0
Friday 20 Jul 2018 23:57

عمران خان نے صفائی کی فیکٹری لگائی ہوئی ہے، وہ اُمیدواروں کو پاک کرکے پارٹی میں شامل کر رہے ہیں، ندیم ممتاز قریشی

عمران خان نے صفائی کی فیکٹری لگائی ہوئی ہے، وہ اُمیدواروں کو پاک کرکے پارٹی میں شامل کر رہے ہیں، ندیم ممتاز قریشی
ندیم ممتاز قریشی 15 نومبر 1955ء کو جھنگ کے علاقے اٹھارہ ہزاری میں پیدا ہوئے، والد صاحب انجینئر تھے، ابتدائی تعلیم جھنگ اور لاہور سے حاصل کی، ایم آئی ٹی سے سول انجیئرنگ کی ڈگری حاصل کی، ایم بی اے کی ڈگری ہاورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی اور اسکے علاوہ عربی میں بھی ماسٹر کیا، سیاست سے پہلے زراعت اور ملازمت کرتے رہے، 2010ء میں ایک نئی سیاسی جماعت ''مستقبل پاکستان پارٹی'' کی بنیاد رکھی، وہ اس پارٹی کے بانی چیئرمین ہیں، 2013ء کے الیکشن میں ملتان سے ایم این اے کی سیٹ پر پہلا الیکشن لڑا، اب 2018ء میں این اے 156 اور این اے 114 سے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے گذشتہ دنوں انکا انٹرویو کیا، جو قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: سو سے زائد سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں ایک نئی جماعت کے بنانیکا کیا مقصد تھا۔؟
ندیم ممتاز قریشی:
ہم نے مستقبل پاکستان پارٹی کی بنیاد 2010ء میں رکھی، اس سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ میرا کوئی سیاسی بیگ گرائونڈ نہیں تھا، میں اصل میں میں ایک انجینیئر ہوں، کچھ عرصہ ملازمت سے بھی وابستہ رہا، اپنی زمینیں بھی ہیں، میری کبھی نیت ہی نہیں تھی سیاست کی، جو لوگ مجھے جانتے ہیں، اُن کے لئے میرا یہ فیصلہ حیران کُن تھا، بنیادی وجہ یہ تھی کہ مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ ہمارے ملک میں ایک بنیادی مسئلہ ہے، حالانکہ پاکستان کے پاس دنیا جہاں کے بے شمار وسائل ہیں، لیکن اس کی عوام غریب ہے، جس پر ہم نے غور و فکر کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ملک تو امیر ہو لیکن اُس کے شہری غریب ہوں، اس سوچ و بچار کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمارا ایک بنیادی مسئلہ ہے، وہ مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو ہم ذمہ داری دیتے ہیں کہ آپ اس ملک کو چلائیں، آپ اس کی اسمبلی میں جا کر بیٹھیں، جو بعد میں وزراء، وزیراعظم اور صدر کا انتخاب کرتے ہیں، ان میں اتنی قابلیت نہیں ہے کہ یہ قوم کے فیصلے کرسکیں۔

نہ ان کی اتنی تعلیم ہے، نہ تجربہ ہے اور نہ ہی ان کی نیت ہے کہ وہ یہ اہم ذمہ داری کامیابی کے ساتھ سنبھال سکیں، ہمارا مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو لوگ سیاست میں ہیں، اُن کا تعلق ایک مخصوص طبقے کے ساتھ ہے، یا تو یہ لوگ جاگیردار، وڈیرے ہیں یا موروثی سیاستدان ہیں، جو نسل در نسل چلے آرہے ہیں، ان لوگوں نے ملکی سیاست پر قبضہ کیا ہوا ہے، ان کے علاوہ اور کوئی سیاست میں آنے کی جرات نہیں کرتا، جس کے بعد میں نے اور میرے ساتھیوں نے یہ سوچا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم جیسے پڑھے لکھے لوگ سیاست میں اپنی جگہ بنائیں، ملک کی ترقی اُس وقت ممکن ہوگی، جب ہم ملک کے دیانتدار اور پڑھے لکھے لوگوں کو اسمبلیوں تک لائیں گے، یہ ہماری جماعت بنانے کی سوچ تھی، جس کی بنیاد پر ہم نے ایک نئی جماعت کا آغاز کیا۔

اسلام ٹائمز: آپکی جماعت کو تقریبا 8 سال مکمل ہوچکے ہیں تو آپکا تجربہ کیسا رہا۔؟
ندیم ممتاز قریشی:
بہت مشکل ہے لوگوں کی سوچ بدلنا، ان روایتی سیاستدانوں کا مقابلہ کرنا، کچھ کہتے ہیں ناممکن ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ناممکن نہیں ہے، ورنہ میں شروع ہی نہ کرتا، لیکن مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ یہ بہت بڑا کام ہے، مجھے یہ بھی علم نہیں کہ آیا میں اپنی آنکھوں سے یہ خواب پورا ہوتے ہوئے دیکھ بھی سکوں گا یا نہیں، یہ کم مدت میں ہونے والا کام نہیں اس کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہے، مجھے لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہو، یہ کام ہونے والا نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: اسوقت ہماری قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں کتنے ایسے افراد ہیں، جنہوں ایم فل یا پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔؟
ندیم ممتاز قریشی:
اگر کوئی ہیں بھی سہی تو ان افراد کو انگلیاں پر گنا جاسکتا ہے، بہت ہی کم ہیں، اس لئے میں نے عموماً کا لفظ استعمال کیا ہے، اگر وہ ہیں بھی سہی تو کسی نہ کسی جماعت کے مرہون منت ہیں اور وہ اپنی جماعت کے غلام ہیں، ممکن ہے کہ لوگ پی ایچ ڈی بھی ہوں لیکن وہ ذہنی غلام ہیں اور اپنے ان پڑھ پارٹی سربراہ کے سامنے بات کرنے کی جرات تک نہیں کرسکتے، وہ پارٹی کی سوچ اور پالیسی سے تجاوز نہیں کرسکتے، ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو آزاد سوچ کے حامل ہوں، اُن کی فکر آزاد ہو، قوم کا درد رکھتے ہوں، ایسے اُمیدوار جو ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں میں ذاتی مفاد غالب ہے اور قوم کی پرواہ کئے بغیر وہ اپنے مفادات کو بالاتر سمجھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ الیکشن میں بہت سارے پڑھے لکھے چہرے اسمبلی میں پہنچے، اُن میں کام کرنیکا جذبہ بھی تھا لیکن وقت کیساتھ ساتھ وہ بھی باقی اُمیدواروں کیطرح کام کرنے لگے۔؟
ندیم ممتاز قریشی:
معلوم نہیں کہ آپ کا اشارہ کن لوگوں کی طرف ہے، گذشتہ الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے کچھ نئے لوگ آئے تھے، شاید آپ کا اشارہ بھی اسی جانب ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ان کے قائد کا بھی قصور ہے، کیونکہ وہ اپنے اصل نظریہ اور سوچ سے ہٹ گئے تھے، شروع میں اُن کی بھی یہی سوچ اور ویژن تھا کہ ہم نئے لوگوں کو آگے لائیں گے، پڑھے لکھے لوگوں کو آگے لائیں گے، محب وطن افراد کو موقع دیں گے، لیکن وہ اپنے نظریات پر قائم نہیں رہ سکے اور جب وہ اپنے نظریئے سے ہٹ گئے تو اُن کی پہلی ترجیح اقتدار کا حصول بن گیا کہ کسی نہ کسی طرح ہم اقتدار میں آجائیں، چاہے جیسے بھی اُمیدوار ملتے ہیں، اُن کو لیں اور اپنی حکومت بنائیں، اُسی دن ہی اس جماعت کا نظریہ دفن ہوگیا تھا، آج آپ دیکھتے ہیں کہ پوری قوم کے چنے ہوئے افراد پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہیں، وہ تبدیلی کا نعرہ وہیں دفن ہوگیا، ان لوگوں نے اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے جو کردار پارلیمنٹ میں ادا کرنا تھا، وہ بالکل ادا نہیں کیا بلکہ پارلیمنٹ سے باہر نکل کر ایک نئی پارلیمنٹ لگا دی، دھرنوں کی سیاست اور لاک ڈائون کی سیاست متعارف کرائی۔

اسلام ٹائمز: اسوقت پاکستان تحریک انصاف میں دیگر جماعتوں کے مسترد شدہ افراد موجود ہیں، کیا یہ لوگ تبدیلی لاسکیں گے۔؟
ندیم ممتاز قریشی:
میرا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو وہ ہدف ملنا بہت مشکل ہے، کیونکہ جب آپ اس طرح کے روایتی لوگ لے آئیں، ہم مانتے ہیں کہ عمران خان صاحب خود ایک سیدھے سادھے اور مخلص انسان ہیں، لیکن جب ان کے دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے ساری اسمبلیاں ایسے افراد سے بھر جائیں، جن کے ماضی داغدار ہوں تو ان سے ایک نئے پاکستان کی تعمیر ایک معجزہ ہی ہوسکتا ہے، ہوسکتا ہے خان صاحب ان پر اپنا کنٹرول باقی رکھ سکیں، میں سمجھتا ہوں کہ خدا نے عمران خان صاحب کو ایک تاریخی موقع دیا تھا، جو اُنہوں نے گنوا دیا، آپ دیکھیں کہ عوام میں ان کی مقبولیت کی وجہ کیا تھی، یہی کہ میں اس ملک کو ان روایتی اور کرپٹ سیاستدانوں سے پاک کروں گا، لیکن وہ انہوں نے کرپٹ سیاستدانوں سے پاک کرنے کی بجائے انہیں اپنے ساتھ ملا لیا ہے، صرف یہی وعدہ تھا، اس کے علاوہ اور کوئی نعرہ نہیں تھا۔

