0
Sunday 2 Sep 2012 06:01

اگر شیعہ کافر ہیں تو پھر نعوذباللہ قائداعظم بھی کافر ہیں، الطاف حسین

اگر شیعہ کافر ہیں تو پھر نعوذباللہ قائداعظم بھی کافر ہیں، الطاف حسین
اسلام ٹائمز۔ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا ہے کہ پاکستان داخلی و بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے، ہماری نااتفاقیوں سے دشمنان پاکستان فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لسانی، ثقافتی، صوبائی اکائیوں کے درمیان یکجہتی کے ساتھ ساتھ مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، ایم کیو ایم بین المذاہب ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بھی چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی مسلک یا فقہ سے تعلق رکھنے والے بے گناہ مسلمان کا قتل سراسر ظلم، بربریت، حیوانیت اور درندگی ہے۔ لہٰذا علمائے کرام، مشائخ عظام اور ذاکرین بے گناہ مسلمانوں کی قتل و غارت گری کی روک تھام، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ اور اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں جلد از جلد ایک فورم تشکیل دیں، جس میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام کی نمائندگی ہو۔ ان خیالات کا اظہار الطاف حسین نے ایم کیو ایم کے تحت لال قلعہ گراؤنڈ عزیزآباد میں اتحاد بین المسلمین کانفرنس میں شریک تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

کانفرنس میں پاکستان کے تمام شہروں سے تعلق رکھنے والے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام، مشائخ عظام، ذاکرین اور دینی تنظیموں کے نمائندگان نے بہت بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کانفرنس میں بھارت سے تشریف لانے والے درگاہ خواجہ نظام الدین اولیا (رہ) کے سجادہ نشین سید ناظم علی نظامی نے بھی خصوصی شرکت کی۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے الطاف حسین نے کانفرنس میں شرکت کیلئے کراچی کے علاوہ صوبہ سندھ کے شہروں حیدرآباد، سکھر، نوابشاہ، پنجاب کے شہر لاہور، اٹک، ملتان، جہلم چکوال، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، گلگت اور بلتستان سے آنے والے تمام مسالک کے جید علمائے کرام، ذاکرین اور دینی تنظیموں کے نمائندگان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت بے پناہ داخلی و بیرونی خطرات میں گھرا ہوا ہے، ان حالات میں اتحاد بین المسلمین کی بے پناہ ضرورت ہے، کیونکہ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو دشمنان پاکستان ہماری نااتفاقیوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

الطاف حسین نے کہا کہ بہت سے لوگوں نے گزشتہ دنوں دیئے گئے میرے بیانات پر اعتراضات اٹھائے کہ میں ایک مسلک کیلئے بات کر رہا ہوں اور میں نے قائداعظم (رہ) کے مسلک کو کیوں چھیڑا۔ آپ علمائے کرام اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ مسلکوں کی بات نہ کرو، اگر مسلکوں کی بات کرتے رہے تو پھر بات بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح (رہ) کے مسلک تک جائے گی۔ لیکن میری بات پر کسی نے کان نہیں دھرا۔ پہلے شیعہ اور سنیوں کی ٹارگٹ کلنگ کے انفرادی واقعات ہوا کرتے تھے، ہم اس وقت بھی بے گناہ شہریوں کے قتل کی مذمت کرتے رہے، لیکن آج بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اہل تشیع حضرات کو نہ صرف شناخت کرکے قتل کیا جا رہا ہے بلکہ یو ٹیوب پر اس قتل عام کی وڈیو بھی اپ لوڈ کی جا رہی ہیں اور شیعہ کافر کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اگر شیعہ کافر ہیں تو پھر نعوذباللہ قائداعظم بھی کافر ہیں، اس لئے کہ میں وثوق سے کہتا ہوں کہ قائداعظم کا مسلک اثناء عشری شیعہ تھا اور میں اپنے اس مؤقف پر اس وقت تک قائم رہوں گا جب تک کوئی اس کے خلاف ٹھوس ثبوت نہیں لاتا۔

الطاف حسین نے علمائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے دریافت کیا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی، ایم آئی، انٹیلی جنس بیورو، فرنٹیئر کانسٹیبلری رینجرز اور پیرا ملٹری فورسز کہاں ہیں؟ اگر یہ ادارے بے گناہ انسانوں کی جان و مال کے تحفظ میں ناکام ثابت ہونگے تو پھر شہریوں میں انتشار بڑھے گا۔ ملک میں امن عامہ قائم رکھنا اور شہریوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے، جن پر بجٹ کا 80 فیصد حصہ مختص کیا جاتا ہے، اگر لوگوں کو اسی طرح دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے تو پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ختم کرکے عوام کو اپنی حفاظت خود کرنے کی آزادی دے دینی چاہئے۔ 

آپ مجھے شیعہ کہیں، اہل حدیث، بریلوی، سنی یا کافر ہی کیوں نہ کہیں، مجھے اس کی پرواہ نہیں مگر خدارا پاکستان کے لوگوں کو پاکستانی سمجھو اور پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچالو۔ پاکستان کے سیاسی رہنما جو ان سنگین حالات میں بھی الیکشن اور اقتدار کی باتیں کر رہے ہیں وہ انسانیت کے نہیں بلکہ حیوانیت اور یزیدیت کے دوست ہیں، ایسے عناصر حسینیت کے دوست نہیں ہوسکتے اور جو حسینیت کا دوست نہیں ہے وہ سرکار دو عالم (ص) کا بھی دوست نہیں ہوسکتا۔

الطاف حسین نے کہا کہ اب باتوں کا وقت نہیں ہے بلکہ عمل کا وقت ہے، یہ امر افسوسناک ہے کہ بےگناہ شہریوں کے قاتل پکڑے جاتے ہیں، لیکن پھر آزاد کر دیئے جاتے ہیں۔ کیا عدلیہ کی آزادی کا یہ مطلب ہے کہ سو سو قتل کرنے والے رہا کر دیئے جائیں اور لاکھوں عوام کے منتخب وزیراعظم کو سزا دیکر وزارت عظمٰی سے ہٹا دیا جائے، میں پاکستان کی سپریم کورٹ سے کہتا ہوں کہ وہ جہاں حکمرانوں کا احتساب کرتے ہیں، وہاں وہ ہائی کورٹ اور سیشن کورٹ کے ان ججوں کا بھی احتساب کریں، جو جانے پہچانے قاتلوں کو رہا کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلح افواج، آئی ایس آئی اور حکومت کو جراتمندانہ اقدامات کرنے ہونگے، اگر انہوں نے جراتمندی کا مظاہرہ نہیں کیا تو وہ پھر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور خدانخواستہ پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ نہ جائے۔
خبر کا کوڈ : 191959
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش