4
0
Friday 29 Aug 2014 22:06

نواز شریف حکومت تصادم کی راہ پر؟

نواز شریف حکومت تصادم کی راہ پر؟
تحریر: عرفان علی 

پاکستان کے موسم کو سیاسی گرمی نے مزید گرما دیا ہے۔ کل رات میں مطمئن ہوکر سویا کہ اب بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں فریقین موجودہ سیاسی بحران کے کسی ایسے حل تک ضرور پہنچ جائیں گے جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ لیکن صبح ناشتے سے فارغ ہوکر ٹی وی کے سامنے بیٹھا تو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا قومی اسمبلی میں خطاب سن کر پھر پریشانی عود کر آئی۔ ان کا لب و لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ افہام و تفہیم سے مسئلے کا حل ڈھونڈنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی توپوں کا رخ حکومت مخالف دھرنوں کے قائدین کی طرف تھا۔ قومی اسمبلی میں بڑی گرما گرم تقریریں ہوئیں۔ وزیراعظم نواز شریف، قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سمیت سب ’’جمہوریت‘‘ کے دفاع میں پیش پیش تھے۔ ان کی باتوں سے تاثر یہ ابھرا کہ حکومت فوج کو درمیان میں نہیں لائی۔

دن بھر اس حکومتی موقف کو فوج کی توہین سمجھا جاتا رہا۔ فوج پر عوامی دباؤ تھا کہ وہ وضاحت کرے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے وضاحت کر دی کہ حکومت کے کہنے پر فوج نے facilitative کردار ادا کیا۔ اس لفظ کا مطلب یہ ہے کہ فوج مذاکراتی عمل میں آسانیاں فراہم کرے۔ مشکلات کو ختم کرے یا کم کرے۔ یہ لفظ mediate سے مختلف ہے، جس کا مفہوم فریقین کے مابین تنازعے کا حل تلاش کرنے کے لئے کوئی تیسرا مداخلت کرتا ہے یا دونوں سے رابطہ کرکے حل تجویز کرنا ہے۔ بظاہر یہ دونوں الفاظ ایک ہی عمل کو ظاہر کرتے ہیں لیکن حکومت نے جو لفظ استعمال کیا اس کی وضاحت کر دی کہ ثالثی یا ضامن کا کردار ادا کرنے کا نہیں کہا۔ وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کی اور وضاحت کی کہ وزیراعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ اختیار نہ بھی دیتے، تب بھی وہ یعنی فوج خود بھی وہاں دھرنے کے قریب موجود ہے اور ان کا ان سے انٹر ایکشن (باہمی تعامل) ویسے بھی رہتا ہے جیسا کہ پولیس وغیرہ کا بھی ہے۔

بہرحال الفاظ کے ہیر پھیر سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوسکتی کہ فوج کو حکومت کی مشکلات کم کرنے یا حکومت کے لئے مذکراتی عمل میں آسانیاں فراہم کرنے کے لئے حکومت نے خود کہا تھا اور ایسا وزیراعظم نواز شریف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملاقات کے دوران کہا گیا۔ چوہدری نثار نے بھی ایک پریس کانفرنس میں یہی کچھ کہا۔ یہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان اور ان کے احتجاج میں شرکت کرنے والوں کی ایک اور اخلاقی فتح ہے، یعنی ایسا قادری و خان صاحبان کی خواہش پر نہیں بلکہ حکومت کی خواہش پر فوج سامنے آئی۔ وزیراعظم کا یہ بیان کہ حکومت نے فوج کو کوئی درخواست نہیں دی، ان کی ساکھ کو مزید کم کر گیا ہے۔ چوہدری نثار نے وضاحت کی کہ فوج کو ضامن بننے کا نہیں کہا۔ ضامن یا ثالث نہ سہی مشکلات ختم کرنے، کم کرنے اور مذاکراتی عمل میں آسانیاں فراہم کرنا ہی سہی، لیکن یہ حکومت نے کہا تھا۔

بندہ 12 اگست سے27 اگست تک اس ایشو پر تین کالم لکھ چکا ہے جن میں سے دو اسلام ٹائمز ویب سائٹ پر آپ پڑھ چکے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ دو مرتبہ سحر اردو ٹی وی کے پروگرام انداز جہاں میں بھی اینکر پرسن علی عباس رضوی صاحب کے سوالات کے جواب میں اپنی رائے بیان کرچکا ہوں۔27 اگست کے پروگرام میں واضح کرچکا تھا کہ غیر یقینی کی صورتحال ہے اور کوئی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔ ایسا اس لئے تھا کہ قادری صاحب اور عمران خان اپنی ڈیڈلائن میں توسیع کرتے رہے تھے اور کئی ایشوز پر لچک کا مظاہرہ بھی کرچکے تھے۔ علی عباس رضوی صاحب کا سوال تھا کہ کیا آج یعنی بروز بدھ ڈراپ سین ہوسکتا ہے یا نہیں؟ آج 29 اگست کی شب تک آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ ڈیڈ لائن ختم کرنے کے بعد مزید 50 گھنٹے گذر چکے ہیں۔ یوم انقلاب اور یوم آزادی تاحال نہیں منایا جاسکا۔

جمعہ کی شب تک حکومت اور عوامی تحریک کے درمیان 3 گھنٹے مذاکرات ہوئے ہیں۔ اس کی تفصیلات حکومتی وفد کے قائد اسحاق ڈار نے میڈیا کو بتا دی ہیں۔ البتہ وزیراعظم نواز شریف کے استعفٰی کے مطالبے کو خارج از امکان قرار دیا۔ بندہ یہ عرض کرچکا کہ اس مسئلے کا ایک ممکنہ حل یہی نظر آرہا ہے کہ فریقین کی فیس سیونگ ہو۔ یعنی حکومت کے مخالف رہنما باعزت طریقے سے استعفٰی کے متبادل کوئی ایسے مطالبے پر راضی ہوں، جس سے بعد ازاں وزیراعظم کی رخصتی ممکن ہوتی دکھائی دے، جیسے کہ تحقیقات میں ثابت ہو جائے کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور الیکشن میں دھاندلی میں ملوث تھے۔ اسی طرح حکومت کچھ مدت کے لئے وزیراعظم کی تبدیلی پر راضی ہوجائے یا صرف شہباز شریف کو عہدہ چھوڑنا پڑے۔

بندہ عرض کرچکا کہ فزکس میں نیوٹن کے قوانین حرکت ہیں، ان میں سے ایک یعنی پہلا قانون حرکت کہتا ہے کہ کوئی رکی ہوئی چیز خود بخود حرکت میں نہیں آسکتی بلکہ اسے متحرک کرنے لئے ایک بیرونی قوت درکار ہوتی ہے۔ حکومت نے دیگر مطالبات تسلیم کرلئے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بعد ازاں حکومت مکر جائے یا عمل نہ کرے، ٹال مٹول کرے تو ایسی صورت میں کیا ہوگا؟ کون حکومت کو مجبور کرسکے گا؟ جماعت اسلامی کہہ چکی کہ اگر ایسا ہوا تو وہ بھی حکومت مخالف تحریک کا حصہ بن کر اگلی مرتبہ ان کے ساتھ سڑکوں پر ہوگی، لیکن ضامن یا ثالث ایسا درکار ہے جس کی وجہ سے فریقین مطمئن ہوجائیں۔ فوج کے علاوہ ایسا کوئی ادارہ نہیں جو اس بیرونی قوت جس کا تذکرہ کیا گیا کا کردار ادا کرسکے۔ 

قوم نے دیکھ لیا کہ ان کے facilitative کردار کو بھی حکومت نے متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ حکومت مسئلے کو غیر ضروری طول دے رہی ہے۔ حکومت تصادم کی راہ پر گامزن ہے۔ چوہدری نثار کی قومی اسمبلی میں تقریر سے لگ رہا تھا کہ وہ دھرنا دینے والوں کو فوج کے سامنے کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ 12 اکتوبر 1999ء کو شام ساڑھے 6 بجے کے بعد نظر نہیں آئے جبکہ نواز لیگی حکومت کے سرکردہ تمام افراد فوجی بغاوت کے نتیجے میں گرفتار یا نظر بند تھے۔ آصف زرداری بھی نواز شریف سے کہہ چکے کہ چوہدری نثار کے ہوتے ہوئے انہیں دشمنوں کی ضرورت نہیں۔ رائے ونڈ میں کھانے کی دعوت میں زرداری کی خواہش پر چوہدری نثار اور شہباز شریف کو نواز شریف نے مدعو نہیں کیا تھا۔

نواز شریف، آصف زرداری کی نرمی والی پالیسی کے مشورے کے برعکس ایک اور مرتبہ فوج سے تصادم کی راہ پر گامزن دکھائی دیتے ہیں، خدا خیر کرے۔ معروف تجزیہ نگار امتیاز گل کا کہنا ہے کہ وہ چار فوجی جرنیلوں کا ستعفٰی طلب کرچکے ہیں۔ یہ سال پانچ جرنیلوں کی ریٹائرمنٹ کا سال ہے، جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ ظہیر الاسلام اور کراچی، پشاور، گوجرانوالہ اور مرگلہ کور کے کور کمانڈرز ہیں۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ نواز شریف انہی جرنیلوں سے خوفزدہ ہیں اور قبل از وقت فارغ کرنا چاہتے ہیں۔ فوج میں نواز حکومت کے خلاف بہت پہلے سے ماحول سازگار ہے۔ ماہانہ بنیادوں پر جو اندرونی رپورٹ تیار کی جاتی ہے، اس میں فوج کے خلاف ماحول سازگار کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ سابق فوجی افسران کی تنظیم نے بھی نواز حکومت کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ اس صورتحال کا دوسرا رخ ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے فوج سے اور کور کمانڈرز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آئینی طور پر کردار ادا کرتے ہوئے حکومت کو فارغ کر دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نواز شریف کی جگہ ہوتے تو استعفٰی دے دیتے۔ دھرنا ہوتا یا نہ ہوتا تب بھی نواز لیگی حکومت ان مسائل سے دوچار تھی۔

آئینی طور پر اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ نواز شریف رضاکارانہ طور پر استعفٰی دیں کیونکہ پارلیمنٹ میں ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا فی الحال امکان نہیں ہے۔ مخدوم امین فہیم نے ذاتی طور پر تجویز دی ہے کہ نواز شریف چھٹی پر چلے جائیں، عمرہ کرنے، حج کرنے یا کسی بھی مقصد سے ملک سے باہر چلے جائیں اور کسی کو اپنا قائم مقام مقرر کر دیں، لیکن تاحال اس پر لیگی حکومت منفی ہے۔ مذاکرات کا اگلا راؤنڈ کب ہوگا، نہیں معلوم۔ میرے وہ دوست جنہوں نے 27 اگست کو انداز جہاں پروگرام میں دیکھا اور سنا وہ گواہی دیں گے کہ میرا تجزیہ اب تک درست ثابت ہوا ہے کہ غیر یقینی اب بھی برقرار ہے، ناقابل پیشن گوئی صورتحال ہے۔ خدا حکومت اور دھرنے کے قائدین کو جلد یہ مسئلہ حل کرنے کی توفیق دے۔ قوم اسلام آباد سے اچھی خبر کی منتظر ہے۔
 
ڈیڈ لائن میں توسیع پر توسیع کے بعد عوام دھرنے کے قائدین سے بھی بے زار ہوسکتے ہیں، قادری صاحب کے اتحادی بزرگان سے گذارش ہے کہ اس پر بھی توجہ دیں۔ حکومت سے درخواست ہے کہ اب تک پرامن حل کے لئے صبر کیا ہے تو مزید برداشت کا مظاہرہ کریں۔ ملکی آئینی اداروں اور ماتحت اداروں میں تصادم کسی کے مفاد میں نہیں۔ پرامن دھرنوں پر کریک ڈاؤن بھی حکومت کے مفاد میں نہیں۔ فوج کا اقتدار میں آنا بھی مسئلے کا حل نہیں ہے اور اس غیر آئینی کام سے فوج کو دور ہی رکھا جائے تو بہتر ہے، لیکن نواز لیگی حکومت خودکش سیاسی روش ترک کرے، ورنہ خودکشی میں دوسروں کا خاتمہ ہو یا نہ ہو، حکومت کا خاتمہ یقینی ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 407254
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Correct Sir.
سلام
عرفان بھائی نے چوہدری نثار کے بارے میں اشارتاً جو لکھا اس کا ثبوت ڈان کی یہ رپورٹ ہے جو آج اس کی ویب سائٹ پر آئی ہے۔ http://www.dawn.com/news/1128719/army-as-facilitator-was-nisars-brainwave
ناصر
Pakistan
U were hundred percent right. We all see Nawaz govt on collision course a day after your advice that Nawaz govt should not resort to suicidal politics. Thanks to Irfan sb and Islam Times.
جیو عرفان صاحب
آپ نے جو چوہدری نثار کے بارے میں لکھا: ۔ حکومت تصادم کی راہ پر گامزن ہے۔ چوہدری نثار کی قومی اسمبلی میں تقریر سے لگ رہا تھا کہ وہ دھرنا دینے والوں کو فوج کے سامنے کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں۔،،، اتوار ۳۱ اگست کو دنیا نیوز میں کامران شاہد کے پروگرام فرنٹ لائن میں شام ساڑھے چار بجے یہ انکشاف کیا گیا کہ چوہدری نثار نے پارلیمنٹ ہائوس سے پولیس ہٹا دی تھی اور فوج کو مطلع نہیں کیا تھا۔ u r right and your analysis is cent percent accurately correct sir.
ہماری پیشکش