اسلام ٹائمز: این اے 156 اور این اے 114 میں مخدوم فیصل صالح حیات اور مخدوم شاہ محمود قریشی کے مقابلے میں الیکشن لڑنیکا انتخاب کیوں کیا۔؟
ندیم ممتاز قریشی:
اس کی وجہ یہ ہے کہ بنیادی طور پر ملتان ہمارا مرکزی دفتر ہے، یہاں ہم نے کام بھی کیا ہے، ہماری پارٹی کا پہلا دفتر بھی ملتان میں بنا، یہ تاریخی وجہ ہے، جس کی وجہ سے ہم نے اس شہر کا انتخاب کیا۔ این اے 114 کا انتخاب اس لئے کیا کیونکہ وہ میرا آبائی علاقہ ہے، وہاں ہماری زمینیں ہیں، ایک چھوٹا سا ڈیرہ بھی۔ میں وہاں کافی وقت گزارتا ہوں اور میں نے اپنے والد صاحب کے ساتھ مل کر وہاں بہت کام بھی کیا ہے، وہاں بہت غربت اور پسماندگی ہے، جس کی وجہ سے وہاں ہماری ایک پہچان ہے، اس لئے ہم نے وہاں کا انتخاب کیا، ملتان کے حلقہ این اے 156 میں الیکشن لڑنے کی ایک اور وجہ ہے کہ ہمیں اس بات کا علم تھا کہ مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب اس حلقے سے الیکشن لڑیں گے، ہمارا مقصد تھا کہ ہم ایک ایسی مضبوط شخصیت کے سامنے لڑیں، تاکہ اگر ہماری ایک اچھی پوزیشن ہو تو ہماری جماعت کی پہچان بنے، کیونکہ اس قدآور شخصیت کے حلقے پر میڈیا کی نظریں موجود ہیں، اچھے نتائج کی بناء ہماری پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا، جو ہمارے لئے اور پارٹی دونوں کے لئے فائدہ مند ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ زیادہ بہتر نہیں تھا کہ ان دو حلقوں کی بجائے کسی ایک حلقے کا انتخاب کرتے، تاکہ آپ اُس پر بھرپور توجہ دے سکتے۔؟
ندیم ممتاز قریشی:
یہ میرے لئے واقعی بہت مشکل مرحلہ ہے، دونوں حلقوں میں وقت دینا، اصل میں یہ پارٹی کا فیصلہ تھا، میں نے تو کہا تھا کہ مجھے ایک حلقے سے الیکشن لڑنا چاہیے، لیکن پارٹی کا فیصلہ تھا تو قبول کرنا پڑا، پارٹی عہدیداران بضد تھے کہ ملتان کا حلقہ اس لئے بھی اہم ہے کہ یہاں سے پبلسٹی کا بھی زیادہ چانس ہے اور یہاں سے اگر ہم ایک اچھا رزلٹ دیتے ہیں تو یہ جماعت کے لئے بہت مفید ہوگا، اسی طرح اگر جھنگ والا حلقہ چھوڑ دیں تو یہ بہت بُرا لگے گا، لہذا مجھے پارٹی فیصلوں کے آگے مجبوراً اسے قبول کرنا پڑا۔

اسلام ٹائمز: بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایجوکیشن سسٹم میں جو دہرا معیار ہے اور بعض اوقات وزیر تعلیم ہی جعلی ڈگری ہولڈر ہوتا ہے تو اسطرح عوام پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
ندیم ممتاز قریشی:
ہمارا جہاد بھی اسی چیز کے خلاف ہے، جعلی ڈگری ہولڈر وزراء اس لئے بنتے ہیں کیونکہ ہم نے نااہل لوگوں کو اسمبلیوں میں بٹھایا ہوتا ہے، ہماری پارٹیوں کے جو سربراہان ہیں، اُنہوں نے ایم پی اے، ایم این اے سے حمایت حاصل کرنے کے عوض اُنہیں کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ آپ اپنے حلقے میں جو مرضی کریں لیکن ووٹ ہمیں دیں، یہ ممبران اسمبلی حلقے میں چوری، رسہ گیری، ناجائز مقدمات کراتے ہیں، نہ میں آپ سے کوئی سوال کروں اور نہ آپ مجھ سے سوال کریں گے، ہم نے اس سوچ کو توڑنا ہے، یہ سوچ ماحول، گھر اور علم سے تبدیل ہوسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ نون میں جو دراڑیں پڑی ہیں، یہ جماعت کا تاریک مستبقل دیکھ کر بدلے ہیں یا نون لیگ کیجانب سے اداروں سے محاذ آرائی انکی جدائی کا سبب بنی ہے۔؟
ندیم ممتاز قریشی:
یہ لوگ مسلم لیگ نون میں اس لئے تھے کہ اپنے مفادات کا تحفظ کرسکیں، جب ان کا مفاد خطرے میں پڑا تو انہوں نے جماعت کو خیرباد کہہ دیا، یہ لوگ جماعت کے ساتھ مخلص نہیں ہیں، یہ اپنے ضمیر کی آواز نہیں سنتے، یہ صرف مفاد کی آواز سنتے ہیں، ان کو علم ہوچکا ہے کہ اب مستقبل اس ماضی کا تاریک ہے، لہذا وہ نئی پارٹی کی تلاش میں ہیں اور بدقسمتی کے ساتھ عمران خان صاحب نے ایک صفائی کی فیکٹری لگائی ہوئی ہے، وہ اُمیدواروں کو پاک کرکے پارٹی میں شامل کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بعض سیاسی شخصیات اور جماعتوں کیجانب سے پاک فوج کی کردار کشی کا سلسلہ جاری ہے، اسکے پیچھے کون ہے۔؟
ندیم ممتاز قریشی:
میں سخت مخالف ہوں ایسے شخص کا جو ہماری محب وطن فوج کے خلاف بات کرتا ہے، ہم سب کو پاک فوج کے ساتھ ہمدردی رکھنی چاہیے، اُن کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے، ہمارے سکون کی خاطر وہ اپنی نیند کو قربان کر دیتے ہیں، ملک کے اندر اور بارڈر پر ہر جگہ ہماری حفاظت کر رہے ہیں، ہمارے سیاستدانوں کو اُن پر تنقید کی بجائے اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کا صفایا کرنا چاہیے، میں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف صاحب نے بہت بڑی غلطی کی ہے، جو وہ خود اور اپنے نچلے کارندوں کو فوج کے خلاف بات کرنے کا سبق دیتے ہیں، پاک فوج کے خلاف ان کے اقدامات ان کو لے ڈوبیں گے، عوام باشعور ہے اور مسلم لیگ سے ایسے اقدامات کی وجہ سے نالاں ہے، عوام اس کا جواب 25 جولائی کو دے گی، آج اگر ہمارے ملک میں فوج نہ ہوتی تو ملک کئی حصوں میں تقسیم ہوچکا ہوتا، ہماری فوج کبھی بھی تنہا نہیں ہے، آج پوری قوم پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں پانی کی قلت کا سامنا ہے، ماہرین کی رائے میں اگر پانی کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو صورتحال بدتر ہوسکتی ہے۔؟
ندیم ممتاز قریشی:
قوم کو شاید اس مسئلے کی سنگینی کا علم نہیں ہے، لیکن آہستہ آہستہ اس کا احساس ہوگا، جب ان کے گھروں تک پانی نہیں پہنچے گا، بدقسمتی سے ہمارے سابق حکمرانوں نے بہت سارے پیسے فضول خرچ کئے ہیں، کہیں میٹرو چلا دی، کہیں اورنج لائن چلا دی، ایک بڑی رقم سی پیک پر خرچ کر دی، یہ تمام چیزیں ملک کو اس وقت فائدہ دیں گی، جب ملک کی معیشت مستحکم ہوگی اور ملک کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے اور زراعت کا انحصار پانی پر ہے، پانی کی جو شدید قلت ہے، اگر اس پر آج کام شروع کیا جائے تو میرے خیال میں اس کو ٹھیک کرنے میں آٹھ سے دس سال کا وقت لگے گا، سب سے پہلے تو ڈیم بنانا بہت ضروری ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم نہیں بنے گا، یہ ہماری قبروں پہ بنے گا، اب شاید واقعی اُن کی قبروں پر بنانا پڑے، کیونکہ ملکی سلامتی اسی میں ہے، دوسری بات ہمارے ملک میں پانی کا استعمال غلط ہے، ہم پانی کو بہت ضائع کرتے ہیں، پاکستان میں جو فصلیں اُگائی جاتی ہیں، وہ پانی زیادہ طلب کرتی ہیں، اگر پاکستان میں گنے اور چاول کی کاشت نہ کی جائے اور اس کے بدلے میں وہ فصلیں اُگائی جائیں، جو کم پانی طلب کرتی ہیں تو پانی کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 739105
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش