنی پر اکسا رہے تھے۔ انکا بیانیہ اور دہشت گردوں کا بیانیہ ایک ہی ہے، یہ بھی غیر جمہوری لوگ ہیں اور آمریت کی پیداوار ہیں، نہ کسی قانون کو مانتے ہیں نہ دوسروں کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔

 اسلام ٹائمز: بڑے بڑے فوجی آپریشنز کے باوجود دہشت گردی روکی نہیں جا سکی، اسکا تدارک کیسے ممکن ہے؟
اعتزاز احسن:
پاکستان مسلسل دہشت گردی کا شکار ہے۔ اس میں کافی کمی بھی آئی ہے، لیکن دشمن ممالک کی پشت پناہی کے باوجود یہ دہشت گرد گروپ کمزور اور غیر مؤثر تو ہو گئے ہے، کیونکہ فوجی آپریشنوں کے نتیجے میں شمالی اور جنوبی وزیرستان اس کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں، جنہیں وہ ماضی میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی تیاری اور منصوبہ بندی کیلئے استعمال کرتے تھے، لیکن ان کا ڈھانچہ اب بھی موجود ہے اور ان سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد اب بھی پاکستانی سرحد سے ملحقہ افغان صوبوں میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ یہ بھی اطلاعات تھیں کہ ٹی ٹی پی کے بیشتر ارکان جنوبی اور شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن سے پہلے ہی اپنے علاقے خالی کرکے افغانستان منتقل ہو گئے تھے۔ ان جنگجوئوں نے افغانستان کے صوبے کنڑ میں اپنے اڈے قائم کر رکھے ہیں اور وہ ان کو استعمال میں لا کر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ پاکستان میں ان کی امداد کے لئے سہولت کار بھی موجود ہیں۔

اگرچہ پاک آرمی پاک افغان سرحد پر باڑ لگا رہی ہے، لیکن باڑ لگانے سے دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد کے آر پار لوگوں کی آمدورفت کو روکنا ناممکن ہے اور اب بھی لوگوں کی بڑی تعداد مختلف مقامات سے سرحد عبور کرکے پاکستان سے افغانستان اور افغانستان سے پاکستان آتی رہتی ہے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ پاکستانی طالبان، جو فوجی آپریشن کے دبائو کے تحت پاکستان چھوڑ کر افغانستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے تھے، واپس جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان آ چکے ہیں اور یہاں اچھے طالبان کا روپ دھار کر اپنا اثر و رسوخ اور طاقت بحال کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مشرق وسطیٰ سے دہشت گردوں کو اکٹھا کر کے افغانستان میں جمع کیا جا رہا ہے، تاکہ انہیں عالمی طاقتیں روس، چین، ایران اور پاکستان کے بننے والے اتحاد کو توڑنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن میرے خیال میں تحریک طالبان، لشکر جھنگوی، داعش، احرار گروپ جتنے نام رکھ لیں، یہ اندر سے ایک ہیں، انکی سوچ ایک ہے، سب سے زیادہ خطرناک یہ سوچ ہے، اسکا خاتمہ زیادہ ضروری ہے۔
 
اسلام ٹائمز: یہ حقائق اپنی جگہ پہ درست ہونگے، لیکن اس کا خاتمہ کر کے ملک و قوم کو دہشت گردی سے چھٹکارا دینا آخر کس کی ذمہ داری ہے؟
اعتزاز احسن:
یہ ایک عذاب ہے۔ اس کا خاتمہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ بات ہمیں سمھجنا ہو گی کہ مسلح کارروائیوں سے دہشت گردوں کو وقتی طور پر غیر مؤثر تو بنایا جا سکتا ہے، لیکن دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے یہ کافی نہیں۔ اس کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی تشکیل دینا ہو گی۔ 2014ء میں جاری کردہ نیشنل ایکشن پلان کو بھی ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ معلوم ہو سکے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے جن اقدامات کی سفارش کی گئی تھی، ان پر کیوں پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوا۔ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو بیرونی سے اندرونی خطرات لاحق ہیں اور دوسری طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تساہل، لاپروائی اور غفلت سے کام لیا جاتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر عمل درآمد میں ناکامی کی سب سے نمایاں مثال نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی کی ہے، جس کے بورڈ آف گورنرز کا آج تک اجلاس نہیں ہو سکا۔ حالانکہ نیکٹا کے رولز کے مطابق ہر تین ماہ بعد اس کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس لازمی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار جانی قربانیوں اور بھاری مالی نقصان کے باوجود ہماری حکومتوں کی طرف سے اس کے مکمل تدارک کیلئے مؤثر اور بروقت اقدامات کرنے میں ناکامی افسوسناک ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے قانون کی حکمرانی، عوام کی شمولیت، جسکا طریقہ کار صرف پارلیمنٹ کے رول کو بڑھانا ہے۔ اسکے بغیر کوئی چارہ کامیاب نہیں ہو سکتا، یہی واحد راستہ جس کیساتھ جنگیں بھی لڑی جا سکتی ہیں، دہشت گردی بھی ختم کی جاسکتی ہے، پسماندگی کا خاتمہ بھی ہو سکتا ہے، پاکستان کے عزت و وقار کو بھی بحال کیا جا سکتا ہے، شدت پسندی کی جڑیں بھی ختم کی جا سکتی ہیں۔ خیر تجویز تو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے، پاکستان میں اب ایک ایسا شخص وزارت عظمیٰ کا امیدوار ہے، جس نے اپنا ووٹ بنک بڑھانے کیلئے شدت پسندوں کو کروڑوں کے فنڈز دیئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دہشت گردی سمیت ملک کو درپیش دوسرے خطرات کیلئے جامع بیانیہ کس طرح ممکن ہے؟
اعتزاز احسن:
بروقت انتخابات جمہوری عمل کے تسلسل کیلئے اہم ہیں۔ ملک میں چاروں اطراف اس وقت انتخابی گہما گہمی ہے۔ پولنگ ڈے اور بیلٹ کیلئے تمام سیاسی جماعتیں میدانِ عمل میں سرگرم ہیں اور عوام بھی بیلٹ کیلئے اپنا ذہن بنا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر بم دھماکے اور دہشت زدہ ماحول عوام پر طاری کر دیا جائے تو صورتحال حوصلہ افزا نہیں ہو گی۔ اس ساری صورتحال میں سیاسی کارکن اور خود انتخابی امیدواران جبر اور دہشت کا مقابلہ کرنے کیلئے کیسے میدان میں اتریں، جب کہ سویلین تو ہر لحاظ سے ان کے مقابلے میں بے دست و پا ہیں، عوام صرف سیاسی نظریہ اور سیاسی ماحول کے ذریعے دہشت زدہ ماحول کو مات دے سکتے ہیں۔ اس بگڑتے منظرنامے میں تمام سیاسی حریفوں پر لازم ہے کہ اپنے اپنے اختلافات بالائے طاق رکھیں اور مکمل یکسوئی سے دہشت گردی کا مقابلہ کریں۔

اس کے مقابلے کیلئے بھرپور سیاسی عمل کی حوصلہ افزائی کریں، تاکہ دہشت گرد قوتوں کو قوم کی بیداری کا احساس ہو۔ اس ریاست کے محافظ اداروں کیلئے امتحان مزید بڑھ گیا ہے، کیونکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان دہائیوں سے دہشت گردی کی کارروائیوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور محض دشمن کو ظاہری طور پر کچلنے کا بیانیہ اب ہمارے درد کا علاج نہیں ہے، یہ مرض اب بڑھ چکا ہے۔ افواج پاکستان ہی براہِ راست اس دشمن سے نمٹ سکتی ہیں اور ہماری افواج نے ضرب عضب کے ذریعے دشمن کو سرحد کے اس پار دھکیل دیا۔ ملک کی اعلیٰ ترین فوجی قیادت تمام سیاسی قیادتوں کو اعتماد میں لے، نگران وزیراعظم اپنا رابطہ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے اس مسئلہ پر بڑھائیں۔ پاکستانی عوام کو سمجھنا ہوگا کہ اگر دہشت گردوں کے آگے ہاتھ کھڑے کر دیئے، تو پھر قوم کے آگے بڑھنے کا امکان ختم ہو جائیگا۔ دنیا بھر میں دشمن قوتیں دہشت پھیلا کر مایوسی پھیلاتی ہیں، مگر دنیا بھر میں جمہوری اقوام اس کا مقابلہ کرتی ہیں اور جمہوری عمل کے ذریعے آگے بڑھتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: لیاری کے بعد بلاول بھٹو زرادری کے قافلے کو متعدد جگہوں پہ انتظامیہ نے روکا ہے، اس سے پی پی پی کی انتخابی مہم کو متاثر کیا جا رہا ہے، آپ کیا کہیں گے؟
اعتزاز احسن:
ایک بات تو طے ہے پیپلزپارٹی بروقت انتخابات چاہتی ہے، ذوالفقار علی بھٹو شہید سے لیکر بی بی شہید تک ہم نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں، لیکن اب بھی نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی کو بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم نہیں کیے جا رہے، ہم تو یہی چاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو دیوار سے نہ لگایا جائے، دہشتگرد خوف کی فضا سے انتخابات کو متاثر کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہم یہی چاہتے ہیں کہ الیکشن وقت پر ہی ہوں۔ ہمیں الیکشن کیلئے سازگار ماحول نہیں مل رہا، پیپلزپارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکا جا رہا ہے، مشکلات کے باوجود ہمارے امیدوار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، الیکشن کمشن انتخابی مہم کیلئے یکساں مواقع نہ ملنے کا نوٹس لے۔ ہر صورت میں جمہوریت آمریت سے بہتر ہے اور ہم اسی فلاسفی پر گامزن ہیں۔ الیکشن شفاف نہیں ہونگے، تو نتائج متنازعہ ہونگے، متنازعہ پارلیمنٹ بننے پر عوامی مسائل حل کرنا مشکل ہو گا، پیپلزپارٹی وفاق میں حکومت بنائے گی، اب بھی ہم نے سب سے زیادہ امیدوار میدان میں اتارے ہیں، پیپلزپارٹی کسی صورت انتخابات کا التواء نہیں چاہتی۔

ایک طرف دہشت گرد انتخابات سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، دوسری بے بنبیاد مقدمات کے ذریعے پی پی پی کی قیادت کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ہم دہشت گردی اور قبل از انتخابات ہونیوالی دھاندلی دونوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، عام انتخابات کے سلسلے میں اپنی انتخابی مہم چلانے میں ساز گار ماحول فراہم نہیں کیا جارہا، جبکہ مخصوص سیاسی جماعتوں کو مکمل موقع دیا جارہا ہے۔ ہمارے خیال میں پاکستان کو داخلی اور خارجی سطح پر متعدد چیلنجز کا سامنا ہے اور پاکستان میں ایک کٹھ پتلی حکومت ان مسائل پر قابو پانے کی اہل نہیں ہوسکتی۔ پاکستان میں پانی، بجلی اور گیس جیسے بنیادی مسائل ہیں اور اب ہمیں ان مسائل پر توجہ دینی ہوں گی اور یہ ضروریات گھر گھر فراہم کرنی ہوں گی، یہی پیپلزپارٹی کی دیرینہ کوشش اور انتخابی منشور ہے۔ ایک اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ میڈیا بھی ہماری قیادت اور مہم کو کوریج نہیں دے رہا، اس سے جانبداری کا تاثر ابھر رہا ہے، ان منفی اقدامات سے سندھ شدید متاثر ہو سکتا ہے، یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس پی آر نے کالعدم تنظیموں کے الیکشن میں حصہ لینے پہ کہا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے، جو قانون کے مطابق ایسا کرتا ہے، نگران حکومت تو بے بس نظر آتی ہے، یہ کیسے ممکن ہوا ہے؟
اعتزاز احسن:
یہ کیسا تضاد ہے، نگران حکومت سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر سکتی ہے، مگر امیدواروں کو سکیورٹی نہیں دے سکتی، کالعدم جماعتوں کو کیوں کلیئر کیا گیا اور ان کو الیکشن کی اجازت دی گئی، لاہور میں کنیٹنر لگائے جا سکتے ہیں، تو سیاسی امیدواروں کو کیوں سکیورٹی نہیں دی جا سکتی ہے۔ کالعدم جماعتیں قومی دھارے میں کیوں شامل کئے جا رہے ہیں۔ ایک کالعدم جماعت کے 150، دوسری جماعت کے 200 سے زائد امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں، ان میں سے کسی نے تشدد ختم نہیں کیا اور نہ ہی آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان کو کلیئر کس طرح کیا گیا، کالعدم تنظیموں کے سینکڑوں امیدواروں کی کس طرح سکروٹنی کی گئی ہے، زیادہ امکان ہے کہ یہ حکم اوپر سے آیا ہو۔ کسی شخص کا نام فورتھ شیڈول سے ہٹانے کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہوتا ہے، جو کہ ایک جاری عمل ہے۔ اس کے مطابق ایک کمیٹی اس میں شامل افراد کے کردار اور کارروائیوں کا مسلسل جائزہ لیتی رہتی ہے اور اس کے بعد وہ اس کو ہٹانے کی سفارش کرتی ہے۔

فورتھ شیڈول میں انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت ان افراد کے نام شامل کیے جاتے ہیں، جن کے بارے میں دہشت گردی یا فرقہ وارانہ کارروائیوں یا جماعتوں کے ساتھ تعلق ہونے کی حکومت کو اطلاع ہو یا شبہ ہو۔ یہ فہرست انسدادِ دہشت گردی کے قانون کی شق 11 ای ای کے تحت ترتیب دی جاتی ہے۔ کئی ہزار افراد اس شیڈول میں شامل ہیں۔ ان افراد کی حرکات و سکنات پر مسلسل نظر رکھی جاتی ہے اور ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کو کئی پابندیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کا نام فورتھ شیڈول میں شامل کرنے یا پھر اس کو ہٹانے کا فیصلہ صوبائی حکومتوں کا اختیار ہے۔ یہ ذمہ داری اب موجود نگران حکومت کی تھی، جب نسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت ان افراد کے نام شامل کیے جاتے ہیں، جن کے بارے میں دہشت گرد یا فرقہ وارانہ کارروائیوں یا جماعتوں کے ساتھ تعلق ہونے کی حکومت کو اطلاع ہو یا شبہ ہو، تو موجودہ نگران حکومت کو کسیے یقین ہو گیا ہے کہ یہ لوگ اب کسی فرقہ وارانہ اور دہشت گردی کی سرگرمی میں ملوث نہیں ہیں، شدت پسندی چھوڑ چکی ہیں یا انہوں نے اپنا بیانیہ چھوڑ دیا ہے، اگر ایسا ہے تو پھر انہیں  سال ہا سال تک فورتھ شیڈول اور نظر بندی میں کیوں رکھا گیا، انتخابی مہم میں انکے اشتہاروں پہ دہشت گردوں کی تصویریں کیوں لگی ہیں۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی اور اڈیالہ جیل منتقلی پر بہت تبصرے ہو رہے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں؟
اعتزاز احسن:
میرے لیے یہ غیرمتوقع تھا، ان دوں کا واپس آنا، اب بھی ممکن ہے انہوں نے کہیں ڈیل کی ہو، یہ بزدل ہیں، لیکن عدالتیں انہیں رعایت دیتی رہی ہیں۔ دوسرا یہ ہے کہ چھوٹے میاں صاحب نے چالاکی ہے، مجھے لگتا ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کے خلاف سازش ہوئی ہے، نون لیگی قیادت نے نواز شریف کو بلا کر منظر سے ہٹا دیا ہے۔ میں نے سیاسی تاریخ میں نواز شریف اور مریم کے ساتھ سب سے بڑا دھوکہ دیکھا ہے، دونوں کو پاکستان بلا کر ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا ہے، نواز شریف کے ساتھ سراج الدولہ والا سلوک کیا گیا ہے۔ نون لیگ کے اہم رہنماؤں کو ایئرپورٹ داخلے سے کسی نے نہیں روکنا تھا، پنجاب پولیس کی ہلکی سی رکاوٹیں تھیں، شہباز شریف اور شاہد خاقان عباسی کو آخری ناکے تک پہنچنا چاہیے تھا، ایسے مواقع پر پیپلزپارٹی کی قیادت آگے ہوا کرتی تھی۔ کم از کم دس لوگ تو ایئرپورٹ پر نواز شریف سے ہاتھ ملا لیتے، ایاز صادق اور وزیراعظم آزاد کشمیر کہاں رہ گئے تھے، خواجہ سعد رفیق نے لوہے کے جو چنے چبوانے تھے وہ کہاں تھے۔

جب نواز شریف کو اسلام آباد روانہ کیا گیا، اس وقت نون لیگی ایئرپورٹ سے پانچ کلومیٹر دور تھے، مشاہد اللہ خان کو ایئرپورٹ تک پہنچنے پر داد دیتا ہوں۔ اب جیل سے سیاسی معاملات میں نواز شریف کا کردار کم ہو گا، مریم نواز کی ضمانت ہو بھی گئی تو وہ اپنے والد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتیں۔ میں نے حلقہ 120 کے ضمنی انتخابات میں مریم کی جرات مندی کی بھی تعریف کی تھی، لیکن چوہدری نثار جیسے انکل اس کی قیادت اپنے لیے توہین سمجھتے ہیں۔ نون لیگ اب بہت سے مسائل کا شکار ہے، وہ نواز شریف کی قید اور بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو بھی انتخابات میں استعمال نہیں کر سکتے۔ بدعنوانی کی سزا تو ضرور ملنی چاہیے، لیکن بنیادی حقوق سلب نہیں ہونے چاہیں، لاہور میں لیگی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ پہ بلاول نے بھی مذمت کی ہے، جمہوری عمل ہر صورت میں جاری رہنا چاہیے۔ اس کو نواز شریف کی خوش قسمتی کہیں یا کوئی اور عوامل ہیں کہ انہیں اب بھی سہولیات دی گئی ہیں، خلاف قانون انکی فیملی سے ملوایا گیا ہے۔ حالانکہ یوسف گیلانی کو اڈیالہ جیل میں بہت مشکلات پیش آئیں، لیکن کبھی شکایت نہیں کی، انکو والدہ اور بہن کی وفات کی خبر جیل میں ملی تھی۔ نواز شریف کی والدہ، بھائی، بھتیجا، نواسی، نواسی کا شوہر دوسرے دن ہی رات کے وقت ملنے آئے ہیں، انہیں ملنے دیا گیا ہے۔ دنیا امید پہ قائم ہے، مایوس نہیں ہونا چاہیے، کوشش جاری رہنی چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 737914
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش